کیا ہم میں سے کوئی ہے جو دوسروں سے بالکل لاتعلق رہ کر جی سکے؟ جی تو سکتا ہے مگر ایسا جینا کسی بھی سطح پر جینے میں شمار نہیں ہوگا۔ اور ہاں! اپنی کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اُسے دوسروں کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کو دوسروں سے مدد لیے بغیر زندگی بسر کرنے کی راہ سوجھ جائے۔ ہم سبھی مختلف معاملات میں ایک دوسرے کے ضرورت مند یا محتاج ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو زندگی خوبصورتی سے گزرتی ہے‘ بصورتِ دیگر معاملات صرف پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ دانش کا تقاضا تو یہی ہے کہ مل جل کر‘ ایک دوسرے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔
آپ نے کبھی اپنے تعلقات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہے؟ جو لوگ آپ کی زندگی میں ہیں کیا وہ آپ کی شخصیت اور سوچ میں کسی بڑی مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنے تعلقات سے مکمل طور پر مطمئن ہیں؟ ڈاکٹر ہنری کلاؤڈ اور ڈاکٹر جان ٹاؤنسینڈ نے اپنی کتاب ''سیف پیپل‘‘ میں اِسی نکتے پر بحث کی ہے۔ اُن کی نظر میں غیر محفوظ لوگ وہ ہیں جو اپنے اور دوسروں کے حالات کے پیدا کردہ منفی اثرات سے محفوظ رہنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہمیں اور آپ کو محفوظ یعنی دور رہنا ہے۔ ہم معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہیں تو بہت سوں سے ملنا پڑتا ہے۔ یہ میل جول کسی نہ کسی حوالے سے ناگزیر سا ہے مگر اس میل جول کو ایک خاص حد تک رکھنا ہمارے بس میں ہے۔ تعلقات کی نوعیت دیکھتے ہوئے اُن کی حدود کا تعین ہمارے معاملات کی درستی کیلئے ناگزیر ہے۔ ہم اگر یہ طے کرلیں کہ اپنے وجود کو مختلف معاملات میں ضائع ہونے سے بچانا ہے تو ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم منفی اثرات کے حامل افراد سے محفوظ رہیں۔ البتہ یہ حکمتِ عملی طے کرنا بہت مشکل ہے۔ بہت سوں کو یہ ہنر سیکھنے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔ ہر انسان کو وقتاً فوقتاً زندگی کے معاشرتی پہلو کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے معمولات کا جائزہ لے کر اُن لوگوں سے بچنے کی کوشش کریں جن کے ساتھ گزارا ہوا وقت محض ضائع ہوتا ہے۔ منفی رجحانات کے حامل افراد ہمارے لیے صرف اور صرف خسارے کا سودا ہوتے ہیں۔ اُن سے ہر حال میں بچ کر رہنا ہے۔
مصنفین لکھتے ہیں کہ منفی رجحانات کے حامل افراد کو تین درجوں میں رکھا جاتا ہے؛ پہلے درجے میں وہ لوگ ہیں جو ذرا سی پریشانی واقع ہونے پر تعلقات کو ادھورا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خود بھی حوصلہ ہار دیتے ہیں اور دوسروں سے بھی ایسا ہی کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ جو ذرا سی الجھن واقع ہونے پر حوصلہ ہار بیٹھے وہ آپ کے کس کام کا؟ ایسے ہر انسان سے فاصلہ رکھنا لازم ہے۔ دوسرے درجے میں وہ لوگ آتے ہیں جو بات بات پر صرف تنقید کرتے ہیں۔ تنقید سے کہیں بڑھ کر وہ تنقیص کے قائل ہوتے ہیں۔ انہیں ہر معاملے میں صرف خرابی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے تمام لوگوں سے بچنا اور دور رہنا بھی لازم ہے کیونکہ اِن کے ساتھ گزارا ہوا وقت آپ کے ذہن میں صرف الجھنیں پیدا کرے گا۔ جو لوگ محض تنقیص و تنقید کے عادی ہوتے ہیں اُنہیں کچھ بھی مثبت دکھائی نہیں دیتا اور وہ کسی میں بہتری کی امید پیدا نہیں کرسکتے۔ آپ کو زیادہ وقت اُن کے ساتھ گزارنا ہے جو مثبت سوچ رکھتے ہوں اور امید کا چراغ روشن کرسکتے ہوں۔ تیسرے درجے میں وہ لوگ ہیں جو بیشتر معاملات میں اس قدر غیر ذمہ دار ہوتے ہیں کہ آپ اُن پر بھروسا کر ہی نہیں سکتے۔ اپنے تمام اہم معاملات سے ایسے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کیجیے کیونکہ اِن کی موجودگی آپ کی کامیابی اور مسرت‘ دونوں کو داؤ پر لگاسکتی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ انداز سے جینے والے اپنا وقت اور وسائل ضائع کرتے ہیں اور اِن سے رابطے میں رہنے والے بھی اِن کے شدید منفی رجحانات کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔
مذکورہ کتاب کا ایک اہم پیغام یا سبق یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانے کے تلخ تجربات آپ پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوکر آپ کی زندگی میں شدید عدم توازن پیدا کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سوں کو کبھی کبھی حالات کی خرابی بڑھنے پر احساس ہوتا ہے کہ غلط لوگوں سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ جو لوگ ماضی کے تلخ تجربات کو بھلانے میں ناکام رہتے ہیں وہ خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو یاد کرکے رونے والوں سے کنارہ کش ہوتے وقت ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بھی تو کسی حد تک اُن جیسے ہیں۔ ماضی کی بہت سی تلخ باتوں کو یاد کرکے اپنا وقت برباد کرنے اور آنسو بہانے کی عادت ہم میں سے ہر ایک میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ یادوں سے مکمل چھٹکارا پانا ممکن نہیں؛ البتہ اُنہیں ایک خاص حد تک رکھنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے ۔
مصنفین کا استدلال ہے کہ ہمارے تعلقات کی نوعیت ہی طے کرتی ہے کہ ہم کس سطح کی صحت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ ہر علاقہ زندگی بسر کرنے کا ایک خاص انداز رکھتا ہے۔ اِسی طور بہت سے لوگ ایک خاصے سانچے میں ڈھلی ہوئی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بعض برادریاں کھانے پینے کے معاملات میں شدید عدم توازن کی حامل ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے سے صحت کا معیار گرانے والے حالات پیدا کرنے والی طرزِ زندگی ہمارے وجود سے چمٹ کر رہ جاتی ہے۔ جن علاقوں میں لوگ کھانے پینے کے معاملات میں لاپروا ہوں وہاں زندگی بسر کرنے یا اُن لوگوں سے میل جول رکھنے والوں کی عاداتِ خور و نوش بھی بے ہنگم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہماری عمومی صحت کے معیار کا تعلق تعلقات سے اِس حد تک ہے کہ ہم اِسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بہت سے لوگ غیر محسوس انداز میں کھانے پینے کی بے ڈھنگی عادات اپناتے چلے جاتے ہیں اور جب تک اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تب پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ اِسی طور بعض علاقوں میں رات دیر سے سونے اور دن چڑھے تک سوتے رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اگر ایسے کسی بھی علاقے میں رہائش اختیار کرتے ہوئے آپ خود کو ڈھیلا چھوڑ دیں گے تو آپ کا نیند کا حساب کتاب بھی گڑبڑا جائے گا۔ بعض علاقوں میں فضول خرچی عمومی رجحان کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے پر آپ بھی اِس منفی رجحان کی زد میں آسکتے ہیں۔
غیر محفوظ لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت میں آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ آپ کی توانائی کو کتنی خطرناک حد تک ضائع کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے لیے بھی کچھ نہیں سوچتے اور آپ کو بھی سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرنے سے روکتے ہیں۔ کتاب کے مصنفین لکھتے ہیں کہ باقی تمام باتیں بھول کر صرف یہ نکتہ ذہن نشین رکھیے کہ اِس دنیا میں آپ کا قیام ایک خاص حد تک ہی ہے یعنی آپ کو ملنے والا وقت محدود ہے۔ یہ وقت آپ کو کسی بھی حال میں ضائع نہیں کرنا۔ زندگی کس طور بسر کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ سودمند ثابت ہو‘ یہ طے کرنا آپ کا کام ہے۔ یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے اور پلک جھپکتے میں نہیں ہو جاتا۔ جب آپ اپنی اصلاح کے سفر پر نکلتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی عادتیں کس طور دیوار بن کر راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ مذکورہ کتاب آپ کو سکھائے گی کہ اچھی زندگی کے لیے تعلقات کی سمت متعین کرنا کتنا ضروری بلکہ لازم ہے۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق مستقل بنیاد پر استوار ہو اُن میں ایسے لوگ بالکل نہیں ہونے چاہئیں جو زندگی کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہوں اور عملی سطح پر شدید لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ ایسے لوگوں سے محفوظ رہنا لازم ہے یعنی ان سے فاصلہ رکھیے۔