کسی بھی انسان کے لیے اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی اس حقیقت کو کھل کر تسلیم کرے یا نہ کرے‘ حقیقت یہی ہے کہ ہر انسان اوّل و آخر اپنے لیے جیتا ہے۔ یہ بات اچنبھے کی ہے نہ افسوس کی۔ ہم اس دنیا میں اِسی لیے تو ہیں کہ ڈھنگ سے جئیں اور آخرت کے لیے بھی کچھ سامان کریں۔ حتمی زندگی تو وہی ہے جو فیصلہ کن ہے اور ہمیشگی کی حامل بھی۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اُسے اپنی ذات کی ذرا بھی پروا نہیں‘ وہ جھوٹ بولتا ہے اور دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سب سے زیادہ ناقابلِ تردید حقیقت یہی ہے کہ ہر انسان پہلے قدم پر اپنے لیے جیتا ہے اور اِس کے بعد کسی اور کے لیے۔
جب ہم اپنے لیے جی رہے ہیں تو کیا یہ لازم نہیں کہ ہم اپنے وجود کو پہچانیں، اُس کی حدود کا درست اندازہ لگائیں اور وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کریں جو ہم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں‘ اور کر بھی سکتے ہیں؟ ڈھنگ سے جینے کا پہلا مرحلہ ہے اپنے آپ کو بالکل درست اندازے کے ساتھ پہچاننا۔ جس نے خود کو پہچانا اُس نے رب کو جانا۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ ہر انسان میں اللہ نے بہت سے خوبیاں رکھی ہیں اور وہ چاہے تو ایسے کام بھی کرسکتا ہے جن کے بارے میں خود اُس کا اندازہ یہ ہو کہ وہ نہیں کرسکتا۔ انسان اپنی صلاحیت و سکت سے کماحقہٗ واقف نہ ہو تو کامیاب زندگی یقینی بنانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ کوئی اور اپنا ہو نہ ہو، اپنی ذات تو اپنی ہوتی ہے۔ ہمیں زندگی بھر اپنے وجود کے ساتھ جینا ہے۔ یہ حقیقت کسی بھی موڑ پر تبدیل نہیں ہوتی۔ ہم اپنے وجود کی حدود سے نکل کر کہیں نہیں جاسکتے۔ اس حقیقت کا حقیقی ادراک ہی زندگی کو نئی معنویت عطا کرتا ہے اور ہم روئے ارض پر اپنی موجودگی کو بامقصد ثابت کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
کسی بھی انسان کے لیے اپنے آپ کو پہچاننا لازم ہے کیونکہ خود شناسی فیصلہ کن نوعیت کا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ غیر معمولی اعتماد کے ذریعے صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور کام کرنے کی لگن کا دائرہ وسیع کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جو لوگ اپنے وجود سے مکمل طور پر آشنا ہوتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں وہ کہاں تک جاسکتے ہیں۔ اپنے آپ سے واقفیت انسان کو بہت سے ایسے کام کرنے کی بھی تحریک دیتی ہے جن کے بارے میں اولاً اُس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اُنہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا نہیں جاسکتا۔ جب انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کیا کرسکتا ہے تب منظّم انداز سے کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ خود شناسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اعتماد کی بدولت انسان نئے مقاصد و اہداف متعین کرتا ہے اور یوں زندگی کے لیے واضح سمت کا تعین ہوتا ہے۔ اپنے وجود کے نشیب و فراز سے آشنا ہونے والے مطمئن ہوکر پُرمسرت زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہیں اپنی تمام کمزوریوں کا اچھی طرح علم ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کہاں کہاں وہ زیادہ قوت کے ساتھ اپنے آپ کو نمایاں کرسکتے ہیں۔ جب انسان اپنی صلاحیت و سکت کے بارے میں درست ترین اندازہ لگانے کے قابل ہو جاتا ہے تب وہ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کی منصوبہ سازی بھی کر پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اپنے وجود سے کماحقہٗ آشنائی ممکن بنانے میں کامیاب ہونے والے کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ وہ چونکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں کس حد تک جاسکتے ہیں اس لیے کچھ نیا کرنے کی منصوبہ سازی بھی کرتے ہیں اور موقع دیکھ کر متعلقہ اعمال کا آغاز بھی کردیتے ہیں۔
جو لوگ اپنے وجود سے مکمل آشنا ہوتے ہیں‘ وہ مثبت سوچ کے بھی حامل ہوتے جاتے ہیں۔ مثبت سوچ یہ ہے کہ انسان جہاں ہے وہاں ثابت قدم رہے اور تمام الجھنیں یا مشکلات برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا ذہن بنائے۔ یہ کام آسان نہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی درجے میں اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا۔ دنیا کا نظام اِس طور چلتا آیا ہے کہ ایک طرف چند آسانیاں ہوتی ہیں اور دوسری طرف چند مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ لوگ اس حقیقت سے واقف ہونے پر بھی ذرا سی مصیبت سے پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ جنہیں اپنے آپ سے آشنا ہونے کی توفیق نصیب ہو وہ اپنے بارے میں مثبت سوچتے ہیں اور پھر وہ دنیا کے بارے میں بھی مثبت سوچنے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی اُن کے وجود کو تبدیل کردیتی ہے اور وہ زندگی کے بارے میں متوازن رویہ اپناتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ اپنے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور اپنے وجود سے مکمل واقفیت یقینی بنانے کی کوشش نہیں کرتے‘ وہ بالعموم پریشان رہتے ہیں۔ ان کی سوچ منفی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اپنے آپ سے بیزاری اُن میں نمایاں ہوتی ہے اور یہ بیزاری اُن میں عجیب سا لا اُبالی پن پیدا کرتی ہے۔ اپنے وجود سے بیزار رہنے والے دنیا سے بھی بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ اگر وہ خود صحتمند نہ ہوں تو دوسروں کی صحت کے حوالے سے بھی سوچنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ اگر انہیں خوشی نہ مل پائی ہو تو کسی کی خوشی میں خوش نہیں ہوتے۔
خود شناسی ہر اس انسان کے لیے لازم ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اپنے وجود سے کماحقہٗ واقفیت یقینی بنانے کی صورت میں کبھی کبھی خود پرستی کی سی کیفیت بھی پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کی اخلاقی اور نفسی تربیت اچھی طرح نہ کی گئی ہو۔ زندگی کو متوازن رکھنے کے لیے چھوٹی عمر سے اخلاقی و نفسی تربیت یقینی بنانا لازم ہے۔ خود شناسی کی راہ پر چلتے چلتے بہت سے لوگ خود فریبی کا شکار ہوکر اپنے آپ کو کچھ کا کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اگر انسان خود شناسی کی راہ سے ہوتا ہوا خود پرستی کی راہ پر گامزن ہو جائے تو بڑے پیمانے پر واقع ہونے والی خرابیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ خود شناسی اگر ذہن کو بہکادے اور خود پرستی کی طرف لے جائے تو بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ خود پرستی میں مبتلا افراد اپنے سوا کسی کی طرف نہیں دیکھتے، کسی پر بھروسا نہیں کرتے اور اپنے ذات پر حد سے زیادہ یقین کرنے کی صورت میں بعض ایسی خرابیوں کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں جو بصورتِ دیگر پیدا نہیں ہوتیں اور زندگی کے بنیادی معاملات کو نہیں بگاڑتیں۔
ہر دور اپنے ساتھ بہت سی ایسی پیچیدگیاں لاتا ہے جن سے نمٹنا ہر انسان کے لیے لازم ہوتا ہے۔ ہر معاشرے، ہر نسل، ہر مذہب و نظریے اور ہر طبقے کا انسان عصری پیچیدگیوں سے بطریقِ احسن نمٹے بغیر ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ بھی بہت سی پیچیدگیاں لے کر آیا ہے۔ ان نفسی، اخلاقی اور فکری پیچیدگیوں سے نمٹے بغیر ہم اپنے لیے بھرپور کامیابی کی راہ ہموار نہیں کرسکتے۔ آج کے انسان کو بہت سے معاملات میں واضح رہنمائی درکار ہے۔ بہت سی الجھنیں انسان کو آگے بڑھنے اور کامیاب زندگی بسر کرنے سے روک رہی ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ متعلقہ ماہرین سے مشاورت کیے بغیر اور مدد لیے بغیر وہ اپنے معاملات کو سلجھانے میں کامیاب ہوسکے گا تو یہ محض خوش فہمی اورخام خیالی ہے۔ لاکھوں میں چند افراد ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو دوسروں کے تعاون کے بغیر سیدھی راہ پر گامزن رکھنے میں کسی حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ خود شناسی کی راہ سے بھٹک کر خود پرستی کی طرف چلے جاتے ہیں اور یوں اُن کا اچھا خاصا سفر ناکامی کی منزل پر ختم ہو جاتا ہے۔آج کے انسان کو قدم قدم پر رہنمائی درکار ہے۔ عصری پیچیدگیوں کا تقاضا ہے کہ خود شناسی اور خود پرستی کے فرق کو سمجھا جائے۔ یہ فرق اُسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب چھوٹی عمر سے اچھی تربیت کی گئی ہو۔ بڑی عمر میں تربیت زیادہ ضروری محسوس ہو تو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ انفرادی سطح پر اصلاحِ احوال کی گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی، ہاں غیر معمولی مشقت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آج کے انسان کو حقیقی خود شناسی کی اشد ضرورت ہے تاکہ خود فریبی اور خود پرستی کی راہ مسدود ہو۔