"MIK" (space) message & send to 7575

مہا ماری اور مارا ماری

دنیا کو الجھانے والے معاملات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری سر اٹھانے لگتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے معاملات اور معمولات میں یوں شامل و داخل ہو جاتی ہے کہ دیکھ دیکھ کر صرف الجھن محسوس کی جاسکتی ہے، کیا کچھ بھی نہیں جاسکتا۔ کورونا کی وبا کو دو سال ہوچکے ہیں۔ دو برس کی اس مدت کے دوران دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ بہت سے معاملات اِس بُری طرح رُلے ہوئے ہیں کہ بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ دنیا پہلے ہی کیا کم الجھی ہوئی تھی کہ یہ کورونا کی وبا بھی نازل ہو گئی۔ سوال دو‘ چار دن یا دو تین ہفتوں کا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔ کورونا کی وبا نے تو ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو اِس کے شدید منفی اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا بھر میں مختلف وائرس نمودار ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی زد میں آنے والوں کے لیے غیر معمولی نوعیت کی پریشانیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہم بہت سی چیزوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ کسی کی نظر میں یہ رجحانات کا دور ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ مختلف فیشنز کے دور میں جینے کا موقع ملا ہے۔ کسی کا گمان ہے کہ ہم سیاسی نظریات کے تصادم کے دور میں جی رہے ہیں۔ کوئی بھی غلط نہیں سوچ رہا! اب ہر معاملہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ جیسی جسے لگتی ہے‘ یہ دنیا ویسی ہی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ہم دوسرے بہت سے معاملات کی طرح عوارض کے دور میں بھی جی رہے ہیں۔ جسم اور ذہن دونوں کی پیچیدگیاں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں۔ انسان چاہے جتنی بھی کوشش کر دیکھے، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ہر اعتبار سے پُرسکون اور دولتِ صحت سے مالا مال زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہو۔ آج ہر انسان کے نصیب میں بہت سی بیماریاں اور الجھنیں لکھی ہوئی ہیں۔ بہت سی نئی بیماریوں کے ساتھ ساتھ بعض پُرانے امراض بھی شکل یا بھیس بدل کر دوبارہ ہماری طرف آئے ہیں۔ آج کی زبان میں کہیں تو پُرانی بیماریوں کے نئے ویری اینٹ سامنے آ رہے ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر پھیلنے والی وبا کے لیے برصغیر میں کئی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہندی والے اِسے ''مہا ماری‘‘ کہتے ہیں۔ مہا ماری یعنی وبا سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں۔ بالکل درست مگر معاملہ بڑے پیمانے کی ہلاکتوں تک محدود نہیں۔ ایک طرف تو صحتِ عامہ داؤ پر لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف معیشت و معاشرتِ عامہ بھی خطرے سے دوچار ہیں۔ بعض معاملات میں تو اخلاقی و تہذیبی اقدار بھی داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ انسان سمجھ نہیں پارہا کہ وقت اُسے کس موڑ پر لے آیا ہے جہاں کچھ بھی جانا پہچانا نہیں لگ رہا۔
کورونا کی وبا یعنی مہا ماری نے دنیا بھر میں ''مارا ماری‘‘ والی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ عالمی وبا کے ابتدائی دنوں میں یہ گمان بہت سے ذہنوں میں پیدا ہوا تھا کہ دنیا کو بدلا جارہا ہے۔ بڑی طاقتوں نے کچھ طے کیا ہے اور کسی نہ کسی طور اپنی مرضی کی دنیا پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ یہ گمان مکمل طور پر غلط یا بے بنیاد بھی نہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ کورونا کی وبا نے بڑی طاقتوں اور ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی الجھنیں پیدا کی ہیں مگر اس حقیقت سے بھی کون انکار کرسکتا ہے کہ پس ماندہ ممالک تو بالکل غلاموں کی سطح پر جینے کے موڑ پر آگئے ہیں۔ کم و بیش پانچ عشروں سے کسی نہ کسی طور جینے کی کوشش کرنے والے پسماندہ ممالک میں لوگوں کے لیے اب زندہ رہنا بھی ایک بڑے مشن کا درجہ رکھتا ہے!
کورونا کی وبا نے متعدد پس ماندہ ممالک میں معاملات اِتنے خراب کردیے ہیں کہ خانہ جنگی کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ جن ممالک نے عشروں کی محنت کے بعد کسی نہ کسی طور ڈھنگ سے جینے کی تھوڑی بہت گنجائش پیدا کی تھی وہ اب پریشان ہیں کہ اپنی بقا کس طور یقینی بنائیں۔ کوئی ایک ملک نہیں ہے کہ اُسے رو لیا جائے۔ یہاں تو لائن لگی ہوئی ہے۔ افریقی اقوام انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کی بہت سی ریاستیں بھی شدید معاشی اور معاشرتی الجھنوں سے دوچار ہیں۔ برصغیر میں بھی حالات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت جیسے بڑی آبادی والے ممالک بھی کورونا کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کی صورتِ حال کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ کورونا کی مہا ماری نے معیشتوں کا بھٹّہ بٹھاکر اب بہت بڑے پیمانے پر مارا ماری کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں معاشی خرابیوں نے معاملات کو اِتنا اُلجھادیا ہے کہ عشروں کی محنت کے ذریعے جس بیروزگاری پر قابو پایا گیا تھا‘ وہ اب پھر بے لگام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ رہی سہی کسر افراطِ زر نے پوری کردی ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں افلاس ایک بار پھر ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اِتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ کورونا کے نئے ویری اینٹس کی آمد جاری رہنے کی صورت میں ایسے کئی ممالک کے لیے معاشرتی اور اخلاقی صورتِ حال بھی انتہائی پریشان کن ہو جائے گی۔
کورونا کی وبا کے پسِ پردہ کوئی نظریۂ سازش ہے یا نہیں‘ یہ ایک الگ بحث ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی دشوار سے دشوار تر ہوئی جاتی ہے اور اِس میں ایک بڑا کردار اب کورونا کی وبا کا ہے۔ ڈیڑھ‘ دو عشروں کے دوران پیدا ہونے والی خرابیاں ایک طرف رہ گئی ہیں۔ کورونا کی وبا نے سب کی ملی جلی کسر پوری کردی ہے۔ بڑی آبادی والے متعدد پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک راتوں رات ایسی بدحالی سے دوچار ہوئے کہ اب اُنہیں اپنے معاملات درست کرنے میں دو تین عشرے لگ سکتے ہیں۔ معیشتوں کا پورا ڈھانچا کچھ کا کچھ ہوگیا۔ جن ممالک نے ترقی یافتہ دنیا کو منہ دینے کی اچھی خاصی تیاری کرلی تھی اُنہیں کورونا کی وبا کے ہاتھوں پیچھے ہٹنا پڑا۔ چین نے بڑی آبادی کے باوجود اپنے معاملات کو بہت حد تک درست رکھنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک الجھن کا شکار ہیں۔ افریقہ کی بڑی ریاستیں بھی معاشی اور معاشرتی اعتبار سے بہت الجھی ہوئی ہیں۔ افریقی ریاستیں بیرونی ریاستوں سے مسابقت کے قابل تو پہلے بھی نہ تھیں‘ اب معاملات مزید خرابی کی طرف چلے گئے ہیں۔ چین نے افریقی ریاستوں میں قدرتی وسائل کے شعبے میں خطیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ ترقی یافتہ مغربی ممالک اس حوالے سے بھی پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آرہے۔ امریکا اور یورپ مل کر ایسی فضا تیار کر رہے ہیں جس میں کورونا کی وبا کے بعد بھی بہت سے ممالک کے لیے مشکلات کم نہ ہوں گی۔
پاکستان جیسے ممالک میں بھی کورونا کی وبا کے ہاتھوں بیروزگاری خطرناک حد تک بڑھی ہے اور افلاس کی سطح بھی بلند ہوئی ہے۔ مہنگائی بے لگام ہوئی جاتی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کسی بھی معاملے پر حکومت کا کچھ اختیار رہا ہی نہیں۔ اس پورے معاملے کو پوری توجہ کے ساتھ دیکھنے اور درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لاپروائی ترک نہ کی گئی تو ہمارے ہاں بھی نوبت انتہائی نوعیت کی بے روزگاری، افلاس اور مہنگائی کے ہاتھوں شدید معاشرتی بگاڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
آفت یا وبا کوئی بھی ہو‘ اس کا بہترین حاصل یہ ہے کہ اُس سے کچھ نہ کچھ سیکھا جائے اور معاملات کو درست کرنے پر توجہ دی جائے۔ ہمارے ہاں اب تک اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ دو برس کے دوران مہنگائی کا معاملہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ اشیائے خور و نوش سمیت تمام روزمرہ ضرورت کی تمام اشیا کی قیمتیں یوں بڑھی ہیں کہ محدود آمدن والے غریب تو صرف دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ حکومت کا کسی بھی معاملے پر کوئی کنٹرول دکھائی نہیں دیتا۔ زرِ اعانت کے نام پر عوام کو جو کچھ دیا جانا چاہیے تھا وہ بھی نہیں دیا گیا۔ گزشتہ برس حکومت نے انتہائی غریب عوام کے لیے امدادی پیکیج دیا بھی تو اُس کا زیادہ فائدہ اُن لوگوں نے اٹھالیا جنہیں اِس کی کچھ خاص ضرورت نہ تھی۔ اسلام آباد کے بزرجمہر مہا ماری کو مارا ماری کی طرف لے جانے سے روکنے کا بندوبست کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں