کسی بھی معاشرے کی ترقی کا حقیقی مدار علم و فن پر ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں جس کے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کسی کا اعلیٰ درجے کی ذہانت کا حامل ہونا شرط ہو‘ ہر دور میں یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ جدید ترین یعنی عصری علوم و فنون میں پیشرفت ہی معاشرے کو باقی دنیا سے مسابقت کے قابل بناتی اور بلند رکھتی ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ جدید ترین علوم و فنون میں نمایاں پیشرفت یقینی بنانے کی دُھن میں سرگرداں ملے گا۔ ایسا اس لیے ہے کہ ترقی کی دوڑ میں اپنے آپ کو شریک رکھنے کے لیے غیر معمولی تگ و دَو درکار ہوتی ہے۔ وہی معاشرے ترقی کی دوڑ میں رہ پاتے ہیں جو عصری علوم و فنون میں غیر معمولی بلکہ حیران کن حد تک یدِ طُولیٰ رکھتے ہوں۔ کسی بھی ملک یا معاشرے کو حقیقی معنوں میں ترقی اور استحکام سے ہم کنار کرنے کا کوئی اور طریقہ ہو تو بتائیے۔ ہر قوم جب دوسروں سے بڑھ کر کچھ کرنے کا عزم کرتی ہے تو علوم و فنون میں پیشرفت یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ یہی ایک راستا ہے جس پر چل کر اقوام خود کو حقیقی معنوں میں زندہ رکھ پاتی ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں کو باقی دنیا سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہر معاشرہ دوسروں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے بھی پسماندہ معاشروں سے کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور کچھ نہ سہی‘ یہی سیکھا جاتا ہے کہ پسماندگی سے کس طور بچا جاسکتا ہے!
ہمارے جیسے معاشروں کے معاملات علوم و فنون کے حوالے سے انتہائی پیچیدہ ہیں۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر اور اُس کے نتائج سے مستفید ہونے والوں کی ترقی و خوش حالی سے بھی کچھ نہیں سیکھا جاتا۔ ہر معاشرہ کچھ نہ کچھ تو سکھاتا ہے‘ کوئی سیکھنا نہ چاہے تو اور بات ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ سیکھنے پر تو مائل نہیں ہوتے مگر دوسروں کی ترقی سے مرعوب ہوکر اُن کے علوم و فنون اور بالخصوص فلسفۂ حیات کی جُگالی ضرور کرتے ہیں۔ جس طور کسی بھی معاملے کی باقیات پر انحصار کرکے زندگی بسر کرنے کی روش اپنائی جاتی ہے‘ یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ چونکہ آسان ترین آپشن ہے اِس لیے جلد اپنایا جاتا ہے اور تادیر اِس سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
آج ہم مغرب کو ڈرائیونگ سیٹ پہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ دنیا کی گاڑی کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے۔ جس طرف لے جانا چاہتا ہے‘ لے جاتا ہے۔ دنیا کو جس ثقافت کی نذر کرنا چاہتا ہے‘ کرنے لگتا ہے اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ تمام معاملات معیشت سے شروع ہوکر معیشت پر ختم ہو رہے ہیں۔ مغرب نے ہر معاملے میں خالص مادّہ پرست سوچ کو پروان چڑھاکر دنیا کو اس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں اِس سے ہٹ کر دنیا کو اور کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ ہر معاملے کو صرف اور صرف مالی منفعت و نقصان کی عینک لگاکر دیکھا جارہا ہے۔ آج دنیا‘ بظاہر‘ مغرب کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق بحران پیدا کرتا ہے اور اُسی کی مرضی سے استحکام پیدا ہوتا ہے۔ محض ممالک ہی نہیں بلکہ پورے پورے خطوں کو مغرب نے اپنی چال بازیوں سے شدید عدمِ استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔
کم و بیش پانچ صدیوں کی محنت ِ شاقہ کے بعد مغرب نے اپنے آپ کو دنیا کی سربراہی کے لیے تیار کیا ہے۔ ایک صدی سے بھی زائد مدت سے پوری دنیا عملاً مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ ایک دور تھا جو ایشیا کا تھا‘ تب دنیا بھر کے خطے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے ایشیا کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ ایشیا میں عصری علوم و فنون کا منہج پوری دنیا کے لیے نمونہ تھا جسے اپناکر ترقی سے ہم کنار ہونے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اب ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ فیشن کا عالمی دارالحکومت پیرس ہے۔ علمی سطح پر کچھ کرنے کا سوچئے تو ذہن میں لندن کے تعلیمی ادارے ابھرتے ہیں۔ امریکا میں کئی شہر علمی سطح پر خاصے بلند ہیں۔ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجیز ایک زمانے سے دنیا کے لیے مختلف عصری علوم و فنون میں پیشرفت کی روشن مثال کی صورت موجود ہے۔ کیا ہمارا یعنی مسلم دنیا کا مقدور یہی رہ گیا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کی 'بخشش‘ پر جئیں؟ کیا ہم اب کچھ بھی نہیں کرسکتے؟ کیا مغربی دنیا حتمی طور پر ہم سمیت پوری دنیا کی سربراہی کرتی رہے گی؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ ہم اب علم و فن کے افق پر نمودار ہو ہی نہیں سکتے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں! ہر دور میں وہی کامیاب رہتا ہے جو محنت کے ذریعے علوم و فنون میں پیشرفت یقینی بناتا ہے۔ ہمارے لیے آگے بڑھنے کا کوئی اور راستا نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ حقیقت اور عمل کی دنیا میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ جو افراد یا اقوام شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتی ہیں‘ وہ بالآخر ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے ممالک کو دیکھا جنہوں نے عصری تقاضوں کو نظر انداز کیا اور بربادی کی طرف گئے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو مکمل تباہی سے محض اس لیے دوچار ہوئے کہ انہوں نے عصری علوم و فنون میں پیشرفت کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا اور وقت کے ضیاع بھی محسوس نہ کرسکے۔ افریقہ میں کئی ممالک ایسی ہی کیفیت سے دوچار رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی متعدد ممالک اپنے آپ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنے کے باعث شدید معاشی و معاشرتی الجھنوں کا شکار رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مجموعی کیفیت یہ ہے کہ کچھ نہ کیجیے‘ سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا۔ بعض معاملات میں انسان درستی کے لیے کچھ نہیں کرتا اور پھر ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ درست ہوگیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا! معاملہ یہ ہے کہ وقت گزر جانے کے بعد معاملات کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے اور جو نقصان ہونا ہوتا ہے‘ وہ ہو چُکتا ہے۔ ایک زمانے سے‘ ہم پر لازم ہے کہ آج کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ کامیابی یقینی بنانے والے علوم و فنون کی طرف آئیں۔ آج کی دنیا جن شعبوں میں تحقیق کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اُن سے ہٹ کر کچھ بھی کرنے کی صورت میں ہم اپنے لیے کامیابی تو دور کی بات‘ بقا بھی یقینی نہیں بناسکتے۔ یہ سوچ ذہن سے کھرچ پھینکنے کی ضرورت ہے کہ کچھ نہ کرنے کی صورت میں کچھ خاص نقصان نہیں پہنچے گا اور کسی نہ کسی طور جی ہی لیں گے۔ حقیقت سے رُو گردانی اور محنت سے جی چرانے کا آپشن اگرچہ ہر دور میں رہا ہے مگر ہر دور میں وہی اقوام پوری توقیر کے ساتھ جی پائی ہیں جنہوں نے اس آپشن سے ہٹ کر‘اپنے آپ کو بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی۔ آج بھی معاملہ یہی ہے۔
ہمارے جیسے معاشرے اس وقت مغرب کے سامنے مکمل طور پر ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب سے ہٹ کر ترقی نہیں ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں کئی ممالک اِس کی بہت اچھی مثال بن کر ابھرے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، چین، ملائیشیا اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی معاشرے پسماندہ دنیا کو یہ حقیقت سمجھانے کی پوزیشن میں ہیں کہ مغرب سے مرعوب ہوئے بغیر کام کرنے کی صورت میں محض بقا ہی نہیں بلکہ بھرپور ترقی اور استحکام بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم ایسا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ ان معاشروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے درکار محنت کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے تیار نہیں ہو پاتے۔ ترقی پذیر معاشروں کے لیے ناگزیر ہے کہ مزید وقت ضائع کیے بغیر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو آنے والے وقت کے لیے اچھی طرح تیار کرنے کے معاملے میں سنجیدگی اختیار کریں یعنی عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ علوم و فنون میں پیشرفت یقینی بنائیں۔ اس معاملے میں بدحواسی سے پاک تیزی دکھانا ہے۔