"MIK" (space) message & send to 7575

خشک میوے؟ یہ مذاق اچھا نہیں!

انسان اگر چاہے تو کسی بھی بات پر فخر کرسکتا ہے۔ حالات کی روش ہمیں کہاں لے آئی ہے کہ اب دو وقت کی روٹی کا بھی ڈھنگ سے اہتمام ہو جائے تو اپنے وجود پر فخر سا محسوس ہونے لگتا ہے! ایسا اس لیے ہے کہ مسائل کا ایک انبار ہے جو ہر وقت آنکھوں کے سامنے دَھرا رہتا ہے۔ ایسے میں دل گھبراکر بار بار کہتا ہے ؎
زندگی جا چھوڑ دے پیچھا مرا ... میں ہوں انساں‘ کوئی پتھر تو نہیں
ایک تو ہوتا ہے کفرانِ نعمت یعنی کوئی نعمت ہاتھ آرہی ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس سے مستفید ہونے سے انکار کیا جائے۔ کفرانِ نعمت بھی غضب ڈھانے والی غلطی بلکہ گناہ ہے مگر اِس سے زیادہ خطرناک چیز ہوتی ہے ناشکرا پن۔ ہم اب اپنے ناشکرے پن کی سزا پارہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کو اللہ نے کم و بیش تمام ہی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جغرافیائی ساخت دیکھیے تو اِس ملک کا کوئی ثانی نہیں۔ اِسے دریا بھی میسر ہیں اور سمندر بھی۔ میدان بھی ہیں اور پہاڑ بھی۔ کھائیاں بھی ہیں اور وادیاں بھی۔ انتہائی گرم اور خشک علاقے بھی ہیں اور یخ بستہ خطے بھی۔ اُمورِ فطرت و قدرت کے کسی بھی ماہر سے پوچھ دیکھیے، وہ پاکستان کو ایک دنیا کے لیے قابلِ رشک خطہ قرار دینے میں بُخل سے کام نہیں لے گا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال خطۂ ارض کے مکینوں کی حیثیت سے ہم پر اس نعمت کدے کو سلامت رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم نے اب تک اس ذمہ داری کے نبھانے سے رُو گردانی کی ہے اور بارہا اِس کی سزا بھی پائی ہے۔ قدرت کی بخشی ہوئی نعمتوں کی شدید ناقدری نے ہمیں شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ متنوع وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی ہم مشکلات سے اَٹی ہوئی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اشیائے خور و نوش کی بات ہو تو ذہن پر زور دے کر بتائیے کہ کون سی نعمت ہے جس سے اللہ نے نہیں نوازا۔ سبزیاں، ہر طرح کا گوشت، اناج، پھل‘ کیا ہے جو ہمارا نصیب نہیں۔ اناج کے معاملے میں ہم سر بسر خود کفالت کی منزل میں ہیں۔ اگر اس کے باوجود اشیائے خور و نوش کے نرخ بے قابو ہیں اور عام آدمی کھانے پینے کے معاملات میں انتہائی نوعیت کی الجھن محسوس کر رہا ہے تو یہ منصوبہ سازی کے فقدان اور نیتوں کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ قدرت نے ہم پر فیاضی کی انتہا کر دی مگر ہم اپنے وعدے اور عزائم بھول بیٹھے ہیں۔ خشک میووں کے معاملے میں بھی اللہ نے ہمیں کسی درجے میں محروم نہیں رکھا۔ ہم نے تو وہ زمانے بھی دیکھ رکھے ہیں کہ خشک میوے کم نرخوں پر اور وافر مقدار میں ملا کرتے تھے۔ وہ زمانے ہوا ہوئے۔ اب خشک میووں کا یہ حال ہے کہ اُن کے دام پوچھئے تو سن کر خون خشک ہونے لگتا ہے! کراچی میں ایک وقت وہ بھی گزرا ہے جب بُھنے ہوئے چنوں سے انجیر سستی تھی! جی ہاں! یہ 1997ء کی بات ہے۔ تب چلغوزے اور دیگر خشک میوے بھی خاصے معقول نرخوں پر دستیاب ہوا کرتے تھے اور معاملہ اِتنا آسان ہوتا تھا کہ عام آدمی بھی اپنے اہلِ خانہ کو موسمِ سرما میں چند کلو خشک میوے کھلانے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ چند برس سے چلغوزوں کا معاملہ ایسا ہے کہ اگر خریدیے تو لوگ مڑ کر دیکھتے ہیں۔ دام پوچھنے پر دکاندار پہلی بار میں تو توجہ ہی نہیں دیتے کہ ع
دامن تو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
آپ ثابت قدم رہتے ہوئے دوبارہ دام پوچھنے پر دکاندار یا ٹھیلے والا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتا ہے اور بزبانِ خاموشی کہتا ہے ؎
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو!
ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب کراچی میں‘ صدر میں فٹ پاتھ پر خانہ بدوش عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ یعنی گھر کا سا ماحول بنائے بارہ پندرہ اقسام کے خشک میوے سجائے بیٹھی ہوتی تھیں۔ خانہ بدوش عورتیں آج بھی فٹ پاتھ پر خشک میوے فروخت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اِنہی کی مہربانی سے اہلِ کراچی خشک میووں کو اپنے بہت قریب بلکہ قدموں میں پاتے ہیں! چلتے چلتے تھوڑا رُکیے، سُوکھے ہوئے پھلوں اور حالات کی سختیاں جھیلتے پھول سے بچوں پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے اور پھر اِس بات پر اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ خشک میوے اِتنے قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا!
یہی خشک میوے شاندار دکانوں کے شو کیسز میں خاصے اہتمام کے ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔ عالی شان دکانوں میں سجے ہوئے خشک میووں کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش پر عمل کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہیں دیکھنے کے چارجز تو وصول نہیں کیے جائیں گے! وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں کوئی بھی اچھی چیز کھانے سے قبل دیکھنا پڑتا ہے کہ اس شوق کی تکمیل کتنے دنوں کا بجٹ خراب کرکے دم لے گی! خشک میوے بیچنے اور خریدنے والے خود کو اِن میووں کے سامنے خاک نشیں پاتے ہیں۔ جس طرح کسی ظالم بادشاہ کے سامنے سچی بات کہنے سے ڈر لگتا ہے بس کچھ ویسا ہی خوف اب بادام، پستے، کاجو، اخروٹ، انجیر، چھوہارے وغیرہ کے دام پوچھتے وقت محسوس ہوتا ہے!
مقامِ شکر ہے کہ ہم طرح طرح کے خشک میووں کو اپنے قریب پاتے ہیں۔ حالات کی روش چغلی کھارہی ہے کہ خشک میووں کی بہار ہم تک ہے۔ اب اِن میووں کو آسانی سے ''بقلم خود‘‘ دیکھنے کا موقع بھی ہاتھ سے جایا چاہتا ہے۔ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم خشک میووں سے انٹر ایکشن کا شرف پانے والی آخری نسل ہیں! ہوسکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو بادام، پستے، کاجو، کشمش، انجیر، خوبانی، چھوہارے وغیرہ کی تصاویر سے کام چلانا پڑے! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل کو آپ کے پوتے اپنے دوستوں کو بتائیں ''ہمارے دادا بہت بہادر تھے، اُنہوں نے اِس صدی کے شروع میں کئی بار ڈرائی فروٹ کے دام پوچھے تھے‘‘۔ اب معاملہ یہاں تک آگیا ہے کہ گھر میں کچھ میٹھا پکایا جائے تو سوچنا پڑتا ہے کہ اُس میں خشک میوے ڈال کر کچھ بہتری پیدا کرنے کی کوشش میں اچھی خاصی خرابی پیدا کرنے کی کوشش کریں یا ایسا کرنے سے مجتنب رہیں! کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ گھر میں کھیر پکائی جانے لگی تو اُس میں بادام پستے ڈالنے کی ضرورت پیش آئی۔ ہم نے دکاندار سے کہا 100 روپے کے بادام پستے دے دو۔ اُس نے بادام اور پستوں کے نام پر چند دانے تھمادیے۔ ہم حیران رہ گئے۔ سوچا شاید دکاندار مذاق کے موڈ میں ہے۔ پھر خیال آیا اُس سے ہمارا مذاق تو ہے نہیں۔ تو پھر یہ کھلواڑ کس کھاتے میں؟ چاہا کہ تھوڑی بہت ہمت جمع کرکے اُس سے پوچھیں کہ کیا 100 روپے میں بادام اور پستے کے یہ پندرہ بیس دانے ہی آتے ہیں۔ مگر پھر ہم کچھ پوچھنے سے مجتنب رہے۔ سیدھی سی بات ہے، اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے!
ہم آن لائن کے دور میں جی رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ مدت کے بعد زندگی بھی آن لائن ہوگی یعنی ہوا بھی آن لائن ملا کرے گی۔ لائن کٹی اور نکل لیے! ہوسکتا ہے کہ کل کو آپ پچاس گرام چلغوزوں کی آن لائن خریداری کی طرف بڑھیں اور وینڈر کی طرف سے پیغام آئے کہ پچاس گرام چلغوزے کھانے کے لیے کم از کم ڈیڑھ سو گرام کا آرڈر دیجیے کہ سو گرام چلغوزے تو آن لائن کی پائپ لائن ہی میں دم توڑ دیتے ہیں! چھوہاروں کی قدر و منزلت بھی اچھی خاصی بڑھ چکی ہے۔ بہت سے خواہش مند تو دام سن کر چھوہارے جیسا پچکا ہوا منہ لے کر رہ جاتے ہیں! اخروٹ بھی اب کیا خریدا جائے؟ توڑیے تو وہی اپنے دماغ جیسی گری نکلتی ہے! جہاں مونگ پھلی جیسی عام سی چیز بھی 600 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہو وہاں انجیر، بادام، پستوں، کشمش، کاجو وغیرہ کا رونا کیا روئیے۔ یہ ایسا عجیب معاشرہ ہے کہ جہاں یاروں نے اسپغول کی بُھوسی جیسی عام سی چیز کے دام بھی کم و بیش 1200 روپے فی کلو گرام کی منزل تک پہنچادیئے ہیں۔ یہ تو صریح ستم ظریفی ہے کہ خشک میووں کے دام سُن کر معدہ گڑبڑا جائے تو گڑبڑ ختم کرنے والی چیز بھی خشک میوے ہی کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں