"MIK" (space) message & send to 7575

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

جمعرات کو رات گئے جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی کے مابین مذاکرات کامیاب رہے اور جماعتِ اسلامی نے سندھ اسمبلی کے سامنے 29 دن سے جاری دھرنا ختم کردیا۔ پی پی پی کا کہنا ہے کہ جماعتِ اسلامی کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں‘ بلدیاتی قانون میں ترامیم کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے‘ کراچی کے میئر کو بااختیار بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے‘ صوبائی فنانس کمیشن بھی قائم کیا جائے گا‘ کے ایم سی کو تعلیمی ادارے اور ہسپتال واپس ملیں گے‘ میئر اور ٹاؤن چیئرمین کو صوبائی فنانس کمیشن کا رکن بنانے پر رضامندی ظاہر کردی گئی ہے‘ بلدیہ کراچی کو ٹیکس میں حصہ بھی ملے گا۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کرنے اور جمعہ کو یومِ تشکر منانے کا اعلان کیا۔ اِس کے ساتھ ہی کراچی کی متعدد شاہراہوں پر دھرنوں کے حوالے سے دی جانے والی کال بھی واپس لے لی گئی۔ جماعتِ اسلامی اور پی پی پی کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا ہے۔ چند نکات پر مذاکرات البتہ جاری رہیں گے۔ جماعتِ اسلامی نے کراچی کے انتظامی اور منتخب ڈھانچے کو وسیع اور طاقتور بنانے کے حوالے سے جو جدوجہد کی ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ خاص الخاص نکتہ یہ ہے کہ یہ پوری جدوجہد کسی بھی درجے میں پارٹی کے مفاد کا معاملہ نہ تھا۔ کراچی کے انتظامی سیٹ اپ کو زیادہ اختیارات دلانا کسی بھی اعتبار سے محض جماعتِ اسلامی کا معاملہ تھا نہ ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں کون کامیاب ہوگا اور کون شہر کو سنبھالے گا یہ سب بہت دور کا معاملہ ہے۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ شہرِ قائد جس کے ہاتھ میں آئے گا وہ کچھ کر پائے گا یا نہیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کی بنیاد پر جماعتِ اسلامی نے جدوجہد کی اور کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔
کراچی کوئی عام شہر نہیں‘ یہ قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ پورے ملک سے لوگ یہاں کام کرنے آتے ہیں۔ ملک بھر سے سرمایہ کار بھی کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ بیسیوں مضبوط کاروباری خاندانوں نے یہاں اربوں روپے لگائے ہیں۔ اگر یہ شہر کمزور پڑتا ہے تو قومی معیشت کمزور پڑتی ہے۔ کراچی کی انتظامی مشینری میں پائی جانے والی خامیاں پورے ملک کو متاثر کرتی ہیں۔ شہرِ قائد کا سب سے بڑا یا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اِس سے کچھ نہ کچھ یافت کشید کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور دینے والے برائے نام ہیں۔ جو شہر ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کو زندہ رکھنے کا فریضہ انجام دیتا ہے اُسی پر واپس کچھ لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ کرپشن نے ہر شعبے کے سینے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ شہرِ قائد اور قومی معیشت کے مجموعی یعنی بہت بڑے مفاد کو چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ شہر کی انتظامی مشینری کے بیشتر پُرزے کرپٹ ہیں۔ لوگ اپنی اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ پولیس، میونسپل افسران، صحتِ عامہ سے تعلق رکھنے والی مشینری، کاروباری طبقے کے معاملات پر نظر رکھنے والے افسران‘ سبھی صرف اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے پر متوجہ رہتے ہیں۔ کرپشن اس قدر ہے کہ بہت معمولی سطح کے افسران بھی دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہو جاتے ہیں۔ کئی کیسز میں جب کرپٹ افسران کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تو کروڑوں کی نقدی برآمد ہوئی۔ جائیدادیں، گاڑیاں، طلائی زیورات، جواہر اِن کے علاوہ ہیں۔
ایک بنیادی مسئلہ مقامی اور غیر مقامی کا بھی ہے۔ انتظامی مشینری میں غیر مقامی افراد کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ مقامی افراد کو مقامی اداروں میں خاطر خواہ حد تک ملازمتیں نہیں ملتیں۔ اس کے نتیجے میں شہر میں ایسا خاموش اضطراب پایا جاتا ہے جو کسی بھی وقت لاوے کی طرح پھٹ پڑتا ہے اور شہر کے حالات کو بگاڑ کر قومی معیشت کو بھی بگاڑ سے دوچار کر بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد میں نہیں۔ ایک زمانے سے یہ گندا کھیل جاری ہے۔ ملک بھر سے لوگوں کی آمد اور سکونت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں شہر کے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ پڑتا رہتا ہے۔ اس وقت کراچی کی جتنی بھی آبادی ہے اُس کے مقابلے میں سہولتیں نصف آبادی کے تناسب سے ہیں۔ فراہمی و نکاسیٔ آب کا نظام انتہائی خرابی سے دوچار ہے۔ بجلی کے نظام پر بھی غیر معمولی دباؤ ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کی صورتِ حال بھی سب کے سامنے ہے۔ شہر کے بہت سے علاقوں میں عمومی سطح پر حالات اتنے خراب رہتے ہیں کہ وہاں ڈھنگ سے، محفوظ طور پر جینا ممکن نہیں۔ سٹریٹ کرائمز کی شرح غیر معمولی ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے دیگر اداروں میں پائی جانے والی کرپشن نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور پولیس کے درمیان رابطوں اور 'تعلقاتِ کار‘ کے حوالے سے اب کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ سبھی جانتے ہیں کہ شہر بھر میں جو غلط کام ہو رہے ہیں اُن کے مرتکب افراد کو انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ انتظامی مشینری نہ چاہے تو شہر میں جرائم پنپ سکتے ہیں نہ کوئی اور غلط کام۔ شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات بھی متعلقہ اداروں کی سرپرستی کے بغیر ممکن تھیں نہ ہیں۔ یہ سارے دھندے کراچی میں عشروں سے چل رہے ہیں۔ اس کی قیمت شہر کے باشندے چکا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کرپشن اور جرائم سے صرف مقامی باشندے پریشان ہیں۔ غیر مقامی باشندوں کو بھی اس کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک تو معاملات ایسے رہے جیسے شہر میں کوئی انتظامیہ ہے ہی نہیں۔ تمام معاملات ''آٹو‘‘ پر چلتے رہے یا یوں کہیے کہ چلنے دیئے گئے۔ جماعتِ اسلامی نے کراچی کے معاملات درست کرنے کے حوالے سے کئی بار جدوجہد کی ہے اور جب کبھی شہر کو چلانے کے حوالے سے اختیارات ملے ہیں تب اُس نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ شہر کو ڈھنگ سے چلانا نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ ایسا کرنے ہی سے شہر سمیت پورے ملک کا بھلا ہوسکتا ہے۔ 1979ء سے 1987ء تک عبدالستار افغانی کراچی کے میئر رہے۔ اِن آٹھ برس کے دوران اُنہوں نے شہر کی بے مثال خدمت کی اور اِس حالت میں منصب چھوڑا کہ اُن کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ اُن پر ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام بھی نہ لگا۔ یہی معاملہ نعمت اللہ خان کا بھی رہا۔ انہوں نے چار برس کراچی کے ناظم کی حیثیت سے گزارے اور اِس دوران شہر میں غیر معمولی ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے۔ نعمت اللہ خان کے چار سالہ دورِ نظامت کے حوالے سے کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ سخت جان قسم کے دشمنوں کے لیے بھی ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
جماعت اسلامی نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختیارات کا معاملہ احسن طریقے سے نمٹانا چاہیے۔ اگر تمام اختیارات صوبائی حکومت کی جیب میں ٹھونسنے کا عمل جاری رہا تو شہرِ قائد کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کا کوئی بھی اقدام ناممکن اور غیر متوقع نہ رہے گا۔ سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کراچی پورے ملک کے لیے جیب کا درجہ رکھتا ہے۔ صوبائی حکومت میں اگر کچھ دم ہے تو کراچی کے دم سے ہے۔ کراچی کو اختیارات اور وسائل سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ کرپشن اور جرائم کے ذریعے اِسے لُوٹتے رہنے کی صورت میں معاملات بگڑتے ہی رہیں گے اور کراچی کی خراب حالت سے پیدا ہونے والے نقصان کا بوجھ آگے چل کر باقی صوبے کو اٹھانا پڑے گا۔ کراچی میں پورے ملک کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ کوئی مقامی یا صوبائی سیاسی قوت اِس پورے سرمائے کو اپنی جاگیر نہ سمجھے۔ ایک زمانے سے اہلِ کراچی کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔ یہ کیفیت پیدا ہی کیوں ہونے دی گئی؟ جماعتِ اسلامی کی جدوجہد کے نتیجے میں پی پی پی کچھ رام ہوئی ہے۔ اُسے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پورے صوبے کے حقیقی مفادات کی نگران و ضامن ہے۔ شہر کو محض لُوٹنے اور اِس کی بوٹیاں نوچتے رہنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی۔ اب اہلِ کراچی کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اُنہیں یعنی مقامی باشندوں کو وسائل میں جائز حصہ دیا جائے۔ شہر کو چلانے والے اداروں میں مقامی آبادی کا حصہ معقول ہونا چاہیے۔ ایسا کیا جائے تو کچھ بھی حیرت انگیز نہ ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں