"MIK" (space) message & send to 7575

درندگی کا چنگل

اخلاقی و روحانی پستی کے اس دور میں جو دن خیریت سے گزرے اُسے غنیمت جانیے۔ جوکچھ کبھی خواب و خیال کا بھی حصہ نہ تھا وہ ہو رہا ہے اور اِس سے زیادہ دُکھ کی بات بلکہ المیہ یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی گر جائے‘ شرم محسوس کرتا ہے نہ ضمیر کی خلش۔ دنیا بھر کے پس ماندہ معاشرے انتہائی نوعیت کی خرابیوں سے اَٹے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے معاشرے بھی بہت سی خرابیوں کے چُنگل میں یوں پھنسے ہوئے ہیں کہ اب اُن سے نکلنا آسان نہیں رہا۔ بعض معاملات میں اپنی اصلاح یقینی بنانے میں ایک عمر لگتی ہے۔ ویسے تو خیر پورے خطے کا حال برا ہے‘ ہمارے ہاں بھی معاملات بگڑے ہوئے ہیں‘ بنگلہ دیش میں بھی کوئی مثالی معاشرہ یقینی نہیں بنایا جاسکا‘ نیپال بھی شدید افلاس اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خامیوں، خرابیوں اور کوتاہیوں کے چنگل میں ہے‘ افغانستان کا حال بھی سب کے سامنے ہے مگر بعض معاملات میں بھارتی معاشرہ انتہائی نوعیت کی پستی کا شکار ہے۔ چند ایک معاملات میں ریاستی عمل داری نمایاں ہے اور دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے جیسے وہاں بہت کچھ درست کیا جاچکا ہے‘ حالانکہ یہ محض فریبِ نظر ہے۔ ریاستی عمل داری چند ایک معاملات میں ہے اور وہ بھی ایک خاص حد تک! بھارتی معاشرہ آج بھی ذات پات کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں شدید نوعیت کا افلاس پایا جاتا ہے۔ افلاس کی چکی میں پسنے والے عوام کی زندگی میں وہ تمام خرابیاں پائی جاتی ہیں جو بالعموم کسی بھی پسماندہ معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ بھارت میں اخلاقی پستی اور روحانی تنزل کا معاملہ ہلاکت خیز حد تک پہنچ چکا ہے۔ غریب ریاستوں میں یہ سب کچھ اتنا زیادہ ہے کہ سوچنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل رکھنے والوں کی حالت عجیب ہے۔یہ سب دیکھ دیکھ کر کڑھنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ بھارت میں چند ایک معاملات انتہائی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہیں۔ ذات پات کا نظام کروڑوں افراد سے زیادتی روا رکھنے کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ یہی حال نسلی اور مذہبی بنیاد پر تعصب کا ہے۔ بھارتی معاشرے کی مجموعی حالت اب ایک اور معاملے میں انتہائی نوعیت کی کیفیت کو تیزی سے پروان چڑھارہی ہے۔ انتہائی بے پردگی اور بے حیائی نے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے جسم میں یوں پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ فی الحال نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
حال ہی میں بھارت کی مغربی ریاست راجستھان کے ضلع الور میں بہروڑ کے مقام پر ایک انتہائی شرم ناک کیس سامنے آیا ہے۔ اس کیس نے ایک طرف مجموعی طور پر پورے بھارتی معاشرے کو دہلا دیا ہے اور دوسری طرف اساتذہ برادری کا سر بھی شرم سے جھکادیاہے۔ سرکاری سکول میں دسویں جماعت کی طالبہ سے ایک سال تک پرنسپل اور دو ٹیچرز کی زیادتی کا کیس سامنے آیا ہے۔ اضافی بے حیائی اور بے غیرتی یہ ہے کہ زیادتی کے ان واقعات کی وڈیوز تیار کرنے میں دو خواتین اساتذہ ملوث پائی گئی ہیں! زیادتی کے معاملے میں راجستھان کا ریکارڈ انتہائی شرم ناک ہے۔ ریاست سے شائع ہونے والے ہندی روزنامے ''بھاسکر‘‘ نے ''میں لڑکی ہوں، لڑسکتی ہوں مگر گرو جی ہی حملہ کریں تو؟‘‘ کے زیر عنوان ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں راجستھان کے 13 سرکاری سکولوں میں کم سن طالبات سے زیادتی کے کیسزسامنے آئے ہیں اور اِن تمام کیسز میں اساتذہ ملوث پائے گئے۔ دو ماہ میں 6 کیس سامنے آئے۔ تفتیش کے لیے متعدد اساتذہ کو معطل کرکے گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اب تک صرف جے پور کے ایک ٹیچر کو پانچویں جماعت کی بچی سے زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
بھارت میں خواتین کے لیے دارالحکومت دہلی سمیت بڑے شہر اور چند ریاستیں انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہیں مگر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور ماہرین کی آرا کی روشنی میں راجستھان کے بارے میں یہ تاثر عام ہوچلا ہے کہ بچیاں، لڑکیاں گھر، بازار، ہسپتال، سکول کہیں بھی محفوظ نہیں۔ راجستھان میں بچیوں سے زیادتی کے 7 ہزار سے زائد کیسز عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ اِن میں سے 655 کیس ریاستی دارالحکومت جے پور کی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ بچیوں سے زیادتی کے معاملات میں راجستھان پہلے نمبر پر ہے جہاں رواں سال 5877 کیس سامنے آئے ہیں جو گزشتہ برس کے کیسز سے 979 زیادہ ہیں۔ گویا اوسطاً ہر روز 15 کیس سامنے آرہے ہیں۔ جان چھڑانے کی نیت سے پولیس کہتی ہے کہ 35.7 فیصد کیس جھوٹے ہیں۔ 5310 معاملات میں سے صرف 264 میں ملزمان نامعلوم ہیں۔ 95 فیصد کیسز میں ملزمان جان پہچان والے اور 52 فیصد کیسز میں پڑوسی ملوث نکلے۔ ایسے کیس 721 ہیں جن میں گھر یا خاندان ہی کا کوئی فرد ملوث پایا گیا۔ دوستی یا شادی کا جھانسا دے کر کی جانے والی زیادتی کے کیسز 1531 ہیں اور ایسے کیسز کی تعداد 2794 ہے جن میں اڑوس پڑوس ہی کا کوئی فرد ملوث پایا گیا۔ ایسے کیسز بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں جن میں 6 سال سے کم عمر کی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ 6 سال یاکم عمر کے زیادتی کے 21 کیس سامنے آئے ہیں۔ 6 سے 12 سال تک 64، 12 سے 16 سال تک 374، 16 سے 18 سال تک 820، 18 سے 45 سال تک کی خواتین سے زیادتی کے 3833 اور 45 سے 60 سال تک زیادتی کے 225 کیس سامنے آئے ہیں۔
بھارتی قیادت کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اندرونِ ملک معاملات درست کیے بغیر بیرونی سطح پر بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کام دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ بھارتی معاشرے کو آج تک ذات پات کے بندھن، افلاس اور اخلاقی پستی کے چُنگل سے نہیں نکالا جاسکا۔ ابلاغ کے شعبے میں بے مثال پیشرفت نے لوگوں کو بہت آسانیاں دی ہیں تو کہیں دشواریوں سے بھی دوچار کیا ہے۔ مزاج اور کردار کی پیچیدگی بڑھ گئی ہے۔ بھارت کی ریاستی مشینری چند ایک معاملات میں سختی برتتی ہے اور معاملات کو کسی حد تک قابو میں رکھتی ہے مگر اخلاقی گراوٹ روکنے میں وہ ناکام رہی ہے۔ ملک کی بہت سی ریاستوں میں مے نوشی اور جنسی بے راہ روی عام ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ متعدد ریاستوں میں ذات پات کی تفریق کی بنیاد پر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والوں سے زیادتی کے واقعات تواتر سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ چند ایک خوش حال ریاستوں کے سوا‘ پورے بھارت میں اخلاقی زوال کا گراف شرم ناک حد تک بلند ہوچکا ہے۔ بڑے شہروں میں آبادی کا دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں زیادتی کے واقعات کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ درمیانے اور چھوٹے حجم کے شہروں میں بھی صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔ دیہی علاقوں کا معاملہ اِس سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ وہاں ذات پات کی بنیاد پر تفریق بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ صوبائی اور ضلعی سطح پر انتظامی مشینری بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا ساتھ دیتی ہے۔ انتہا پسندوں کی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے انصاف کا حصول مزید دشوار ہوگیا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی طرح نچلی ذات کے ہندو بھی اعلیٰ ذات کے انتہا پسند ہندوؤں کے ستائے ہوئے ہیں۔
جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ ہمارے لیے ویک اَپ کال ہے۔ ہمیں اپنے ہاں اخلاقی زوال کی راہ مسدود کرنے کے لیے بھرپور تیاریاں کرنا ہوں گی۔ سوشل میڈیا سے ہمارے ہاں بھی بگاڑ بڑھ چکا ہے۔ یہ سلو پوائزن کی طرح ہے۔ ہمیں اِس کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے ابھی سے کچھ کرنا ہوگا۔ بچے کھچے خاندانی نظام کو مضبوط بناکر نئی نسل کی بہتر تربیت کے ذریعے اخلاقی زوال کو انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں