ہر منفی معاملے کے بطن میں کچھ نہ کچھ مثبت بھی ہوتا ہے اور ہر مثبت معاملہ کچھ نہ کچھ منفی بھی لے کر وارد ہوتا ہے۔ ہر دور کی ٹیکنالوجی کا یہی معاملہ رہا ہے۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی اگر چند آسانیاں پیدا کرتی ہے تو چند مشکلات کو بھی جنم دیتی ہے۔ وہ زمانے ہوا ہوئے جب منظر نامہ عشروں بلکہ صدیوں تک تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ اب تو معاملات راتوں رات بدلتے ہیں اور وہ بھی کچھ اِس انداز سے کہ انسان دیکھتا اور سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے عہد میں جی رہے ہیں۔ ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ اب کچھ بھی ایسا نہیں جو تادیر جدید رہ سکے۔ بعض معاملات میں تو جدت محض چند دنوں کی مہمان ہوتی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے ہی کو لیجیے‘ دن رات تحقیق کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں نئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہیں۔ سیل فون کی تیاری میں ٹیکنالوجی سے اس قدر کام لیا جارہا ہے کہ سبھی کچھ راتوں رات بدل جاتا ہے اور ہم صرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
ہر ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کچھ سائیڈ ایفیکٹس یعنی مابعد یا ضمنی اثرات بھی لاتی ہے۔ آئی ٹی کے حوالے سے یہی ہو رہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو راتوں رات تبدیل ہو رہا ہے۔ ہم ابھی کسی نئی چیز سے مستفید ہو ہی رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نیا آ جاتا ہے۔ ماہرین دن رات اس امر پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی بالخصوص آئی ٹی سے متعلق ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ہم پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور مرتب ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ٹیکنالوجی میں گھرے ہونے کے باعث بہت سے معاملات میں غیر محسوس طور پر بہت کچھ وصول اور قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ جب احساس ہی نہیں ہو رہا ہوتا تو پھر معاملات کو بہتر بنانے کے حوالے سے کچھ بھی کیسے کیا جاسکتا ہے؟
دن رات ٹیکنالوجی میں گھری ہوئی نئی نسل بہت کچھ وصول اور قبول کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو فکری ساخت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ نئی نسل اس معاملے میں بہت الجھی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے اُسے روکا نہیں جاسکتا۔ ہاں! اپنے آپ کو کسی بھی معاملے میں منفی اثرات سے بچانے کے حوالے سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ بھی اب تک اچھی طرح معلوم نہیں۔ وہ نئی ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے معاملے میں غیر معمولی حد تک جذباتی ہے۔ یہ جذباتیت اُسے بہت سے ایسے خیالات کے پنجرے میں بند کرتی جارہی ہے جو کسی بھی اعتبار سے اُس کے لیے سُود مند نہیں۔ والدین، گھر کے دیگر بزرگ اور اساتذہ چاہے جتنی کوشش کرلیں، جدید ٹیکنالوجی سے نئی نسل کو دور رکھنا ممکن نہیں۔ یہ بھی وقت کا تقاضا ہے۔ جن میں کچھ کرنے کا جذبہ اور لگن ہو وہ ہر نئی چیز کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ نئی نسل اگر مختلف ٹیکنالوجی میں گھری ہوئی ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہاں! اِس ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش نہ کرنا پریشانی کا باعث ہے۔ نئی نسل کو تو اِس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ غیر محسوس طور پر کس گڑھے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آج کے بہت سے نوجوانوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے نام پر وہ اپنے آپ کو بہت حد تک محدود اور محصور کرتے جارہے ہیں۔
نئی نسل پر ٹیکنالوجی جو منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں اُن میں نمایاں ترین ہے تنہائی کے لیے پسندیدگی۔ نئی نسل ورچوئل ماحول کی عادی ہوتی جارہی ہے۔ بہت کچھ ہے جو اس کا نہیں مگر پھر بھی اُس نے اپنالیا ہے۔ تنہائی ہی کو لیجیے۔ ورچوئل ماحول میں زندہ رہنے کی عادت نے نئی نسل کو حقیقی رابطوں سے بہت دور کردیا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں ذمہ داری سے بچنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ غیر حقیقی ماحول میں زندہ رہنے کی عادت انسان کو بہت سے معاملات میں کمزور اور بزدل بنادیتی ہے۔ آج کی نئی نسل کے ساتھ یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے نئی نسل کو بہت سی آسانیوں سے ہم کنار کردیا ہے۔ یہ آسانیاں چند ایک معاملات میں تو سہولت پیدا کر رہی ہیں مگر بیشتر معاملات میں الجھنوں کا باعث بھی ثابت ہو رہی ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نئی نسل کو اب گھر داری اورفیملی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ نئی ٹیکنالوجی اُسے ایک آسان زندگی کی طرف لے جاتی ہیں۔ آسانیوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی عادت نئی نسل کو تنہائی پسند بنارہی ہے۔ والدین کو بہت سے معاملات پر نظر رکھنا ہوتی ہے‘ اور اساتذہ کو بھی نئی نسل کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے مگر ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کوئی کہاں تک نگرانی کرے۔ معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں ٹیکنالوجی کی بھرمار ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ آسانیاں ہمارے لیے مشکلات پیدا کرتی جارہی ہیں۔
نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے شدید سائیڈ ایفیکٹس سے بچانا صرف اِس صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ اُس کی ذہنی یا فکری تربیت کی جائے۔ نئی ٹیکنالوجی بالخصوص آئی ٹی کے شعبے کی ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آج کے انسان کا ذہن ایسا بہت کچھ وصول اور قبول کرتا ہے جس کا اُسے احساس تک نہیں ہوتا اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اِس میں سے بہت کچھ اُس کے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ بازار میں دستیاب ہر چیز ہر انسان کے لیے نہیں ہوتی اور ہر چیز ہر مقصد کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ والدین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اولاد کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے ضمن میں اُنہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ آج کی ایجادات و اختراعات زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہیں نہ کہ اُسے برباد کرنے کے لیے۔ ہر انسان کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزر کر عملی زندگی شروع کرنا ہوتی ہے۔ عملی زندگی کا مطلب ہے اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنا اور کماحقہٗ کمانا۔ جب انسان اپنے سیکھے ہوئے کو بروئے کار لاتا ہے تب ڈھنگ سے کما پاتا ہے۔ مالی حیثیت اچھی ہو تو انسان اپنی فیملی بروقت شروع کرتا ہے۔ نئی نسل کو یہ بتانا بھی لازم ہے کہ ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے نشے میں ڈوب کر عملی اور خانگی زندگی کی ابتدا میں تاخیر بہت سی خرابیاں لاتی ہے۔ آج کی نئی نسل ذمہ داریاں قبول کرنے سے بھاگ رہی ہے۔ وہ دور کب کا جاچکا جب نوجوان عملی زندگی شروع کرنے کے بعد والدین اور دیگر اہلِ خانہ کے لیے کچھ کرنے کا سوچا کرتے تھے۔ اب ٹیکنالوجی کی بدولت زندگی اِتنی آسان اور پُرلطف ہوگئی ہے کہ نوجوان ذمہ داری قبول کرنے سے بھاگ رہے ہیں۔ جو حال لڑکوں کا ہے وہی لڑکیوں کا بھی ہے۔ وہ بھی اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانی چاہتی ہیں۔ گھر چلانے کے حوالے سے جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ سب کچھ کرنے سے بچنے کی منصوبہ بندی اُن کے مزاج کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ یہ خاموش اور سست رفتار زہر ہے جو نئی نسل کی فکری ساخت کی رگوں میں پھیل رہا ہے۔ اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ اگر توجہ نہ گئی تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔
نئی نسل کو پوری توجہ کے ساتھ یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر کام کا ایک موزوں وقت ہوتا ہے اور اُس کام کو بعد میں یا پہلے نہیں کیا جاسکتا۔ صرف اپنے یعنی ذاتی سکون کے لیے ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنا کسی بھی اعتبار سے مستحسن روش نہیں۔ نئی نسل قوم کے مستقبل کی معمار ہے۔ اُسے فطری علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت کا حامل ہونے کا موقع فراہم کرنا جتنا ضروری ہے اُتنا ہی ضروری ہے اُسے عملی اور گھریلو زندگی کے لیے تیار کرنا۔ اس معاملے میں کوتاہی کی گنجائش ہے نہ تاخیر کی۔ ٹیکنالوجی اپنے آپ میں غیر جانبدار ہوتی ہیں۔ اُس کے استعمال کی نوعیت اُنہیں نافع یا مُضِر بناتی ہے۔ نئی نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی زندگی کو آسان اور پُرلطف بنانے کے لیے ہوتی ہے‘ خود زندگی نہیں ہوتی۔ پوری کی پوری معاشرت کو محض حَظ اُٹھاتے رہنے کی عادت کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔