"MIK" (space) message & send to 7575

قصہ رہِ صد سال کا

خطے کے حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ کچھ کا کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ نئے چیلنجز اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کا ریاستی و انتظامی امور پر متصرف ہو جانا خطے کے ہر ملک کے لیے نئے سِرے سے فکر و نظر کی راہ پر گامزن ہونے کا مقام ہے۔ بہت کچھ ہے جو سمجھ میں آرہا ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ وہ ہے جو بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔ طالبان کی آمدِ نو نے بہت سوں کو اِس طور حیران کیا ہے کہ ایک دنیا تماشائی ہے۔ دنیا کا تو کام ہی تماشا دیکھنا ہے۔ تماشے کے بطن سے کام کی کوئی بات برآمد کرنا ہمارا کام ٹھہرا۔ یہ کام ہم کس طور کر پاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال معاملہ یہ ہے کہ افغانستان میں جو صورتحال ہے اُس کی روشن میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی اور نئی حکمتِ عملی کی تشکیل لازم ہے۔ یہ کام جنگی بنیاد پر کیا جانا ہے۔
پاکستان کیلئے خطے کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرنا بہت بڑا اور پیچیدہ امتحان ہے۔ ایک زمانے سے دشمنوں نے پاکستان کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے جال میں پھنساکر معاملات کو اتنا الجھادیا گیا ہے کہ لاکھ کوشش پر بھی اصلاحِ احوال کی کوئی آسان راہ دکھائی تو کیا‘ سُجھائی بھی نہیں دے رہی۔ خاقانیٔ ہند‘ آخری مغل تاجدار کے اُستاد شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا ؎
اب تو جانِ ناتواں کا ضعف سے یہ حال ہے
لب تلک بھی اُس کا آ جانا رہِ صد سال ہے
ہمارا معاملہ بھی رہِ صد سال کا ہے۔ ایک زمانے سے پاکستان کا یہ حال ہے کہ بھارت کی طرف سے دباؤ بڑھایا جاتا رہا ہے اور افغانستان میں بھی ناموافق حالات سکون و استحکام کی منزل تک پہنچنے نہیں دیتے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر پاکستان کو یوں نشانے پر لے رکھا ہے کہ معاملات درست ہونے کی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی اور راہ پر گامزن ہونے لگتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کچھ سمجھ میں آئے‘ منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ ع
یونہی دنیا بدلتی ہے‘ اِسی کا نام دنیا ہے
افغانستان میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا ہے تو ہمارے لیے بھی ایک بار پھر رہِ صد سال کا سفر شروع ہوا ہے۔ یہ سفر ہمارے نصیب میں پہلے بھی کئی بار لکھا گیا ہے۔ بہت کچھ کھوکر بھی ہم کچھ پانے کی پوزیشن میں نہیں آسکے۔ ہماری اپنی کوتاہیاں بھی ہماری راہ میں مشکلات پیدا کرتی رہی ہیں۔ اپنی اغلاط اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا دانش کا تقاضا ہے۔ یہاں تک تو معاملہ اپنی ذمہ داری کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں نے جو ہمارا چَین و سکون غارت کرنے کی ٹھان رکھی ہے اُس کا کیا کریں۔ ایک طرف بھارت ہے جو معاملات کو امریکا اور یورپ کی معاونت سے خراب کرنے پر تُلا رہتا ہے اور دوسری طرف مغربی سرحد ہے جس کا استحکام بھی غارت کیا جاتا رہا ہے تاکہ ہم دو محاذوں پر بُری طرح الجھے رہیں۔ ہمارا یوں الجھے رہنا ہی ہمارے بدخواہوں کے دل کو سکون بہم پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ اپنے کیا چاہتے ہیں اور کس محاذ پر کون سی کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ بنیادی مسئلہ اُن کا ہے جو مضبوط پوزیشن میں ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری راہ میں کانٹے بچھانے سے باز نہیں آتے۔ بھارت نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان کو مشرقی سرحد کے ذریعے مکمل مفلوج کرنا ممکن نہیں یا بہت دشوار ہے تو اُس نے افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے پر توجہ دینا شروع کیا۔ یہ عمل غیر معمولی سرمایہ کاری مانگتا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں قدم جمانے کے لیے ڈیمز‘ پل اور سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ دسیوں ارب روپے کی اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں بھارت کو جو کچھ درکار تھا وہ مل نہیں پایا۔ بنیے کا پیسہ دُھول چاٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں بھارتیوں کیلئے دل کو سکون پہنچانے کا ایک یہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طور پاکستان کو مطعون کیا جائے۔
بھارتی میڈیا کے پاس چلانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو اب یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ پاکستان نے طالبان سے پہلے ہی سیٹنگ کرلی تھی جس کے نتیجے میں وہاں بھارتی سرمایہ کاری کو داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری ڈوبنے کا ہے اور اِس میں کلیدی کردار پاکستان کا ہے جو طالبان کو مضبوط کرکے افغانسان کے معاملات پر ایک بار پھر متصرف ہونا چاہتا ہے تاکہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھا جاسکے۔ بھارت کا کوئی بھی میڈیا آؤٹ لیٹ اپنے پالیسی میکرز اور قائدین سے یہ سوال نہیں کر رہا کہ جس ملک کے حالات کا کبھی کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب کون سی کروٹ بدل لیں وہاں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی کیا ضرورت تھی اور اگر سرمایہ کار کرلی گئی تھی تو طالبان مخالف رویہ اپنانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو طے تھا کہ ایک نہ ایک دن طالبان دوبارہ آئیں گے اور سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ یہ بات کوئی عام آدمی بھی سمجھ سکتا تھا۔ بھارت کے پالیسی میکرز اس بات کو سمجھنے سے کیونکر قاصر رہے؟
پاکستان کے لیے پھر عجیب سی مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔ ایک طرف تو یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ طالبان سے اُن کی کوئی انوکھی اور پوشیدہ سیٹنگ چل رہی ہے۔ اس الزام کا بنیادی مقصد پاکستان کو عالمی برادری کی نظر میں مزید مشکوک بنانا اور گرانا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ہے۔ یہ الزام خطے کے امن کو خاصی طویل مدت کیلئے داؤ پر لگاسکتا ہے۔ بھارتی قیادت یوں بھی پاکستان کے خلاف جانے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتحال ایک اچھے بہانے کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کے لیے ایک بار پھر رہِ صد سال کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا ہے۔ سو سال کی گنجائش کس کے پاس ہے؟ دنیا جس تیزی سے بدلتی جارہی ہے اُس کا بنیادی تقاضا ہے تیزی اور تیزی بھی بروقت اور بھرپور۔ گنجائش تساہل کی ہے نہ غلطی کی۔ کوئی ایک غلط قدم ہمیں منزل کی راہ سے بہت دور لے جاسکتا ہے۔ زمینی حقیقتوں کا ادراک بھی لازم ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی غیر معمولی دانش مندی و معاملہ فہمی دکھانی ہے۔ افغانستان کے بدلے ہوئے حالات نے خطے کے معاملات میں بہت کچھ بدل دیا ہے۔ افغان سرزمین پر سٹریٹجک ڈیپتھ کی تمنّا رکھنے والے کئی ممالک کی امیدوں پر پانی پھرگیا ہے۔ بھارت کا اس حوالے سے بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ زخمی جانور کی طرح کوئی ایسی ویسی حرکت بھی کرسکتا ہے جس سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں اور خطے میں سیاسی و سفارتی سطح پر ایسی تبدیلیاں رونما ہوں جن کی پیچیدگی خطے کو خواہ مخواہ فلیش پوائنٹ میں تبدیل کردے۔ علاقائی سطح کے وسیع البنیاد مذاکرات کی فوری ضرورت ہے۔ بھارت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاکہ رنجشیں ختم ہوں اور خطہ امن کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
پاکستان کے پالیسی میکرز کے لیے یہ آزمائشی لمحات ہیں۔ لازم ہے کہ خطے کی بدلی ہوئی صورتحال کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے‘ حکمتِ عملی بھی تبدیل کی جائے تاکہ عالمی برادری کو تصویر کا کوئی اور رُخ دکھانا کسی کے لیے ممکن نہ رہے۔ پاکستان چونکہ افغانستان سے سَٹا ہوا ہے اس لیے اُس کے بارے میں بے بنیادی باتیں پھیلانا بھارت اور دیگر بدخواہوں کے لیے خاصا آسان ہے۔ ترکی‘ ایران اور چین سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کو بے بنیادی پروپیگنڈے کا موقع نہ ملے اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے اُس کے عزائم خاک میں ملیں۔ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہمارے لیے معاملات ایک بار پھر رہِ صد سال والی کیفیت پیدا کرسکتے ہیں۔ مشکلات کو شدت اختیار کرنے سے روکنے کی ایک ہی صورت ہے ... یہ کہ وقت ضائع کیے بغیر وسیع البنیادی علاقائی مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے اور امریکا و یورپ کے عزائم ناکام بنانے کیلئے روس اور چین کو خاص طور پر اعتماد میں لیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں