"MIK" (space) message & send to 7575

ڈھونڈنے کی چیز ہے نہ پانے کی

اس حقیقت پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ جو لوگ خوش رہنے پر یقین رکھتے ہیں اُن کا پُرمسرت رویہ پورے وجود کو کلی سے پھول بنادیتا ہے۔ طبیعت اُسی وقت کھلی کھلی رہتی ہے جب انسان اپنے آپ سے اور پورے ماحول سے مطمئن ہو اور زیادہ سے زیادہ خوشی کا حصول یقینی بنانے پر یقین رکھتا ہو۔ بھری دنیا میں کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ ہو جو خوش رہنے کا متمنّی نہ ہو۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ کم و بیش ہر معاشرے میں بیشتر انسان خاصی بیزاری کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے ملتے ہیں؟ خوش رہنا انسان کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ کوئی کسی کو ایسی حالت میں خوش نہیں رکھ سکتا کہ وہ خود خوش رہنے پر یقین نہ رکھتا ہو۔ ایک زمانہ خوشی کی تلاش میں سرگرداں ہے اور یہ قصہ ہر دور کا ہے۔ ہر دور کے انسان نے چاہا ہے کہ اُس کی زندگی خوشیوں سے بھر جائے اور قدم قدم پر بے مثال سُکون نصیب ہو۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ یقینا! ایسا ممکن ہے۔ ہر دور میں بہت سوں نے خوش رہنے پر توجہ دی اور خوشی خوشی وقت کا کوٹہ مکمل کرکے دنیا سے گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ خوش رہنا ممکن ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ ہر دور میں ہر معاشرے کی اکثریت نے روتے، منہ بسورتے ہوئے زندگی بسر کی ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ بیشتر انسان خوش رہنے کی محض تمنا کرتے ہیں، خوشی کو یقینی بنانے کے لیے عملی سطح پر کچھ کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ محض خواہش کرلینے سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس حقیقت کو کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں کہ مسرت تلاش کرنے اور پانے کی چیز ہے ہی نہیں۔ یہ تو پیدا یا خلق کرنے کا معاملہ ہے۔ یہ کامیابی جیسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ کامیابی کی تلاش میں بھی سرگرداں رہتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کامیابی یا خوشی کوئی ایسی چیز ہے جسے دام چکاکر خریدار یا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسا کبھی نہیں تھا! کامیابی کسی دکان میں نہیں پائی جاتی کہ قیمت چکائی اور لے کر چل دیے۔ جس طور کنواں کھود کر پانی نکالا جاتا ہے بالکل اُسی طور کامیابی بھی شبانہ روز محنت کے ذریعے خلق کی جاتی ہے۔ یہی معاملہ خوشی کا بھی ہے۔ خوشی کہیں بھی مکمل اور حتمی حالت میں نہیں ملتی۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے انتہائی دولت مند افراد بھی ضرورت پڑنے پر حقیقی مسرت خرید نہیں پاتے۔ اگر مسرت خریدی جاسکتی تو آج بھری دنیا میں کوئی بھی رنجیدہ و مغموم نہ ہوتا۔ انتہائی صاحبِ ثروت افراد کو بھی رنج و غم سے دوچار دیکھا گیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت اور ثبوت ہے کہ دولت سے مسرت خریدی جاسکتی ہے نہ ذہنی سکون۔
پُرمسرت زندگی یقینی بنانے میں وہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں جو اپنے شب و روز کسی واضح مقصد کے تحت بسر کرتے ہیں۔ کامیابی کی طرح مسرت بھی کسی منزل کا نام نہیں بلکہ سفر ہی کو منزل کا درجہ دے کر مطمئن ہو رہنے کا نام ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی بھی خوشی مکمل حالت میں مل جائے گی تب خوش ہو لیا جائے گا تو سمجھ لیا جائے کہ وہ غلطی ہے۔ خوشی کے حصول پر خوش ہونے کا مغالطہ ہی بے بنیاد ہے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے سے دل کِھلا رہتا ہے، طبیعت باغ و بہار رہتی ہے۔ زندگی کا سفر اُسی وقت سہانا لگتا ہے جب انسان بے جا طور پر رنجیدہ رہنے اور بلا جواز کڑھن محسوس کرنے سے گریز کرے اور خوش رہنے کی شعوری کوشش کرے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو حقیقی مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ انسان کو خوشی کسی بھی بات سے مل سکتی ہے۔ کوئی جملہ، کوئی گیت، کوئی کہانی، کوئی قصہ، کوئی فلم، کوئی ڈراما ... غرض یہ کہ کوئی بھی چیز انسان کو نمایاں طور پر مسرت سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ مطالعہ بھی انسان کے مزاج کو باغ و بہار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آپ دلجمعی سے تلاش کریں گے تو اپنے ماحول میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے، کھلکھلانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے اور وہ اپنے تمام معاملات میں خاطر خواہ دلچسپی لیتے ہیں۔
انسان کے مزاج پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی حقیقت ہیں تعلقات۔ ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے۔ بالکل اِسی اصول کے تحت کوئی ایک شخص بھی آپ کے لیے شدید الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔ خوش رہنے والوں کی صحبت آپ کو ہشاش بشاش رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ رنجیدہ رہنے اور ہر وقت حالات کا شکوہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کی عادت آپ کو بھی ایسا ہی بناسکتی ہے۔ اگر آپ خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تو احباب کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کیجیے۔ کوئی ایک شخصیت آپ کے وجود کو نئی معنویت عطا کرسکتی ہے۔ حلقۂ احباب کی نوعیت ہی انسان کے مزاج کو نیا موڑ دیتی ہے۔ بہت سوں نے حلقۂ احباب بدلنے پر خود کو تبدیل کیا۔ اگر آپ خوش باش لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی عادت ڈالیں گے تو زندگی میں زیادہ معنویت پیدا ہوگی اور آپ اپنے بیشتر معاملات خوشی خوشی انجام تک پہنچائیں گے۔
کیا ہر وقت خوش رہا جاسکتا ہے؟ ایسا ممکن نہیں! ہر انسان کو شدید الجھن سے دوچار اور رنجیدہ کرنے والے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی نشیب و فراز سے گزرنے کا نام ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی انسان کو شدید مایوس کن معاملات سے نمٹنا پڑسکتا ہے۔ کسی بھی انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر حال میں خوش رہے گا۔ ہاں! مشکل صورتِ حال میں بھی ذہن کو پُرسکون رکھنے اور خوش رہنے کی کوشش ضرور کی جانی چاہیے کیونکہ فکر و عمل پر اِس کے بھی خاصے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خوش رہنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں مگر ایک معیاری طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اُن کی خوشی میں خوش رہا جائے۔ دوسروں کی خاطر خوش رہنے والوں کو سبھی پسند کرتے ہیں۔ عمومی حالات میں ایسے لوگ جانِ محفل ہوا کرتے ہیں۔ اُنہیں لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور سراہتے ہیں۔ اِس سے اُن کا مورال بلند ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اپنا وجود زیادہ بامعنی معلوم ہوتا ہے۔ جو لوگ خوش رہتے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بہت آسانی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مزاج کا دور ہی سے اندازہ لگالیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ دور سے شناخت کرسکتے ہیں۔ لوگ اُن کے گرد جمع رہتے ہیں۔ ایسے انسان کو سبھی پسند کرتے ہیں ۔اگر آپ میں یہ خوبی پائی جاتی ہو تو لوگ آپ کے گرویدہ ہو رہیں گے۔ اس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی کسی اور کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہوئے اُس میں شریک ہو؟ یہ بڑے ظرف اور کھلے دل کی علامت ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگ خال خال ہوتے ہیں جو اپنے ہر غم کو بھول کر دوسروں کی خوشی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اِسے اعلیٰ ظرفی کا درجۂ کمال بھی کہا جاسکتا ہے۔ خوش مزاجی فضول اور غیر متعلق خیالات سے محفوظ رکھتی ہے۔ جب انسان خوش رہنے کی کوشش کرتا ہے تب مسائل حل کرنے کی راہ سُوجھتی ہے، مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے۔ بیشتر کامیاب انسانوں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی اکثریت نے ہر طرح کی صورتِ حال میں خوش رہنے پر توجہ دی اور کامیاب ہوئے۔ خوش رہنے سے انسان معنویت اور مقصدیت کی طرف بڑھتا ہے، زندگی مفید سے مفید تر ہوتی جاتی ہے اور یوں جینے میں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے۔
کہتے ہیں یہ دنیا کسی کی نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ دنیا یقینی طور پر اُن کے لیے ہے جو خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جنت وہ مقام ہے جہاں انسان مستقلاً خوش رہے گا۔ اور جنت میں جانے کی خواہش کس کے دل میں نہیں؟ تو پھر وہاں رہنے کی مشق کیوں نہ کی جائے؟ جو ہر وقت منہ بسورے پھرتے ہیں وہ کوئی اور دنیا تلاش کریں کیونکہ اُن کا تعلق کسی اور دنیا سے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں