"MIK" (space) message & send to 7575

تیزی کا اچار ڈالنا ہے کیا؟

ہم سبھی کسی نہ کسی حوالے سے ترقی چاہتے ہیں۔ انسان ترقی اور کامیابی کیوں چاہتا ہے؟ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے۔ زندگی کا معیار کیا ہے‘ اور اسے بلند کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے‘ وہ ہمیں آسانی سے، مطلوبہ مقدار میں اور مطلوبہ معیار کے ساتھ میسر ہو۔ جب ایسا ممکن ہو پاتا ہے تبھی خوشحالی نصیب ہوتی ہے‘ وہی انسان خوشحال قرار پاسکتا ہے جو سکون سے جیے۔ بات گھوم پھر کر سکون تک آ جاتی ہے۔ ہمارے ہر خیال اور عمل کا انتہائی بنیادی مقصد یہی تو ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ سکون میسر ہو۔ سکون کا آسان ترین مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی غیر ضروری پریشانی ہمارے معاملات میں خرابیاں پیدا نہ کرے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے صحت سے مراد وہ حالت ہے جس میں کوئی بیماری نہ پائی جائے۔ صحت الگ سے حاصل کی جانے والی کیفیت نہیں۔ جب ہم بیمار ہونے سے بچنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو صحت مند کہلاتے ہیں۔
ناز بہشتی کا شمار امریکا میں چوٹی کے ایگزیکٹو ویل نیس کوچز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 20 سال سے بھی زائد مدت تک فورچیون 500 کمپنیوں کے ساتھ کام کیا ہے اور ایپل کے مالک سٹیو جابز کے ساتھ بھی خدمات انجام دی ہیں۔ ناز بہشتی نے اپنی معرکہ آرا کتاب ''پاز، برید، چُوز‘‘ (ٹھہریے، سانس لیجیے، انتخاب کیجیے) میں لکھا ہے کہ کسی بھی شعبے میں کیریئر بنانے کے لیے طے کیے گئے اہداف کبھی اتنے اہم نہیں ہوتے کہ آپ انہیں اپنی صحت پر ترجیح دیں۔ زندگی ہے تو آپ ہیں‘ اور جب تک آپ روئے ارض پر ہیں تب تک صحت کا معیار بلند ہی رہنا چاہیے۔ اگر آپ کو کیریئر میں کامیابی مل بھی جائے اور آپ کے پاس اتنی دولت ہو کہ کوئی بھی چیز خرید سکیں تب بھی خرابیٔ صحت کے ساتھ ملنے والی دولت کس کام کی؟
حاضر دماغی انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اس کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہو۔ وسیع تر مفہوم میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے بیدار ذہن رکھتا ہو، تمام معاملات کو سمجھتا ہو، جہاں جہاں لطف پایا جاسکتا ہو‘ وہاں لطف پائے اور جہاں درد محسوس کرنا لازم ہو وہاں درد محسوس کرے۔ وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے حاضر دماغی کا مطلب ہے: زندگی کے ہر معاملے سے بھرپور حَظ اٹھانا اور ہر پل کی مسرت سے ہم کنار رہنا۔ یہ سب کچھ کہنے کی حد تک آسان ہے، عمل کی دنیا میں اس حوالے سے آگے بڑھنا اور اپنے آدرشوں کے مطابق جینا انتہائی دشوار ہے۔ بہر کیف ناممکن نہیں ہے۔ ہمیں اِس دنیا میں کوئی بھی کام کی چیز آسانی سے نہیں ملتی۔ جس چیز کی کچھ قدر و منزلت ہو اُسے پانے لیے کچھ نہ کچھ تو دینا ہی پڑتا ہے۔ بہتر زندگی یقینی بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے بہت سوچنا اور پھر عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانا بھی پڑتا ہے۔
کیریئر کے اہداف حاصل کرنے کی دُھن میں اگر اہم اپنے وجود ہی کو نظر انداز کردیں تو؟ ایسے میں حاصل ہونے والی کامیابی ہمارے کس کام کی؟ آج کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کا حصول کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ مسابقت بڑھتی جارہی ہے، انسان پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں عملی زندگی میں منفی اور مثبت‘ دونوں طرح کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور دباؤ سے بچ سکتا ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ آج کی دنیا میں کسی بھی انسان کے لیے دباؤ یا تناؤ سے بچنا ممکن نہیں۔ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ دباؤ اور تناؤ سے بچنے اور اُن سے دور بھاگنے کے بجائے اُن کے ساتھ رہنا اور انہیں قابو میں رکھنا سیکھنا ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں کسی جواز کے بغیر پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ محض پریشان ہونے سے طبیعت ہلکان ہوتی ہے ۔آج اگر کوئی انسان یہ کہتا ہے کہ اُس پر کوئی بھی معاملہ دباؤ نہیں ڈالتا تو یقین کیجیے کہ وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہے۔ آج کم و بیش ہر انسان کو اپنے لیے سٹریس ایکشن پلان ترتیب دینا ہے۔ اس منزل سے گزر کر ہی وہ معیاری زندگی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
آج حقیقی مفہوم میں کامیاب وہ ہے جو حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ زندگی کا کوئی نہ کوئی واضح مقصد ضرور ہونا چاہیے مگر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اُس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے سب کچھ داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ لازم نہیں کہ آپ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر وقت عجلت پسندی کا مظاہرہ کریں، ہر کام ایسی تیزی سے کریں کہ دوسرے بہت سے کام بگڑ جائیں۔ لازم ہے کہ وقفے وقفے سے رُک کر اپنے تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے، سکون کا سانس لیا جائے اور طے کیا جائے کہ اب کیا کرنا ہے۔ ناز بہشتی نے ٹھہر کر‘ سکون کے سانس لینے کو بھرپور زندگی کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ جب ہم سوچے سمجھے بغیر کچھ کرتے ہیں تب نتائج ہماری خواہشات اور توقعات کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہو بھی نہیں سکتے۔ نتائج اُسی وقت ہماری توقعات کے مطابق نکلتے ہیں جب کسی بھی عمل کی طرف بڑھنے سے پہلے خوب سوچا جائے۔ کسی بھی خیال پر رُک کر اُس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا لازم ہے۔ ''بندرانہ ذہن‘‘ اِس ڈال سے اُس ڈال پر کودتا رہتا ہے اور کسی ایک، ڈھنگ کے خیال پر ٹِک نہیں پاتا۔ یہی اصل خرابی ہے۔ زیادہ سوچنے میں ہرگز قباحت نہیں مگر چند ٹھوس خیالات کو پختہ کرکے اُن کے گرد عمل کا تانا بانا بُننے ہی میں دانش مندی ہے۔ اِسی طور زبردستی کی مصروفیت سے نجات پاکر سُکون سے جینے کی طرف جانا چاہیے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے بیہیورل سائیکالوجسٹ بی جے فوگ کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے بھرپور تسکین کا حصول اس بات سے مشروط ہے کہ وہ کس طرز کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ بھرپور زندگی بسر کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنی مرضی اور دلچسپی کے مطابق کام کرے۔ جب کوئی شخص اپنے مشاغل کو معاشی سرگرمیوں میں تبدیل کرتا ہے تو زندگی کا توازن برقرار رکھنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے اور جہاں مسرت کا حصول ممکن ہو‘ وہاں مسرت ہی ہاتھ لگتی ہے۔ ناز بہشتی نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ انسان کو کیریئر کی کامیابی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنا وجود بہتر حالت میں رکھنے پر بھی متوجہ رہنا چاہیے۔ کامیاب زندگی سے محظوظ ہونے کے لیے صحت مند جسم بھی ناگزیر ہے۔ بھرپور نیند، ورزش اور سماجی رابطوں کے ذریعے زندگی کو متوازن رکھا جاسکتا ہے۔
جو کچھ ناز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے اُس کی بنیاد پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم زندگی سے بھرپور لطف کشید کرنے کی بنیادی شرائط کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں۔ آج کا انسان ہر معاملے میں ہنگامہ پسند ہے۔ وہ ہر کام تیزی سے کرنا چاہتا ہے۔ جہاں ٹھہرنا لازم ہو‘ وہاں بھی وہ اپنی رفتار کم نہیں کرنا چاہتا۔ اور پھر اِس کا خمیازہ بھی بھگتتا ہے۔ ہر معاملہ اعتدال میں رہنے پر ہی پر درست رہ پاتا ہے۔ ہماری اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم کم و بیش تمام اہم معاملات میں توازن برقرار رکھیں۔ کسی جواز کے بغیر تیزی اپنانا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں۔ اگرچہ بہت کچھ ہے جو تیزی سے ملتا ہے مگر دوسرا بہت کچھ ہے جو ہم سے پُرسکون طرزِ عمل چاہتا ہے کیونکہ اُس کا حصول سُکون کی حالت ہی میں ممکن ہے۔ تیزی اور سُکون کے بنیادی فرق کو سمجھنے ہی پر ہم معیاری انداز سے جینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کہاں تیزی دکھانی ہے اور کہاں مکمل سُکون کا مظاہرہ کرنا ہے۔ یہ ہنر سیکھنا مشکل ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں