ایک طوفان کا غلغلہ بلند ہوا۔ یہ طوفان کراچی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک اس کا رخ تبدیل ہوا۔ مکران اور گوادر کی ساحلی پٹی سے ہوتا ہوا یہ طوفان مسقط کی طرف چلا گیا۔ اس سمندری طوفان کا نام رکھا گیا تھا گلاب۔ کہاں طوفان اور کہاں گلاب؟ طوفان تو وہ گلاب ہوتا ہے جس کے پہلو میں کانٹے ہی کانٹے سجے ہوں۔ طوفان جب آتا ہے تو خوشبو نہیں‘ تباہی اور بربادی کی بدبو پھیلاتا ہے اور جب گزر جاتا ہے تب تادیر تعفن برقرار رہتا ہے۔ صد شکر کہ کراچی کی طرف آتا ہوا ''گلاب‘‘ تباہی کی بدبو پھیلانے کسی اور سمت چلا گیا۔ اور ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کرنے کا مقام ہے کہ کراچی سے ہٹ کر جہاں گیا وہاں بھی زیادہ تباہی یا بربادی کی راہ ہموار نہ ہوئی۔ ہماری طرف کسی سمندری طوفان کا نہ آنا صریحاً اکرامِ ربّانی ہے۔ ہم میں کسی بھی طوفان کا سامنا کرنے کی قابلیت ہے نہ سکت۔ سونامی طرز کا کوئی طوفان آئے تو اللہ ہی جانے ہمارا کیا حشر ہو۔ اللہ کی رحمت ہم پر ہمیشہ سایہ فگن رہی ہے کہ آتے ہوئے طوفان ٹل کر کہیں اور چلے جاتے ہیں یا پھر دم توڑ دیتے ہیں۔
ہر سال جب گرمی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تب اہلِ کراچی بارش کی دعائیں مانگتے نہیں تھکتے۔ کم و بیش چار یا پانچ سال کراچی میں بارش برائے نام ہوئی۔ کئی بار موسم نے انتہا کردی۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں معاملہ گرمی سے ہوتا ہوا خشک سالی تک پہنچا۔ فصلیں جل گئیں۔ جو فصلیں کسی طور بچ بھی گئیں اُن کی پیداوار ہدف سے خاصی کم رہی۔ کراچی سمیت سندھ بھر کے باشندے اللہ سے دن رات دعائیں کرتے تھے کہ رحمت برسے۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ کو ہم پر رحم آگیا۔ گزشتہ برس بارشیں ایسی جم کے ہوئیں کہ شہر سیراب ہونے کی منزل سے گزرتا ہوا غرقاب ہونے کے مقام تک جا پہنچا۔ اہلِ کراچی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بارشیں ہوں گی تو ایسی ہوں گی کہ دل دہل جائیں گے‘ بات بگڑ جائے گی۔ بارش اللہ کی رحمت ہے۔ یہ کہیں بھی برسے‘ رحمت ہوتی ہے۔ اِسے زحمت کا سا درجہ ہم اپنے افکار و اعمال سے تفویض کرتے ہیں۔ کہیں بارش ہوتی ہے تو معاملات بہتر ہو جاتے ہیں اور کہیں بارش کی صورت میں صرف پریشانی دکھائی دیتی ہے۔ سوال اللہ کی رحمت کا خیر مقدم کرنے اور اُس سے کماحقہ مستفید ہونے کی تیاری کا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ ؎
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یکساں
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے!
بارش اپنی اصل میں صرف اور صرف رحمت ہے۔ اسے اور کچھ قرار دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ اگر کہیں الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بنتی دکھائی دیتی ہے تو اسے متعلقین کی نا اہلی سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
بارشیں اس لیے ہوتی ہیں کہ محض زمینیں سیراب نہ ہوں بلکہ بڑی ذخیرہ گاہوں میں پانی ذخیرہ بھی کرلیا جائے۔ دنیا بھر میں ڈیم اسی لیے تو بنائے جاتے ہیں کہ پانی کی فراہمی سال بھر جاری رہے۔ ہمارے ہاں بارشیں ہر سال ہوتی ہیں اور خوب ہوتی ہیں۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا نظام انتہائی کمزور ہونے کے باعث ہم سال بھر پانی کی قلت کا شکار رہتے ہیں۔ سات دہائیوں سے بھی زائد مدت گزر چکی ہے مگر اب تک سال بھر کے لیے پانی محفوظ رکھنے کا قابلِ رشک اور قابلِ اعتبار نظام تیار نہیں کیا جاسکا۔ اس بار بھی کراچی میں بارشیں ہوئیں تو معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ داؤ پر لگ گیا۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کراچی کی زمین ایک زمانے سے پیاسی تھی۔ جب اللہ کی رحمت جوش میں آئی تو حکومت و مقامی انتظامیہ کی نا اہلی کے باعث شہریوں کی جان پر بن آئی۔ شہر کی ندیوں اور نالوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ ایک زمانے سے ان کی خاطر خواہ صفائی نہیں کی گئی۔ برساتی نالوں میں کچرا ڈالنے کا عمل رکا نہیں۔ شہر بھر میں کہیں بھی دیکھ لیجیے‘ لوگ برساتی نالوں میں دھڑلّے سے کچرا پھینکتے ہوئے ملیں گے۔ دکانوں‘ ہوٹلوں اور فیکٹریوں وغیرہ کا کچرا تو خیر نالے میں پھینکا ہی جاتا ہے‘ گھروں کا کچرا بھی دھیرے دھیرے نالوں تک ہی پہنچتا ہے۔ کراچی کو ویسے تو بہت کچھ درکار ہے مگر سب سے زیادہ ضرورت اسے توجہ کی ہے۔ اور توجہ بھی وہ جس میں اخلاص نمایاں ہو۔ آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا شہر ملک ہی نہیں‘ دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ پوری معیشت کا مدار اس ایک شہر کی بہتر کارکردگی پر ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ شہر کسی ایک کمیونٹی کا نہیں بلکہ ملک بھر کے لوگ یہاں آباد ہیں۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں ملک کے کونے کونے سے لوگ یہاں آتے ہیں اور پھر اسی کے ہو رہتے ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو صوبائی حکومت کچھ سوچتی ہے نہ وفاق ہی کو خیال آتا ہے کہ اس شہر کو زیادہ سے زیادہ توانا رکھنے کا اہتمام کیا جائے‘ کوئی ایسا مستقل نظام اپنایا جائے جو شہر کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرتا رہے‘ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتیں پوری کی جاتی رہیں اور لوگ معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے مطلوب اطمینان و راحت سے بہرہ مند ہوں۔
گزشتہ برس طوفانی بارشیں ہوئیں تو شہر مفلوج ہوکر رہ گیا۔ تب وزیر اعظم کو کچھ خیال آیا۔ مگر اُن سے پہلے آرمی چیف نے کراچی کا دورہ کرکے اہلِ شہر کو عمومی طور پر اور کاروباری برادری کو خصوصی طور پر یقین دلایا کہ شہر کو نئی زندگی عطا کرنے کے حوالے سے جو کچھ بھی کرنا لازم ہے وہ ضرور کیا جائے گا۔ پھر وزیر اعظم نے کراچی آکر یقین دلایا کہ شہر کا بنیادی ڈھانچا مضبوط بنانے اور شہریوں کو تمام بنیادی سہولتیں ڈھنگ سے فراہم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک دو یا تین چار نہیں بلکہ پورے 1100 ارب روپے کے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان کیا گیا۔ حکومتی دعویٰ یہ تھا کہ شہر کی کایا پلٹ دی جائے گی۔ ہوا کیا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے ؎
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اِس دعوے پہ شرمایا بہت
مگر خیر‘ یہ بھی کوئی بہت حیرت انگیز بات نہیں۔ شہرِ قائد کے مکین اچھی طرح جانتے ہیں کہ وعدے اور دعوے محض وعدے اور دعوے ہوتے ہیں‘ اور کچھ نہیں۔ جس طور کوئی گلوکار اپنے آئٹم میں بہلاوے پیش کرتا ہے بالکل اُسی طرح سیاست دان بھی اجتماع سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں وعدوں‘ دعووں اور یقین دہانیوں کے بہلاوے شامل کرتے ہیں۔ عوام کچھ دیر کے لیے تو بہل ہی جاتے ہیں۔ اُن کا حافظ چونکہ کمزور ہوتا ہے اِس لیے جلد بہک جاتا ہے یعنی لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ کس نے کیا وعدہ یا دعویٰ کیا تھا‘ کیا یقین دہانی کرائی تھی۔ معروف ویب سیریز ''سٹی آف ڈریمز‘‘ کا ایک شاندار جملہ ہے ''عوام کا حافظہ بہت کمزور اور قلیل المیعاد ہوتا ہے‘ ورنہ اب تک انقلاب برپا ہوچکا ہوتا!‘‘ کچھ دن کی بات ہے‘ لوگ پھر بھول جائیں گے کہ بارشیں ہوئی تھیں‘ خرابیاں پیدا ہوئی تھیں‘ الجھنوں نے جنم لیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ہم الیکشن کے وقت بھی بھول جاتے ہیں کہ کسی نے کتنی بار لُوٹا ہے۔ جو عشروں تک لُٹیرے ثابت ہوچکے ہیں لوگ اُنہی کو دوبارہ اپنی نمائندگی کے لیے چُن لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا‘ پورے یقین سے یہ بات کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ مستقبل قریب میں کسی بڑی تبدیلی کی گنجائش دکھائی دیتی ہے نہ آثار۔ ایسا اس لیے ہوگا کہ عوام خود بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ وہ جس سودے پر راضی ہیں وہی تو انہیں دیا جارہا ہے ؎
نہ ہم بدلے‘ نہ تم بدلے‘ نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیونکر اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں
بارشیں قدرت کے نظام کے تحت ہوتی ہیں۔ بارشیں ہوتی رہیں گی۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ قدرت کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے اُس کا حق ادا کرنے کے لیے ہم تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔ جب ہم اس کے لیے تیار ہوں گے تب اللہ کی رحمت ہماری زندگی کا رخ بدلے گی۔ تب تک تو وعدوں‘ دعووں اور یقین دہانیوں ہی کا دور چلے گا۔