چلنا اگر لازم ہے تو رکنا بھی ناگزیر ہے۔ جہاں چلنا ہے وہاں چلنا ہے اور جہاں رکنا لازم ہو وہاں رکے بغیر چارہ نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک پہلو ہی کو زندگی سمجھ لیا جائے تو زندگی پُرسکون انداز سے گزر جائے گی۔ ہمارا ماحول بہت سے معاملات سے مل کر بنا ہے۔ ہر انسان کے لیے پسند و ناپسند کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ ہم بہت کچھ چاہتے ہیں مگر بہت کچھ نہیں بھی چاہتے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں جو کچھ چاہیے وہ مل جائے تو زندگی آرام سے گزرے گی۔ ہم بہت سے معاملات سے بچنا بھی تو چاہتے ہیں۔ اگر نہ بچ پائیں تو اچھے خاصے معاملات بگاڑ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ چند ایک معاملات میں انسان مجبور ہوتا ہے۔ حالات پلٹتے ہیں تو انفرادی سطح پر بھی بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ بہر کیف‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے بیشتر معاملات میں خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ڈیل کارنیگی نے بہت کام کی بات کہی ہے کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں، ذمہ دار تو آپ ہی ہیں! ہماری زندگی کا غالب حصہ ایسا ہے جو ہماری دسترس میں ہوتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہماری مرضی اور منصوبہ بندی کے تحت زیادہ اچھی طرح واقع ہوسکتا ہے اور دوسرا بہت کچھ ایسا ہے جس سے گریز یقینی بناکر ہم اپنے لیے بہت سے معاملات میں اچھائی کی خاصی گنجائش پیدا کرسکتے ہیں۔
کسی بھی انسان سے پوچھ کر دیکھیے کہ اُس کا آدرش کیا ہے اور وہ کیسی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے‘ جواب میں وہ جو کچھ بھی کہے گا وہ سب کا سب اچھا ہی اچھا ہوگا۔ ایسے معاملات میں ہر انسان یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ اُس سے اچھا تو پورے معاشرے میں کوئی نہیں اور یہ کہ وہ تو سب کا بھلا چاہتا ہے مگر کوئی اس کا بھلا نہیں چاہتا! حقیقت یہ ہے کہ ہم سبھی اپنی ترجیحات بیان کرتے وقت زمین و آسمان کو ایک پلیٹ فارم پر لے آتے ہیں۔ ہماری باتوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہوتا ہے جیسے صرف ہم پورے ماحول کا بھلا چاہتے ہیں، کسی اور کو تو کچھ پروا ہی نہیں۔ ہم بہت سے معاملات میں بالعموم سطحی طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بسا اوقات ہمیں اپنی غلطی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جہاں بالغ نظری درکار ہو وہاں ہم سرسری گزر جاتے ہیں اور جہاں سرسری گزرنا ہو وہاں خواہ مخواہ سنجیدگی سے کام لینے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اب ہماری فکری ساخت اور مزاج کا حصہ ہے۔ ہمیں اپنی بہت سی عمومی اور معمولی کوتاہیوں کا خفیف سا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ اس راہ پر ہم بڑھتے چلے جاتے ہیں اور کبھی اتنا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ پہنچیں گے کہاں۔
کسی بھی انسان کے لیے انتہائی بنیادی چیز ہے قلب و نظر کا استحکام۔ اگر نظر بلند ہے اور سوچ پختہ ہے تو سمجھیے زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا سامان ہوگیا۔ ہم اپنے بیشتر معاملات میں دل و نظر کو بروئے کار لانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیونکہ ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یونہی، سوچے سمجھے بغیر جیے جانے سے بھی ہم بہت کچھ پالیں گے، کچھ نہ کچھ ایسا کر دکھائیں گے جو فرق پیدا کرے گا اور ہمارے لیے توقیر کا سامان کرے گا۔ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ فرق اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ہم سوچیں، سمجھیں اور پوری مطلوب دانائی کے ساتھ اپنے لیے موثر لائحۂ عمل طے کریں۔ یہ سب کچھ خاصا دشوار گزار ہے۔ عمومی سطح کی زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ جہاں کام چلانے کی ذہنیت عام ہو وہاں انسان مزے سے جیتا ہے۔ تمام مشکلات صرف اُس وقت شروع ہوتی ہیں جب ہم پورے ہوش و حواس کے ساتھ، شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کا کوئی موثر، مثبت اور بارآور رخ متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اس حوالے سے الجھنوں کا سامنا ہے تو حیران ہوں نہ پریشان۔ اس مرحلے سے ہر اُس انسان کو گزرنا ہی پڑتا ہے جو اپنی زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنانے کی سعی کرتا ہے۔ دل و نظر کا استحکام یہ ہے کہ انسان بے لگام طرزِ زندگی سے اُکتاکر اپنے لیے کوئی ایسی طرزِ زندگی منتخب یا متعین کرے جو معیاری، مثبت اور تعمیری ہو۔ رب نے ہمیں سانسوں کا جو ذخیرہ عنایت کیا ہے اُسے زندگی میں تبدیل کرنے کے لیے ہمیں جینے کا ایسا ڈھنگ اپنانا ہے جو ہمارے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی مطلوب ہو۔ محض زندہ رہنا کسی کام کا نہیں۔ جینے کا حقیقی مزہ تب ہے جب انسان اپنے لیے بھی مفید ہو اور دوسروں کے لیے بارآور ثابت ہو۔ اور ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب دل و نظر میں حقیقی استحکام پایا جائے۔
ہر اعتبار سے متوازن اور بے داغ قسم کی جامعیت کے ساتھ زندگی بسر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے بیشتر معاملات میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہے۔ کوئی بھی انسان جامع نہیں۔ خامیاں اور کمزوریاں سبھی میں پائی جاتی ہیں۔ ہاں، کمزوریوں اور خامیوں کو قبول اور ہضم کرکے سُکون سے ایک طرف بیٹھ رہنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ہمیں جو کچھ لازمی طور پر دیکھنا ہے اُس سے ہم صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ کسی معاملے کو دیکھ کر اَن دیکھا کرنا کوئی پسندیدہ روش نہیں۔ یہ سب کچھ گھوم پھر کر اپنی ذات تک آتا ہے اور مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔ زندگی کا توازن صرف اُس وقت بگڑتا ہے جب ناگزیر نوعیت کے کسی معاملے کو ہم دانستہ نظر انداز کرتے ہیں یا پہلو تہی پر اُتر آتے ہیں۔ جس طور کسی مہلک بیماری کا علاج لازم ہوتا ہے اور اِس سے پہلو تہی کی صورت میں زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے بالکل اُسی طور دل و نظر کے حوالے سے بھی کوئی خرابی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ لازم ہے کہ ہم بالغ نظری کا وصف اپنے اندر محض پیدا نہ کریں بلکہ پروان چڑھانے پر بھی متوجہ ہوں۔ ہمارے خالق کی مرضی ہے کہ ہم ذہن کو بروئے کار لائیں، دانش سے مدد لیتے ہوئے ایسی زندگی کی تشکیل و تطہیر یقینی بنائیں جو اپنے لیے بھی مفید ہو اور دوسروں کے لیے بہبود کا سامان کرے۔ ذہن اس لیے عطا ہوا ہے کہ ماحول کو سمجھنے میں ہماری مدد کرے، منصوبہ سازی میں معاون ثابت ہو اور جو کچھ ہم نے طے کر رکھا ہے اُسے عملی شکل دینے میں بھرپور کردار ادا کرے۔ ذہن خود بخود کام نہیںکرتا، اِس سے کام لینا پڑتا ہے۔ ذہن کو بروئے کار لانے کے معاملے میں بھی آپ ہرگز یہ نہ سوچیے کہ آپ سے کوئی نا انصافی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر اُس انسان کو ذہن سے کام لینے کا ہنر سیکھنا پڑا ہے جس نے زندگی کا مقام و مرتبہ بلند کرنے کا سوچا ہے۔ اگر آپ نے سوچا ہے کہ زندگی یوں بسر کی جائے کہ لوگ دیکھیں اور یاد رکھیں تو کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہی پڑے گا جس میں انفرادیت بھی ہو اور معیار بھی۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ اپنی نظر میں وسعت پیدا کریں۔ بصارت کافی نہیں، بصیرت کا بھی اہتمام کرنا پڑے گا۔ مطالعے اور مشاہدے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے، بلکہ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ ہر اُس انسان کو قلب و نظر کی بلندی عطا ہوئی ہے اور بصارت و بصیرت میں استحکام نصیب ہوا ہے جس نے طے کیا ہے کہ زندگی اُتھلے پانیوں جیسی نہیں بلکہ گہرے سمندر کی سی ہونی چاہیے۔
جو کچھ ہمیں آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے وہ کافی نہیں۔ دل کی بھی آنکھ ہونی چاہیے اور اُس سے بہت کچھ نظر بھی آنا چاہیے۔ دل کی آنکھ وہ سب کچھ بھی دیکھتی ہے جو ظاہر کی آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔ بصارت سے بہت آگے جاکر بصیرت کا اہتمام کیجیے کہ اِسی کی مدد سے آپ آنے والی دنیا کی جھلک دیکھ سکیں گے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی کچھ طے کرسکیں گے۔ زندگی کے بارے میں طائرانہ یا سرسری اندازِ فکر و نظر اپنانا کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔ زندگی ہر معاملے میں استحکام چاہتی ہے۔ نظر بھی مستحکم ہونی چاہیے اور سوچ بھی۔ قلب و نظر کے مستحکم رہنے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ زندگی کو بیشتر معاملات میں نمایاں حد تک متوازن رکھنے کی یہی ایک معقول صورت ہے۔ انسان ہر معاملے میں جامع نہیں ہوسکتا مگر ایسا کرنے کی کوشش تو وہ کر ہی سکتا ہے اور کرنی ہی چاہیے۔