یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ آج کی نئی نسل بہت تیزی سے نظم و ضبط کے شدید فقدان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ اب محض تشویش تک نہیں رہا بلکہ حقیقی بحران میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج کی نئی نسل نظم و ضبط کے شدید فقدان سے دوچار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج کی نئی نسل کو ٹھیک سے یہ بھی نہیں معلوم کہ نظم و ضبط کس چڑیا کا نام ہے اور اِس کی مدد سے زندگی میں کس حد تک توازن پیدا ہوتا ہے، کیسے خوش حالی اور استحکامِ قلب و ذہن کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ نئی نسل میں نظم و ضبط کا نہ پایا جانا محض آج کی الجھن نہیں بلکہ مستقبل کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔ بے ہنگم طریق سے زندگی بسر کرنے کی صورت میں نئی نسل ایک طرف تو اخلاقی اقدار سے محروم ہوتی جاتی ہے اور دوسری طرف وہ بلند کردار کی اہمیت کے احساس سے بھی دور رہتی ہے۔ زندگی مل جُل کر گزاری جاتی ہے اور اِسی طور گزاری جانی چاہیے۔ جب زندگی میں نظم و ضبط نہ ہو تو انسان اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا اور دوسروں کے لیے بھی صرف الجھنیں پیدا کرتا ہے۔
ابھرتی ہوئی عمر زندگی کا بہت عجیب موڑ ہوا کرتی ہے۔ جب بچہ لڑکپن کی حدود سے گزرتا ہوا عنفوانِ شباب کی منزل تک پہنچتا ہے تو اُس کے جسم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور جذبات و احساسات کی دنیا میں بھی ہلچل مچتی ہے۔ ذہن تھوڑا سا پختہ ہوچکتا ہے تو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ تب نئی نسل کو غیر معمولی نوعیت کی راہ نمائی درکار ہوتی ہے۔ اگر اس اہم موڑ پر موزوں رہنمائی میسر نہ ہو تو نئی نسل تیزی سے بے راہ رَوی کی طرف بھی بڑھ سکتی ہے۔ آج ہمیں اپنے اطراف نئی نسل میں جو بگاڑ دکھائی دے رہا ہے اُس کا ایک انتہائی بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وقت کے اس اہم موڑ پر اُنہیں موزوں راہ نمائی میسر نہیں۔ چڑھتی عمر میں انسان کے دل و دماغ میں بہت کچھ چل رہا ہوتا ہے۔ جذبات میں شدت ہوتی ہے اور عقل عجیب مراحل سے گزرتی ہوئی پختگی کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر معاملات کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
نئی نسل عمر کے جس موڑ پر کھڑی ہے وہ موڑ اُسے بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ وہ اعلیٰ کردار کی حامل بھی ہوسکتی ہے اور بے راہ رَوی کی سمت بھی بڑھ سکتی ہے۔ نئی نسل اب کس طرف جائے گی اِس کا تعین بہت حد تک ہمیں کرنا ہے۔ والدین کے علاوہ گھر اور خاندان کے بزرگوں کا فرض ہے کہ اُسے راہ دکھائیں۔ راہ دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل کو بتایا جائے کہ اُس کے لیے کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ علاوہ ازیں انہیں یہ بتانا بھی ناگزیر ہے کہ معیاری زندگی یقینی بنانے کے لیے مستقبل پر نظر رکھنا لازم ہے۔ زندگی کا معاشی پہلو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ معاشرتی معاملات بھی توجہ چاہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ معاش کے لیے معاشرت کو بھول جاتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے اور معاشرت میں گم ہوکر معاشی جدوجہد کو ایک طرف ڈال دینا بھی غلط ہے۔ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے معاش اور معاشرت کے درمیان توازن برقرار رکھا ہے۔ بچپن کے رخصت ہوتے ہی ذہن پختہ نہیں ہو جاتا بلکہ ماحول کی توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسم بڑا ہو جاتا ہے مگر ذہن وہی رہتا ہے۔ بعض اوقات پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر تک بچپنا نہیں جاتا۔ یہ بہت حد تک مزاج کا معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کی ضرورتوں کو سمجھنا والدین اور دیگر متعلقین کا کام ہے۔ ضروری نہیں کہ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی انسان سب کچھ سمجھنے لگے اور وہ تمام کردار ادا کرنے لگے جن کی اُس سے توقع کی جاتی ہے۔ بچپن کے رخصت ہوتے ہی سمجھ داری آنے لگتی ہے۔ ایسے میں نئی نسل پر توقعات کا بہت زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اُنہیں ماحول کو سمجھنے اور اپنا کردار متعین کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
آج کی نئی نسل بہت الجھی ہوئی لگتی ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت عمر کے کس حصے کے لوگ الجھے ہوئے نہیں۔ ہر ایج گروپ سے تعلق رکھنے والے آج بہت الجھے ہوئے ہیں۔ ماحول میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ انسان کو کچھ کا کچھ بنانے کے لیے کافی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ممکن بنائی جانے والی فقید المثال پیش رفت نے انسان کو بہت سے معاملات میں حالات کے دھارے پر بہنے پر مجبور کردیا ہے۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا کا معاملہ ہی لیجیے۔ ابلاغ کے اِن ذرائع سے بہت کچھ انسان کی زندگی میں آتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ محض پڑا نہیں رہتا بلکہ فکر و نظر میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت حد تک فطری ہے اس لیے اِس کے آگے بند باندھ کر راستا نہیں روکا جاسکتا۔ ہاں! معاملات کو درست رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ بچپن کی ڈانٹ ڈپٹ حافظے میں زیادہ دیر نہیں رہتی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کو ڈانٹنا ڈپٹنا بہت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اِس سے اُن کی ذہنی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ عمر کے اس موڑ پر وہ کچھ اچھی تو کچھ بُری باتیں سیکھتے ہیں۔ اس عمر میں جو عادت پڑ جائے وہ دیرپا ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں اُنہیں معیاری راہ نمائی درکار ہوتی ہے۔ تھوڑی سی ڈھیل برتنے پر بھی اُن میں شدید ذہنی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یوں نظم و ضبط کے فقدان کی راہ ہموار ہوتی ہے اور نئی نسل تیزی سے خرابی کی طرف بڑھتی ہے۔
لڑکپن سے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کا زمانہ نئی نسل کے لیے بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اس مدت کے دوران ہی اُن کا ذہن بہت کچھ قبول اور جمع کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر علم کے حصول کی لگن پیدا ہو جائے تو نوجوان معیاری تعلیم کی منزلیں طے کرتے جاتے ہیں۔ علم کے حصول کی توانا لگن انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ نئی نسل کو یہ بات سکھانے کی خاص ضرورت ہے کہ کوئی بھی انسان دولت کے بغیر کچھ زیادہ کامیابی نہیں پاتا مگر بعض اوقات دولت کے ہوتے ہوئے بھی انسان ناکامی سے دوچار رہتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب تعلیم و تربیت کا مرحلہ خام رہ گیا ہو اور نظم و ضبط کی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ نظم و ضبط کو مزاج کا حصہ نہ بنانے والے نوجوان کریئر اور نجی زندگی دونوں ہی معاملات میں شدید الجھنوں کے شکار رہتے ہیں۔ اگر اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم کے دوران نئی نسل کو اخلاقی حوالے سے بھی کچھ سکھایا جاتا رہے تو وہ اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات کے ذریعے بچوں میں ہمدردی، خلوص، سادگی اور دیگر اوصاف پیدا کرنے اور پروان چڑھانے سے کامیاب زندگی کی بنیاد پڑتی ہے۔ جنہیں چھوٹی اور ابھرتی ہوئی عمر میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حوالے سے بہت کچھ بتایا گیا ہو وہ عملی زندگی میں بلند اوصاف کے حامل نظر آتے ہیں۔ مل کر کام کرنے کی عادت عنفوانِ شباب ہی میں پیدا کی جانی چاہیے۔ نئی نسل کو قدم قدم پر یاد دلایا جاتا رہے کہ زندگی اگر کچھ بن پاتی ہے تو صرف نظم و ضبط سے۔ جن میں نظم و ضبط نہیں ہوتا وہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے۔ اگر نئی نسل کی راہ نمائی نہ کی جائے تو اُس کے بہک جانے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگ کسی بھی مرحلے پر مطمئن ہوکر نہ بیٹھیں بلکہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
معاشرے کا گہرا مشاہدہ اور عمیق جائزہ بتاتا ہے کہ کامیاب وہی ہو پاتے ہیں جو نظم و ضبط کے دائرے میں رہتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ بے ہنگم زندگی بسر کرنے والوں کو غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجود کامیابی سے محروم دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر وہ تھوڑی بہت کامیابی حاصل کر بھی لیتے ہیں تو وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو اٹھتی عمر کے ہر مرحلے پر بار بار بتایا اور سمجھایا جائے کہ زندگی ترتیب کا نام ہے۔ نظم و ضبط کی عادت پختہ ہونے کی صورت میں کچھ مل سکے گا۔