نصیب کی بات ہے۔ کسی کو حکومت ایسی حالت میں ملتی ہے کہ زیادہ چیلنج درپیش نہیں ہوتے اور کسی کو اقتدار نصیب ہوتا ہے تو طرح طرح کی الجھنیں گویا ترکے میں ملتی ہیں۔ موجودہ حکومت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان جس عزم کے ساتھ اقتدار کے ایوان میں وارد ہوئے وہ ہر اعتبار سے قابلِ رشک تھا۔ ملک کو تبدیلی کی ضرورت تھی اور انہوںنے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا۔ اس نعرے کی بنیاد پر اُنہیں پہلے ووٹ اور پھر حکومت ملی۔
جو کچھ سات دہائیوں میں بگڑا ہے وہ کوئی وزیراعظم محض تین‘ چار سال میں کیسے درست کرسکتا ہے؟ ایسا ہر دعویٰ انتہائی نوعیت کا ہوتا ہے جو قوم کا دل بہلاتا ہے۔ انقلاب برپا کرنے کے دعوے بھی خوب کیے جاتے رہے اور کتنے انقلاب آ چکے‘ یہ بھی قوم نے دیکھ لیا ہے۔ انقلاب محض کہنے کا معاملہ نہیں‘ کرنے کا ہے۔ جو قوم اپنے وجود کو دوسروں سے منوانے کا فیصلہ کرلیتی ہے وہ پھر کچھ کرتی بھی ہے۔ محض نعرے لگانے سے تو کہیں کوئی انقلاب برپا نہیں ہوتا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا! تحریکِ انصاف کی حکومت نے بھی عوام سے کیے گئے وعدے نبھانے کی تھوڑی بہت کوشش کی مگر اب تک خاطر خواہ تو کیا، قابلِ ذکر کامیابی بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ جنہیں اقتدار سونپا گیا‘ اُن میں اگر مکمل خلوصِ نیت پایا جاتا ہے تو محض اتنے سے بات کہاں بن پائے گی؟ ملک کو بدلنے اور قوم کا قبلہ درست کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے اُس میں سب سے بڑا یا کلیدی کردار تو قوم ہی کا ہونا چاہیے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ قوم تبدیلی کے نعروں سے بہلنے کو تو تیار ہے، تبدیل ہونے کو نہیں۔ بات ہو رہی تھی نصیب کی۔ موجودہ حکومت کوبہت سے مسائل ورثے یا ترکے میں ملے ہیں۔ سنگین ترین معاملہ ہے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا۔ بیرونی قرضوں کے نتیجے میں اچھا خاصا زرِ مبادلہ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور اندرونی قرضوں کے نتیجے میں حکومت کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے کیونکہ سود ادا کیے جانے کے بعد اتنا بچتا ہی نہیں کہ بہبودِ عامہ یقینی بنانے کے لیے بھرپور طور پر کچھ کیا جائے۔ ایسے میں بھرپور ترقی کا خواب کس طور شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں سبھی ایک دوسرے سے جُڑے ہیں یا جوڑ دیے گئے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی بڑی بات ہو جاتی ہے تو اُس کے اثرات ویسے تو پوری دنیا ہی پر مرتب ہوتے ہیں؛ تاہم سب سے زیادہ جھیلنا پڑتا ہے کمزور اور پس ماندہ ممالک کو۔ کوئی چیز مہنگی ہو تو اِن کے لیے مصیبت۔ کہیں کوئی بحران سر اٹھائے تو شدید منفی اثرات کی تان ٹوٹتی ہے کمزور اور پس ماندہ ممالک پر۔ وزیراعظم صاحب قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم لے کر اقتدار کے ایوان میں آئے تھے۔ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُن کا امیج کرپشن سے بالکل پاک ہے۔ انہوں نے کرکٹ کی دنیا میں اپنے آپ کو کرپشن کے داغ سے مکمل طور پر بچایا تھا۔ سیاست میں اُن کی آمد سے عام آدمی نے یہ توقع وابستہ کی تھی کہ اب ملک و قوم کے لیے کچھ کیا جائے گا‘ کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ یہ توقع کچھ بے جا بھی نہ تھی۔ قوم نے خان صاحب کو ہمیشہ ایک فائٹر کے روپ میں دیکھا تھا۔ انہوں نے اَن تھک محنت سے قومی کرکٹ ٹیم کو بامِ عروج تک پہنچایا تھا۔ یہ بات مگر فراموش کر دی گئی کہ کھیلوں کی دنیا کچھ اور ہے اور سیاست کسی اور چیز کا نام ہے۔ جو کچھ کھیلوں کی دنیا میں کیا گیا‘ وہ یہاں کام نہیں آسکتا اور جو کچھ سیاست میں کرنا پڑتا ہے اس کا کھیلوں کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ حکومت کو ترکے میں کمزور معیشت ملی جو قرضوں تلے دبی ہوئی تھی اور مختلف شعبوں کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں تھی کہ کچھ کیا جاسکے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اب تک معاشی محاذ پر کچھ خاص نہیں کر پائی۔ رہی سہی کسر مشیروں نے پوری کردی جو اپنے خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور حکومت کو بھی سنہرے خواب دکھاتے رہتے ہیں۔
تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے محض سوا سال ہوا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کا ناطقہ بند کردیا۔ تمام اقوامِ عالم کے ساتھ پاکستان کو بھی بہت کچھ جھیلنا پڑا۔ ایسے میں حکومت اپنے کسی بھی منصوبے کو پایۂ تکمیل تو کیا پہنچاتی، ڈھنگ سے شروع بھی نہیں کر پائی۔ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کیونکہ حالات کی خرابی نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ جب ترقی یافتہ دنیا کی حالت پتلی ہوگئی تو ہم کن صفوں میں شمار ہوتے تھے؟
حصولِ اقتدار سے قبل خان صاحب نے نوکریاں اور کم آمدنی والے طبقے کے افراد کو گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کمزور مالی حیثیت کے حامل افراد کو گھر دینا عام حالات میں بھی آسان کام نہیں‘ کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا میں جو الجھنیں پیدا کیں اور اِس کے نتیجے میں معیشتوں میں جو بگاڑ پیدا ہوا‘ اُسے دیکھتے ہوئے غریبوں کو ذاتی مکان دینے کا منصوبہ محض خواب و خیال ہی میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن حالات میں کسی کی نوکری سلامت رہ جائے تو اُس کے لیے بڑی بات ہے۔ مکان کو تو بھول ہی جائیے۔ یہ بات تحریک انصاف بھی بہت اچھی طرح سمجھ چکی ہو گی کہ آدرشوں کو بنیاد بناکر کچھ کہنے اور عمل کی دنیا میں اپنے کہے ہوئے کو پرکھنے میں بہت فرق ہے۔ سوال نیت کے اخلاص کا نہیں بلکہ زمینی حقیقتوں سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے کام کرنے کا ہے۔ موجودہ حکومت نے یہ ہنر اب تک نہیں سیکھا۔ اب دورِ اقتدار کی میعاد پوری ہونے میں دو سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ جو وعدے اس حکومت نے کیے تھے اُن کے حوالے سے تو وہ اب تک شاید کچھ بھی نہیں کر پائی۔ ہر شعبے کا مافیا اُس کا کام مشکل بنانے پر تُلا ہے۔ اس صورتِ حال میں ناکامی کے لیے موجودہ حکومت کو مکمل طور موردِ الزام ٹھہرانا کسی طور درست نہ ہوگا۔ ہاںحقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کرنے پر توجہ دینا ہوگی‘ اب یہی وہ کر سکتے ہیں۔ قوم سے بڑے بڑے وعدے کرنے کے بجائے حکومت اب عمل کی دنیا میں کچھ کر دکھانے کا عزم کرے، جو تھوڑی بہت بہتری وہ لاسکتی ہے‘ ضرور لائے۔ لاکھوں نوکریاں دینے کے بجائے وہ محدود پیمانے پر روزگار کا بندوبست کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرسکتی ہے۔ لاکھوں مکانات تقسیم کرنے کے بجائے چند ہزار مکانات ہی جلد از جلد تعمیر کرکے مستحق ترین افراد میں تقسیم کرنے پر توجہ دے تو بات بن سکتی ہے۔
تحریک انصاف کو اپنی حکومت کی باقی ماندہ مدت سمارٹ اقدامات کے ذریعے پوری کرنی چاہیے۔ قوم نتائج چاہتی ہے۔ اگر نتائج محدود پیمانے پر بھی دکھائی دیں تو کوئی بات نہیں‘ مگر دکھائی تو دیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ دور جھاڑی میں بیٹھے ہوئے بہت سے پرندوں سے وہ ایک پرندہ زیادہ اہم ہے جو ہاتھ میں ہے۔ جو تھوڑا بہت ہوسکتا ہے وہ ہی کر گزرنے پر توجہ دی جائے تو تھوڑی بہت بہتری ضرور آئے گی۔ انقلاب برپا کرنے کی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ خیر کے کسی بھی عمل کو ناکام بنانے والے قدم قدم پر کانٹے بچھانے پر تلے رہتے ہیں۔ ایسے میں وہی کامیابی سے ہم کنار ہو پاتے ہیں جو احتیاط اور ضبط کا دامن تھامے رہتے ہیں۔
ملک کا حال جو ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسے میں بڑھکیں مارنے اور مخالفین کے عیوب گنوانے کے بجائے اپنے حصے کا کام کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورتِ حال ہمیں درپیش چیلنجز میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کو ایک ایک قدم پُھونک پُھونک کر اٹھانا ہوگا۔ وکٹیں کم رہ گئی ہیں اور ہدف بہت دور ہے۔ ایسے میں ہر گیند کا پوری توجہ سے سامنا کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مزید کوئی وکٹ نہ گرے۔ قوم یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ وزیراعظم عمران خان اُسے بحرانی کیفیت سے کیسے نکالتے ہیں۔