قدرت کے انعامات اور کمالات ہم شمار کرسکتے ہیں نہ اس امر کا تعین ہی کرسکتے ہیں کہ کسے کب کیا ملے گا۔ یہ اللہ ہی کا معاملہ ہے کہ کسی کو بہت کچھ دے کر کچھ نہ دے اور کسی کو بظاہر تہی دست رکھے مگر در حقیقت اُس کے پاس بہت کچھ ہو۔ اب یہی دیکھیے کہ کچھ لوگوں کو اللہ کی طرف سے یہ کمال عطا ہوتا ہے کہ چاہے کچھ بھی کہیں‘ جو بالکل واضح الفاظ میں ہو اور ہر لفظ اچھی طرح سمجھ میں آرہا ہو تب بھی بات سمجھ میں نہیں آتی! لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے اُس کے پردے میں کیا کہا گیا ہے۔ ایسے لوگ ریاست کے لیے نعمت کی طرح ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں سفیر، ایلچی، نمائندۂ خصوصی یا پھر ترجمان کا منصب مل کر ہی رہتا ہے! شاید اِسے حوالے سے اعجازؔ رحمانی مرحوم نے کہا ہے ؎
وہ ''بات بات پہ‘‘ حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے
ایسے ہی کمالات دوسرے بہت سے معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتے رہے ہیں اور ملتے رہیں گے۔ اس معاملے میں صرف ایک اصول یاد رکھیے کہ ع
یہ اُس کی دَین ہے، جسے پروردگار دے
یہ معاملہ انسان کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ بہت سوں کو ہم نے بات بات پر لوگوں کو حیرت سے دوچار کرتے دیکھا ہے۔ اُن کے معاملات بالکل صاف ہونے پر بھی سمجھ میں نہیں آتے۔ ذرا بلیغ انداز سے کہیں تو اُن کے پاس آنکھوں سے کاجل اُڑانے کا فن بھی ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے معاشرے میں ایک کمال تو غضب کا ہے۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسی بھی معاملے میں کی جانے والی محنت سے بچنے کے لیے اُس سے کہیں زیادہ محنت کر گزرتے ہیں! عام آدمی اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ سیدھی راہ پر چلنے سے گریز کے لیے غلط راہ پر چل کر اُس تکلیف سے زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے جو سیدھی راہ پر چلنے سے ہوسکتی تھی!
مرزا تنقید بیگ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو ہمیں ''صاحبِ کمال‘‘ سمجھتے ہیں۔ مرزا کا خیال ہے کہ ہماری تحریر میں بھی وہی تاثیر پائی جاتی ہے جو انٹرنیشنل ریلیشنز کے ترجمان ٹائپ لوگوں کی باتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے یعنی ہم بھی جو کچھ لکھتے ہیں‘ اُس کا ایک ایک لفظ تو سمجھ میں آتا ہے مگر بات سمجھ میں نہیں آتی! اور اگر سمجھنے کی کوشش کیجیے تو ؎
پھرپلٹ کر نگہ نہیں آئی ؍ تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی
والی کیفیت پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ مرزا کا استدلال ہے کہ ہم بھی اپنی تحریروں کے ذریعے آئینے یعنی قارئین کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ بہت ڈھونڈنے سے بھی اُن کا سَر ملتا ہے نہ پَیر! مرزا کو تو بس موقع اور بہانہ چاہیے ہمارے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرنے اور پھیلانے کا۔ اُن کا یہ خیال ہے کہ ہم اُن کی تنقید سے دل برداشتہ ہوکر ایک طرف بیٹھ رہیں گے اور لکھنا چھوڑ دیں گے۔ یہ مرزا کی ازلی خوش فہمی ہے۔ ہم بھی اُنہی کے دوست ہیں۔ ایک زمانے سے قائم تعلقات کی بدولت اب ہم میں بھی اُن کی سی ڈِھٹائی پنپ چکی ہے۔ اپنی تحریر کے بارے میں کی جانے والی کسی بھی نوع کی تنقید کو ''ہم چلے‘ دشمن جلے‘‘ کی بنیاد پر ہم سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم جو کچھ لکھتے ہیں اُس سے متعلق مرزا کی رائے سے ہمارا متفق ہونا کسی بھی درجے میں ضروری نہیں اور آپ کو بھی اختلافِ رائے کا پورا حق حاصل ہے۔ اور حق کیا‘ اجازت ہی سمجھیے۔ خیر! بات ہو رہی ہے کمالات کی۔ جیب کتروں کو بھلا کون اچھا کہتا ہے؟ کسی کی جیب کاٹنا ایسی حرکت ہے ہی نہیں کہ سراہی جائے مگر کبھی غور تو کیجیے کہ اچھی خاصی بھیڑ میں آپ کی جیب سے کوئی چیز نکال لینا کیا کمال کی بات نہیں؟ اور وہ بھی ایسی مہارت کے ساتھ کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی اس خیال کا گزر نہ ہو کہ آپ اپنی چیز سے محروم ہوچکے ہیں۔ جیب کاٹنے کا جرم اپنی جگہ مگر فن اور مہارت کی داد دینا تو بنتا ہے!
اِسی معاشرے میں ایک کمال اور بھی پایا جاتا ہے۔ یہ کمال ہے محنت کو زحمتِ کار دیے بغیر جینا۔ جی ہاں! ایک دنیا ہے جو محنت کے بغیر جینے پر یقین نہیں رکھتی۔ ہوسکتا ہے کہ باقی دنیا کو یہ خوف لاحق ہو کہ محنت نہ کی تو کچھ ہو نہیں پائے گا، کچھ مل نہیں پائے گا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ماحول ہی پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے گا تو پائیے گا کہ بہت سے لوگ بظاہر کچھ کیے بغیر جی رہے ہیں اور بہت مزے سے جی رہے ہیں۔ ایک آپ ہیں کہ کچھ نہ کچھ کرنے بلکہ کرتے رہنے کی فکر لاحق رہتی ہے، دن رات محنت کرکے ہلکان ہوئے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو نوکری یا ذاتی کام کا جھنجھٹ پالے بغیر، مثالی صحت کے ساتھ بھرپور مزے لیتے ہوئے جی رہے ہیں۔ یقین کیجیے، اِس ''کمال‘‘ پر اُنہیں داد نہ دینا آپ کی طرف سے تو ظلم ہی کہلایا جانا چاہیے! ہمارے ماحول میں کمالات تو اور بھی ہیں اور ایسے ہیں کہ اُن کے بارے میں لکھئے تو بس لکھتے ہی جائیے۔ غور کیجیے تو ہمارے آس پاس ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے جو ملازمت تو کرتے ہیں مگر کرتے کچھ نہیں یعنی مفت کی کھاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا وصف نہیں کہ انسان آسانی سے اپنے اندر پیدا کر لے۔ اِس کے لیے ایک عمر کی ریاضت درکار ہوتی ہے! ساتھ ہی ساتھ ایسی ڈِھٹائی بھی چاہیے کہ کوئی خواہ کچھ کہے‘ کوئی اثر قبول نہیں کرنا! ایسے لوگوں کو دیکھ کر آپ کو خیال آئے گا ؎
عجب جہاں میں ہماری مثال ہے صاحب
کسی ہنر کا نہ ہونا کمال ہے صاحب
کمال دکھانے والوں کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ذہن کو کسی بھی سطح پر، کسی بھی درجے میں بروئے کار لائے بغیر بھی لوگ جی ہی لیتے ہیں اور جی ہی رہے ہیں! ایک زمانے سے ہمارا معاشرہ ذہن کو بروئے کار لانے کے بارے میں سوچے بغیر زندہ ہے اور دنیا دیکھ کر حیران ہے۔ ہمارے ہاں ذہن استعمال کرنے والوں کا جو انجام ہوتا آیا ہے اُسے دیکھ کر بھی بہت سے لوگ ذہن کو بروئے کار لانے کے خیال سے بھی توبہ کرلیتے ہیں۔ کون ہے جو ایسے بے ذہنی کے ماحول میں ذہن سے کام لے کر اپنا ہی کام تمام کرے!
ایک زمانے سے ہمارے ہاں علم و فن کے شعبے میں میں ہر وہ آدمی داد پارہا ہے جو کچھ خاص نہیں کر پاتا۔ دور کیوں جائیے، موسیقی کا شعبہ ایک نمایاں مثال کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہے۔ جو جس قدر بے سُرے پن کا مظاہرہ کرتا ہے‘ اُسی قدر مقبولیت سے ہم کنار ہوتا ہے!
اور آخری میں ایک انوکھے کمال کی بات ہو جائے۔ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کچھ لوگ ہیں جو اب تک اصولوں اور اقدار کو گلے لگائے ہوئے ہیں اور پورے توازن کے ساتھ جینے کی کوشش ترک نہیں کرتے۔ ایسے لوگ محنت بھی کرتے ہیں اور ذہن کو بروئے کار لانے سے بھی گریزاں نہیں رہتے۔ اِن سب کے عزم و استقلال کو سلام کہ ناموافق حالات اِن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ زمانے کی روش دیکھتے ہوئے ایسے تمام لوگوں کو گزرے ہوئے زمانوں کی یادگار سمجھیے۔ یہ اِنہی کا حوصلہ ہے کہ شدید حوصلہ شکن حالات میں بھی معاشرے کا حصہ بنے رہتے ہیں وگرنہ اِن کا ٹھکانا تو پہاڑوں کی چٹانوں میں ہونا چاہیے!
ہر سمت یہاں جب ہے چلن بے بصری کا
الزام کسے دیجیے بالغ نظری کا
اب قدر یہاں کیا ہے خلیلؔ اہلِ ہنر کی
دکھ ہو بھی تو اب کیوں ہو بھلا بے ہنری کا