"MIK" (space) message & send to 7575

جائے تو جائے کہاں؟

زندگی فرد کی ہو یا قوم کی‘ ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب سب کچھ اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا اور اپنی مرضی کے خلاف بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر قوم کو کسی نہ کسی مرحلے پر ایسا بہت کچھ کرنا پڑا جو اُس کی مرضی کے مطابق نہ تھا۔ ایسے لمحات میں چھوٹی بُرائی کو بڑی بُرائی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کسی کام کرنے سے نقصان کا حجم بڑھتا ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی متبادل اپناکر نقصان کا حجم گھٹایا جائے۔
یورپ کے معاملات عجب طرح کی کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔ کم و بیش ساڑھے چار صدیوں تک متعدد ممالک اور خطوں پر راج کرنے کے بعد اب یورپی طاقتیں اُس مقام پر پہنچ گئی ہیں جہاں اُنہیں مستقبل کے طویل سفر کی سمت کا تعین کرنا ہے۔ امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے سب کے سامنے ہے۔ اُس کی طاقت اور کمزوریاں ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ بہت سے معاملات میں یوں ٹانگ اڑائے ہوئے ہے کہ خود اُس کے آنگن میں خرابیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ اس کے باوجود امریکا پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور چاہتا ہے کہ اُس کے اتحادی بھی ڈٹے رہیں۔ بعض معاملات میں امریکا تنہا آگے بڑھ جاتا ہے اور اتحادیوں کو ساتھ لینا تو دور‘ اُن سے مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔ یورپ چاہتا ہے کہ اب اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود اٹھائے۔ امریکا کے ساتھ مل کر اُس نے کم و بیش ایک صدی سے ایک دنیا کا ناطقہ بند رکھا ہے۔ سارے بند پوٹلے اب کھل رہے ہیں۔ یورپ کا راستہ بہت پہلے تبدیل ہوچکا ہے۔ یورپ کے قائدین نے بہت پہلے محسوس کرلیا تھا کہ امریکا کا ساتھ دیتے رہنے کی روش اُنہیں بربادی کی طرف لے جائے گی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ یورپ بعض معاملات میں بری طرح پھنس کر‘ الجھ کر رہ گیا ہے۔ استعماری قوت کی حیثیت برقرار رکھنا تو اب یورپی ممالک کے بس میں رہا نہیں۔ یہ کام امریکا مختلف ڈھنگ سے بخوبی کر رہا ہے۔ یورپ نے نرم قوت یعنی فطری علوم و فنون اور معیشت و مالیات کے معاملات میں اپنے آپ کو غیر معمولی مہارت سے ہم کنار کرلیا ہے اور اُنہی کے بل پر آگے بڑھنے کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ یورپ اس کا ساتھ دیتا رہے۔ یورپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ امریکا کا اندھا دُھند ساتھ دیتے رہنے کی روش پر گامزن رہنے سے اُس کے لیے صرف الجھنیں پیدا ہوں گی۔ اس کیفیت نے یورپی قائدین کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال اور باقی خطوں میں بھی امریکا کی گھٹتی ہوئی طاقت نے یورپی قائدین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا واحد سپر پاور ضرور ہے مگر ہر معاملے میں اُس کی چلتی نہیں۔ ایسا اب ممکن بھی نہیں۔ دنیا کو چلانے کے نظام کا ڈھانچا بدل چکا ہے۔ کل تک امریکا اور یورپ مل کر باقی دنیا پر راج کر رہے تھے اور بادی النظر میں ایسا لگتا تھا کہ اب کوئی بھی طاقت ان دونوں خطوں کے مقابل کھڑی نہ ہوسکے گی۔ بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر خطوں نے امریکا اور یورپ کی طاقت کے سامنے خود کو کمزور تسلیم کرلیا تھا۔ یہ سب تیس‘ پینتیس سال پہلے کا معاملہ ہے۔ اب تین ساڑھے تین عشروں میں سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ چین، روس، ترکی اور برازیل جیسے ممالک ابھر کر سامنے ہی نہیں آئے بلکہ امریکا کی بالا دستی کے لیے خطرہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ بھارت بھی اوپر اٹھنے کی کوششوں میں مصروف ہے مگر اُس کی ذہنی غلامی ختم نہیں ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ مغرب نے بھارت کو دشمن کی حیثیت سے دیکھنا اب تک شروع نہیں کیا۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں یورپ کو اپنے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہوتی محسوس ہو رہی ہیں۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اب تک امریکا کی وساطت سے اپنے دفاع کا معاملہ طے کرتا آیا ہے۔ امریکا نے یورپ کو ہر طرح کے حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے اور اِس کے بدلے میں وہ چاہتا ہے کہ یورپ کے ممالک ہر معاملے میں بلا چون و چرا اُس کا ساتھ دیں۔ بعض معاملات میں شدید اختلافات کے باوجود یورپ کو امریکا کی طرف جھکنا پڑتا ہے مگر متعدد سیاسی اور سفارتی مناقشوں میں شدید اختلافات کے باوجود یورپ نے امریکا کا ساتھ دے کر اپنے لیے اضافی مشکلات پیدا کی ہیں۔ اب یورپ میں یہ تصور ابھر رہا ہے کہ اپنے دفاع کی ذمہ داری خود سنبھالی جائے۔ جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری میں فرانس، جرمنی اور برطانیہ کسی سے کم نہیں۔ امریکا میں جدید ترین ٹیکنالوجی پر بہت کام ہو رہا ہے مگر یورپ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ فرانس اس معاملے میں سرخیل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ اپنے مفادات پر پڑنے والی ہر ضرب کے بدلے میں امریکا سے وصولی چاہتا ہے۔ آسٹریلیا نے فرانس سے 60 ارب ڈالر کے عوض ڈیزل اور بجلی سے چلنے والی 12 آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکا نے یہ سودا منسوخ کرادیا اور ایشیا و بحر الکاہل (اوشنیا) کے خطے میں اپنی بالا دستی یقینی بنانے کی خاطر برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایک اتحاد قائم کیا ہے جسے AUKUS کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ چین کو ڈرانے کے لیے تو ہے ہی‘ آسٹریلیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کا ہتھکنڈا بھی ہے۔
امریکا نے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر بھی چین کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے جسے QUAD کا نام دیا گیا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ چین اپنے خطے تک محدود رہے اور خطے میں بھی کسی ملک کو حقیقی معنوں میں اپنا بنانے میں کامیاب نہ ہو۔ بھارت اور جاپان جیسے بڑے اور طاقتور ممالک کو اپنی مٹھی میں کرکے امریکا چاہتا ہے کہ یہ پورا خطہ اُس کی مٹھی میں رہے۔ اس کے نتیجے میں اگر ایک خطے یا پوری دنیا کا استحکام بھی داؤ پر لگتا ہے تو لگتا رہے۔ امریکی پالیسی میکرز کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش میں کس پر کیا گزرتی سکتی ہے یا گزر رہی ہے۔ اُنہیں تو صرف امریکا کی بالا دستی عزیز ہے۔ یورپ کے لیے اپنے دفاع کی کوئی مشترکہ فوج کھڑی کرنا ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک نے کئی ممالک اور خطوں پر راج کیا ہے۔ اُن گزرے ہوئے زمانوں کی تلخ یادیں آسانی سے جان نہیں چھوڑیں گی۔ جن ممالک کو یورپی قائدین اپنا بنانا چاہتے ہیں اُن کے لوگوں میں یورپی طاقتوں کے حوالے سے شدید نوعیت کی بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ بدگمانیاں دور کیے بغیر کچھ بھی نہ ہوسکے گا۔ یورپ کی مجموعی معاشی قوت امریکی معاشی قوت کے مقابلے میں کم ہے۔ استعماری ماضی بھی جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ متعدد اقوام یورپ کی سابق استعماری قوتوں سے خار کھاتی ہیں۔ موقع ملنے پر وہ حساب چکتا کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ ایسے میں یورپی قائدین کے لیے کوئی بیچ کا راستا نکالنا انتہائی دشوار کام ہے۔ انہیں بہت سے معاملات کو ذہن نشین رکھنا ہے۔ امریکا مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یورپ تنِ تنہا آگے بڑھنے کی سوچ سے باز آجائے۔ امریکا تو اِس بات کے لیے بھی تیار نہیں کہ یورپ اپنے طور پر کسی بھی خطے سے تعلقات بہتر بنائے۔ جب بھی ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے تب امریکی پالیسی میکرز نئی حکمتِ عملی کے تحت کام بگاڑنے لگتے ہیں۔
یورپ کو سب سے زیادہ دفاع کی فکر لاحق ہے۔ امریکا کا ساتھ دیتے رہنے سے اُس نے خاصی بڑی تعداد میں دشمن پیدا کیے ہیں۔ اب وہ تنہا چلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا اور امریکا کا ساتھ دیتے رہنے کی صورت میں خرابیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ یہ ہے وہ مخمصہ جس میں یورپ پھنسا ہوا ہے۔ امریکا کا ساتھ دیتے رہنے کی صورت میں یورپ جس جال میں پھنس چکا ہے اُس سے نکلنے کے لیے اسے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ حقیقت پسندی ہے۔ امریکا اپنے مفادات کے لیے یورپ کے مفادات کو قربان کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ یورپی یونین کو بھی مسلم دنیا اور افریقی ممالک کی طرف دوستی اور مفاہمت کا ہاتھ بڑھاکر اپنا مستقبل محفوظ بنانے کا سفر شروع کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں