(تلخ یا شیریں) حقیقت سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہے وہ محض کہانی ہے، خیال و خواب کا معاملہ ہے۔ غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سُود تھا
خیال و خواب کی دنیا میں جینے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ جب آنکھ کھلتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
خیال و خواب کی دنیا میں جینا ایک تلخ حقیقت ہے اور تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ جب ہوش آتا ہے تب تک بہت کچھ ہاتھ سے جاچکا ہوتا ہے اور صرف پچھتاوا ہی اختیار کی حدود میں رہ جاتا ہے۔ دوسرے بہت سے ترقی پذیر معاشروں کی طرح پاکستان بھی خیال و خواب کی دنیا میں جیتا ہے۔ کہانیوں کی دنیا میں بسنا ہمارا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ بلی کو سامنے پاکر بھولا بھالا کبوتر آنکھیں بند کرکے یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا، جان بچ گئی۔ حقیقت کی دنیا اُس کے خیال و خواب اور وہم و گمان کی دنیا سے بہت بلکہ یکسر مختلف واقع ہوئی ہے۔ آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ ٹل جایا کرتا تو دنیا میں کسی کے لیے کوئی خطرہ نہ ہوتا، کوئی الجھن نہ ہوتی۔ زندگی قدم قدم پر ہمیں باور کراتی ہے کہ جو کچھ ہمارے ذہن میں پایا جاتا ہے وہ کچھ اور ہے اور باہر کی یعنی حقیقت کی دنیا میں معاملات کچھ اور ہیں۔ کہنے اور کرنے کا یہی تو فرق ہے۔ کوئی جب کچھ کہنے پر آتا ہے تو کچھ بھی کہہ جاتا ہے۔ اگر کہنے سے کچھ ہو جایا کرتا تو کسی کو محنت و مشقت کی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور سبھی کے لیے آسانیاں ہوتیں۔
حقیقت کی دنیا ہم سے قدم قدم پر شعور اور محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ سوال صرف محنت کا نہیں بلکہ ہوش و حواس کی حدود میں رہتے ہوئے کی جانے والی محنت کا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر برداشت کی جانے والی مشقت اور برداشت کی جانے والی زحمت زندگی کے رنگوں کو پھیکا کر ڈالتی ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو اس حقیقت کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ ہوش و حواس کی حدود میں رہتے ہوئے یعنی شعوری سطح پر کرنا ہے۔ ماحول ہمیں حقیقت کی دنیا سے دور لے جانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ کوشش بیشتر معاملات میں کامیاب رہتی ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو ذہانت و محنت کو ایک مقام پر لاکر کچھ کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اِس میں تساہل اور خوف کے ساتھ ساتھ ذہنی الجھن کا بھی دخل ہوتا ہے۔ عمومی سطح کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہم جس (حقیقی) دنیا میں جیتے ہیں اُس میں بہت کچھ ایسا ہے جو ذہن کو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ صلاحیت و سکت ہوتے ہوئے بھی بہت سے لوگ کچھ زیادہ نہیں کر پاتے۔ یہ تساہل یا تن آسانی سے زیادہ ذہنی الجھن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ذہن میں اگر بہت کچھ بھرا ہوا ہو تو فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کب کیا کیا جائے۔ ذہنی الجھن ہی عمل سے دور کرتی ہے۔ اور پھر وقت گزر جاتا ہے۔
کہانیوں کی دنیا میں جینا کسے اچھا نہیں لگتا؟ عام آدمی کم و بیش زندگی بھر خیال و خواب کی دنیا میں جیتا ہے۔ کبھی خوش فہمیاں گھیر لیتی ہیں اور کبھی غلط فہمیاں۔ فکشن رائٹرز انسان کی اِسی نفسی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عام آدمی خیال و خواب کی دنیا میں جینا پسند کرتا ہے۔ جو کچھ وہ خود نہیں کرسکتا وہ کہانیوں میں تلاش کرتا ہے۔ کہانی میں ہیرو کو اُس مقام پر پیش کیا جاتا ہے جہاں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، کسی سے بھی ٹکرا سکتا ہے۔ ہیرو میں انسان اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔سکرین رائٹرز یعنی فلمیں لکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلم دیکھنے والوں کو فلم میں ہر وہ صورتِ حال اچھی لگتی ہے جس میں انتہائی دشوار کام کو آسانی سے ہوتا ہوا دکھایا گیا ہو۔ ہر وہ فلم کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے جس میں ہیرو ناممکن کو ممکن بنانے پر یقین رکھتا ہو اور کسی سے بھی ٹکرانے سے ذرا نہ ہچکچاتا ہو۔ کسی بھی فلم کی کہانی کا وہ موڑ زیادہ کامیاب اور مقبول رہتا ہے جس میں ہیرو اپنے دشمنوں کو اُن کے اڈوں یا ٹھکانوں میں گھس کر مارتا ہو۔ کسی بھی فلم میں باقی مار پیٹ اپنی جگہ اور دشمن کے گھر میں گھس کر ڈِھشُم ڈِھشُم کرنے کا لطف اپنی جگہ۔ کہانیاں پڑھنے اور پست درجے کے فکشن پر مبنی فلمیں دیکھنے والے بالآخر کہانیوں کی دنیا میں جینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں حقیقت کی دنیا آواز بھی دے رہی ہو تو نہیں سنتے۔ ایسے افراد حقیقت کی دنیا سے دور ہوتے جاتے ہیں اور یہ دوری اُنہیں عمل پسندی سے بھی دور کردیتی ہے۔ عمل پسند رویہ پروان چڑھانے میں زمانے لگتے ہیں اور معاملات کو بگڑتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی اور مقبولیت یقینی بنانے میں برسوں کی محنت کا کردار ہوتا ہے مگر جب بات بگڑتی ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ یہ دنیا واقعی کسی کی ہے تو صرف اُن کی جو حقیقت کی دنیا میں جینا پسند کرتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا محنت بھی مانگتی ہے اور ذہانت بھی۔ ذہانت کو بروئے کار لائے بغیر کی جانے والی محنت ادھورے نتائج دیتی ہے۔ ایسے نتائج زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ کہانیوں کی دنیا میں جی رہا ہے۔ لوگ مختلف حوالوں سے حقیقت کی دنیا سے اپنا تعلق برائے نام رکھتے ہوئے خیال و خواب کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ کسی زمانے میں (جب انفارمیشن ٹیکنالوجی نے آج کی سی ہوشربا ترقی نہیں کی تھی) لوگ ڈائجسٹ پڑھنے کے عادی تھے۔ ڈائجسٹوں کی کہانیاں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی تھیں جس میں کہیں کچھ بھی مشکل نہ تھا اور وہاں کچھ بھی کیا جاسکتا تھا۔ ان کہانیوں کے ہیرو جو کچھ کرتے تھے وہ قارئین کی خواہشات کا عکس ہوتا تھا۔ عام آدمی جو کچھ نہیں کر پاتا تھا وہ کہانی یا فلم کے ہیرو کو کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نوعیت کا فکشن انسان کو خیال و خواب کی دنیا میں رہنے کے نشے کا عادی بنادیتا تھا۔ آج بھی معاملہ وہی ہے، صرف انداز بدل گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سی اوٹ پٹانگ وڈیوز دیکھ کر لوگ اپنے آپ کو حقیقت کی دنیا سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی کی طالب رہتی ہے تاکہ مسائل کی تفہیم کے ذریعے انہیں حل کرنے پر توجہ دی جاسکے۔ معاشرے اُسی وقت پنپتے ہیں جب وہ حقیقت کی دنیا میں جینے پر مائل ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے معاشرے پائے جاتے ہیں جنہوں نے خیال و خواب کی دنیا میں جینے کو ترجیح دی اور تباہی سے دوچار ہوئے۔ کہانیوں کی دنیا انسان کو عمل سے بیزار کر دیتی ہے۔ آج ہمارے ہاں بیشتر ڈرامے ہمیں جہد و عمل سے دور لے جانے کی مشق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رشتوں اور تعلقات کی پیچیدگی کو اِس طور پیش کیا جارہا ہے کہ انسان اپنے ہی رشتہ داروں اور احباب سے بیزار سا ہو جاتا ہے اور اُن کے بارے میں مختلف النوع شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے کا زوال یقینی بنانے کا معاملہ ہے۔ آج کے لکھنے والوں پر معاشرے کی اصلاح کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر آج کی نئی نسل کو کہانیوں کی دنیا سے نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عملی زندگی کی تلخ حقیقتوں کا پامردی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں۔ جو ابلاغ کے فورم ہماری زندگی میں شدید نوعیت کی الجھن پیدا کر رہے ہیں اُنہی سے ہم اپنے لیے اچھا کام بھی لے سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ اس لیے بھی تو ہے کہ اِس سے بہت کچھ سیکھا جائے، زندگی کا معیار بلند کرنے پر توجہ دی جائے۔ ہم نے انٹرنیٹ کو صرف تفریحِ طبع کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ روزانہ چند فضول سی وڈیوز اور دیگر پوسٹس دیکھ کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے مستفیض ہونے کا حق ادا کردیا۔ اس مایا جال سے باہر آنے کی ضرورت ہے تاکہ کہانیوں کی دنیا ہماری ذہانت کو زنگ نہ لگائے، جہد و عمل کے جذبے کو عدم کی راہ نہ دکھائے۔