ایک زمانے سے بہت سی قوتیں تمام ابھرتے ہوئے ممالک کے خلاف رہی ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ یہ ابھرتے ہوئے ممالک کسی بھی شعبے میں اُنہیں یعنی بڑی قوتوں کو منہ دینے کے قابل نہ ہوسکیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے بہت سے حربے آزمائے جاتے رہے ہیں۔ کبھی سیاسی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت پیدا کرکے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو کبھی معاشی خرابیاں پیدا کرکے ابھرتے ہوئے ممالک کو کسی نہ کسی طور دام میں لانے کی سعی فرمائی گئی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی کوشش رہی ہے کہ بعض خطے کسی بھی معاملے میں (بالخصوص ثقافتی و فکری اعتبار سے) ابھرنے نہ پائیں۔ یہی سبب ہے کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں ثقافتی اور فکری خرابیاں پیدا کرنے پر زور رہا ہے۔ ذہنی غلامی یقینی بنانے کے لیے جتنے بھی ہتھکنڈے آزمائے جاسکتے ہیں وہ آزمائے گئے ہیں۔
ایک زمانے سے مشرقِ وسطٰی اور جنوبی ایشیا کو الجھنوں سے دوچار رکھنے پر زیادہ توجہ جاتی رہی ہے۔ مغرب چاہتا ہے کہ یہ دونوں خطے کسی بھی صورت ابھرنے نہ پائیں۔ مشرقِ وسطٰی میں تیل کی دولت نے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات بڑھائی ہیں۔ خلیج کے خطے میں تیل کی دولت نے جب عمومی معیارِ زندگی بلند کیا تب پڑوسی خطوں کے لوگوں نے سوچا کہ اب شاید حقیقی ترقی یقینی بنانے پر توجہ دی جائے گی اور تیل کی دولت سے علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بناکر مستقبل سنوارنے کی کوشش کی جائے گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ آسانی سے حاصل ہو جانے والی دولت نے سنجیدگی کی طرف جانے ہی نہیں دیا۔ تیزی سے حاصل ہونے والی غیر معمولی دولت نے خلیج اور اُس سے متصل خطوں کو خالص صارف معاشروں میں تبدیل کیا۔ صنعتی بنیادیں مضبوط بنانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ جدید علوم و فنون کی طرف مائل ہونے کا رجحان پیدا نہیں ہوا یا پیدا نہیں ہونے دیا گیا۔ اسی طور مالیاتی نظام کو بھی محفوظ و تاب ناک مستقبل یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ عرب دنیا نے اپنا ٹھوس مالیاتی نظام تشکیل دینے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ تیل کی دولت کو انہوں نے امریکا اور یورپ کے بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب وہ بہت سے معاملات میں مغربی دنیا پر منحصر ہوکر رہ گئے ہیں۔ سینکڑوں ارب ڈالر امریکا اور یورپ کے بینکوں میں پڑے ہیں مگر وہ کسی کام کے نہیں کیونکہ اُن سے جو حقیقی فوائد حاصل ہونا چاہئیںتھے وہ نہیں ہوسکے۔
پس ماندہ معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کی طرف جانا تو دور کی بات رہی‘ وہ اب تک یہ بات بھی ڈھنگ سے اور کماحقہ محسوس نہیں کرسکے کہ اُنہیں اپنی پسماندگی دور کرنی ہے اور یہ کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاملات مزید الجھتے جائیں گے۔ پاکستان جیسے معاشروں ہی کو دیکھیے کہ وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اُسے اَن دیکھا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جن کا کام سوچنا اور لکھنا ہے اُن میں سے جنہیں توفیق نصیب ہوئی ہے وہ بہت کچھ سوچ اور لکھ رہے ہیں‘ مسائل کی نوعیت اور شدت کی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں مگر بے حِسی ہے کہ ختم نہیں ہوتی‘ بے دلی دم توڑنے کا نام نہیں لیتی اور عدم توجہ کی گرم بازاری بھی برقرار ہے۔
جنوبی ایشیا‘ مشرقِ وسطٰی‘ شمالی و وسطی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کا ایک بڑا حصہ خاصی طویل مدت سے شدید الجھن کا شکار ہے۔ ایک طرف سیاسی بے چینی ہے اور دوسری طرف معاشی خرابی۔ مالیاتی نظام کی کمزوریاں معاشی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام شدید پستی کا شکار ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی کچھ اچھا نہیں۔ خاندانی نظام موجود تو ہے مگر اُس میں دم نہیں۔ انسان بہت تگ و دَو کرنے پر بھی معیاری اور پُرسکون زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو پارہا۔ جن کی مالی حالت بہت خراب ہے اُن کا ہر وقت پریشان رہنا سمجھ میں آتا ہے مگر اسے کیا کہیے کہ جن کی مالی حالت اچھی ہے اور جو خاصی معقول ماہانہ آمدن کے حامل ہیں وہ بھی الجھے ہوئے ہیں اور متوازن و مستحکم زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو پارہے!
پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں کیا جانا چاہیے جو شدید پسماندگی سے بھی دوچار ہیں اور کچھ سمجھنے‘ سیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ افریقہ کے پسماندہ ترین خطے بھی این جی اوز کی مدد سے اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہیں اور ملک و قوم کا استحکام یقینی بنانے کی خاطر بہت کچھ کرنے کا عزم جوان و توانا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک باقی دنیا کی روش کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ متعدد پسماندہ خطوں کی وسیع البنیاد تباہی اور بربادی بھی ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کی تحریک دینے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان کے معاملات کی درستی کسی ایک شعبے کی درستی سے ممکن نہیں۔ بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہے۔ سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت‘ معاشرت اور سفارت کو بھی درست کرنا ہے۔ علاوہ ازیں ثقافتی و فکری سطح پر بھی بہت کچھ کرنا لازم ٹھہرا ہے۔ حقیقی مفہوم میں اصلاحِ احوال یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ سوچنے اور غور کرنے کی عادت اپنائی جائے۔ ہم اس منزل سے بہت دور ہیں۔ جس قدر سنجیدگی درکار ہے ہم میں اُس کے آثار بھی نہیں۔ دنیا بھر کے معاشروں کے حالات سے باخبر ہونے پر بھی ہم اپنے معاملات کی درستی کے حوالے سے سنجیدہ ہوکر کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم اصلاحِ احوال کے حوالے سے جن الجھنوں سے دوچار ہیں اُن سے ہر ایسے معاشرے کو دوچار ہونا پڑتا ہے جس میں سوچنے والوں کی کمی بھی ہو اور سوچنے والے اپنے حصے کا کام کرنے پر آمادہ بھی نہ ہوں۔ ہر پچھڑے ہوئے معاشرے کو معاملات کی درستی اور پیش رفت یقینی بنانے پر مائل کرنے کے لیے اہلِ علم و فن کو پوری سنجیدگی کے ساتھ میدان میں آکر اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اہلِ علم و فن اپنی ذمہ داری نبھانے کے معاملے میں اب تک سنجیدہ نہیں ہوئے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچنے والے ذہن بھی زیادہ سے زیادہ مالی منفعت یقینی بنانے کی روش پر گامزن ہیں۔ سوچنے والوں کی بھی بہت سی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ اُنہیں بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے تاکہ زندگی آسان ہو مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنا بنیادی فریضہ بھول جائیں۔ پسماندہ معاشروں کو معیاری زندگی کی طرف لانے میں سوچنے‘ لکھنے اور بولنے والے بڑھ کر فعال کردار ادا کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو فکر و عمل کا جمود توڑ کر مستحکم زندگی کی طرف بڑھنے کی تحریک ملے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جنہیں ملک و قوم کو کچھ کرنے کی تحریک دینے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے وہ بھی عمومی روش پر گامزن ہیں یعنی اُنہیں بھی صرف اپنی جیب یا تجوری بھرنے سے غرض ہے۔ عام آدمی کی ذہنی سطح یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی طور زیادہ سے زیادہ مالی منفعت کا حصول یقینی بنایا جائے تاکہ ہر وہ چیز آسانی سے میسر ہو جس کے بغیر زندگی ادھوری محسوس ہوتی ہو۔ جب ذہن کا یہ کھوکھلا پن اہلِ علم و فن میں بھی عام ہو جائے تب معاشرے کو حقیقی اور مکمل تباہی کی طرف جانے سے روکنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران پاکستان میں ہر معاملے میں اور ہر سطح پر جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اُسے دور کرنے کے لیے طویل جدوجہد درکار ہے۔ اس حوالے سے عزم کی بھی اہمیت ہے اور عمل کی بھی۔ سنجیدگی اضافی نہیں‘ بنیادی شرط ہے۔ اپنی مٹی سے محبت بھی شرط ہے کہ اس سے محبت ہی کے دم سے ہمیں اپنے لیے بھی کچھ کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ اساتذہ‘ مصنفین اور مقررین کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ اُن کا محض جلبِ منفعت پر راضی رہنا خطرناک ہے۔ قوم اپنے بیشتر معاملات کی درستی کے لیے اُن کے فیڈ بیک پر مدار رکھتی ہے۔ اللہ نے جنہیں ذہن‘ زبان اور قلم سے نوازا ہے اُنہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ میدان میں آکر اپنے حصے کا کام کرنا ہی پڑے گا۔ یہ بھی قومی خدمت ہی کی ایک شکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ایسی ہی قومی خدمت سے قوم کچھ بن پائے گی‘ کر پائے گی۔