"MIK" (space) message & send to 7575

جلتا چولھا پہلی ترجیح

عوام کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومت قائم ہوتی ہے تو اُس سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ کئی بار امیدوں کا خون ہوچکا ہے، خواب چکناچور ہوئے ہیں مگر توقعات وابستہ کرنا بہت حد تک فطرت اور جبلت کا معاملہ ہے۔ ہاں! مشکل یہ ہے کہ لوگ توقعات وابستہ کرنے کے معاملے میں بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت ملک بھر کے معاملات کو کس طور درست کرتی ہے اور بیرونی تعلقات کے معاملے میں کون کون سے سنگ ہائے میل عبور کرتی ہے اِس سے عام آدمی کو کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ اُس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور گھر کا چولھا جلتا رہے۔ عام آدمی کے لیے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے بندوبست کرنا انتہائی بنیادی ترجیح ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اور کچھ ملے نہ ملے‘ کم از کم کھانے پینے کا معاملہ آسانی والا ہو۔ کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ عام، غریب آدمی سکون کے ساتھ جینے کے قابل ہوسکے۔ جنہیں اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے وہ حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرتے۔ بہت سے معاملات میں وہ خود بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ حکومت سے بہترین کارکردگی کی توقع عام آدمی کو ہوتی ہے کیونکہ اُس کے لیے تو ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شِیر کا
ہمارے ہاں عام آدمی کبھی کسی حکومت کی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ ہر حکومت بلند بانگ دعوے کرتی ہے اور ایسا بہت کچھ کرنا چاہتی ہے جس کا عوام کی بہبود سے فی الواقع کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا۔ ملک کو مضبوط بنانے اور خوشحالی سے ہم کنار کرنے کی سعی کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر عام آدمی کی زندگی اپنی جگہ سے ہلنے کا نام تک نہیں لیتی۔ کوئی بھی حکومت اُسی وقت قابلِ قبول ٹھہرتی ہے جب وہ عام آدمی کے بارے میں سوچتی ہے، اُس کی زندگی کے خاکے میں رنگ بھرنے پر مائل ہوتی ہے۔ جس کی زندگی کا بنیادی مقصد کسی نہ کسی طور سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہو اُس کیلئے اس بات کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی کہ ملک کس محاذ پر کیا کر رہا ہے۔ اگر قومی خزانہ بھر بھی جائے اور عام آدمی کو کچھ نہ ملے تو ایسی ترقی کس کام کی؟
پاکستان میں حکومتیں دنیا بھر کے کاموں میں الجھی رہیں اور توجہ نہیں دی گئی تو بس ایک اس بات پر کہ عام آدمی کی زندگی کا معیار تھوڑا بہت بلند ہو جائے، اُسے بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوں۔ حد یہ ہے کہ انتہائی بنیادی نوعیت کی اشیا کا معاملہ بھی مافیاز کی نذر ہوچکا ہے۔ ہر شعبے میں متعلقہ مافیا کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ تمام معاملات پر یوں متصرف ہیں کہ عام آدمی کے لیے راحت کا سامان نہیں ہو پاتا۔ ہو بھی کیسے؟ نیت ہی نہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے تبدیلی کا دعویٰ کیا۔ اس نعرے کی بنیاد پر عوام نے ووٹ دیے۔ حکومت نے کون سی تبدیلی یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کی‘ یہ بھی لوگوں نے دیکھ ہی لیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہر چیلنج خاصی مساعی چاہتا ہے۔ حکومت کے لیے بیک وقت بہت کچھ کرنا انتہائی دشوار ہے۔ کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی معمولی سا معاملہ بھی چیلنج کی شکل اختیار کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ حکومت انتہائی بنیادی مسائل کے حل کے معاملے میں کیا کر رہی ہو گی۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی سطح کی حکومتی اور انتظامی مشینری کے لیے بنیادی مسائل پر توجہ دینا زیادہ آسان نہیں۔ سوال صرف کرپشن اور نا اہلی کا نہیں‘ کام کرنے کی لگن کا بھی ہے۔ حکومتی و انتظامی مشینری میں اکثریت اُن کی ہے جن میں کام کرنے کی لگن ہی نہیں۔ صرف اپنی جیب بھرنے کی خواہش نے قومی معاملات کو انتہائی خرابی کی طرف دھکیلا ہے۔ جن میں اہلیت نہیں پائی جاتی اُنہیں کسی جواز کے بغیر سرکاری ملازمتیں دینے سے بھی خرابیاں بڑھی ہیں۔ ان دو خرابیوں کے ہوتے ہوئے اگر کام کرنے کی لگن بھی نہ پائی جاتی ہو تو سمجھ لیجیے بربادی آئی سو آئی۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے پاس اب تقریباً ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ اب تک ایسا کچھ نہیں ہو پایا جس کی بنیاد پر لوگ پی ٹی آئی کو دوسری باری دیں۔ حکومت نے اب تک صرف ٹامک ٹوئیوں سے کام لیا ہے۔ کسی بھی شعبے میں‘ کسی بھی معاملے میں تنظیم دکھائی دیتی ہے نہ حقیقی عزمِ عمل۔ معاملات کو صرف دھکا مارا جارہا ہے۔ چند ایک معاملات میں کچھ بہتری دکھائی بھی دیتی ہے تو اُسے محض آنکھوں کا دھوکا سمجھیے۔
ایک طرف افغانستان کی صورتِ حال ہے اور دوسری طرف چین سے اشتراکِ عمل۔ مغربی طاقتیں چین کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہمیں بھی مشکلات سے دوچار کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ بھارت میں انتہا پسندحکومت نے الگ الجھنیں پیدا کر رکھی ہیں۔ ایسے میں حکومت کے لیے چیلنجز بڑھتے جارہے ہیں۔ ان تمام چیلنجز کا بطریقِ احسن سامنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ اندرونی سطح پر غیر معمولی استحکام ہو۔ حقیقی اندرونی استحکام اُسی وقت ممکن ہے جب عام آدمی کی حالت بہتر ہو اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکے۔ عام پاکستانی کچھ زیادہ نہیں چاہتا۔ اُس کی تو بس اِتنی سی خواہش ہے کہ اُس کے گھر کا چولھا اِس طور جلتا رہے کہ زندگی کا بڑا حصہ اُس کے جلائے رکھنے پر صرف نہ ہو۔ زندگی صرف دو وقت کی روٹی کا نام تو نہیں۔ خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس مرحلے سے بخوبی گزرنے کی صورت میں ہی زندگی کا معیار بلند کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور انسان کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں عام آدمی کی بہبود کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ بہبودِ عامہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عام آدمی کو سونے کی اینٹیں دی جائیں۔ وہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ بنیادی سہولتیں آسانی سے مل جائیں۔
ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جی رہے ہیں۔ دنیا بہت کچھ سوچ رہی ہے اور اُس سوچ کے مطابق عمل کی راہ پر بھی گامزن ہے۔ ہر شعبے میں تحقیق کا بازار گرم ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ رنگا رنگ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جن ممالک نے ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرلی ہیں وہ بہت کچھ کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو مزید منوا رہے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا بھی تگ و دَو کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں پسماندہ ممالک کے لیے زندگی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اِس چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرنا کے لیے متعلقہ حکومتوں کو منصوبہ سازی کرنا ہوگی۔ یہ منصوبہ سازی اُس وقت تک ادھوری اور 'داغی‘ ہے جب تک عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔
زندگی تو خیر کسی بھی دور میں آسان نہیں رہی مگر فی زمانہ ڈھنگ سے جینا بھی ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر طبقے اور ہر مزاج کے انسان کے لیے ڈھنگ سے جینا آسان نہیں ہے۔ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ جن کے پاس کچھ نہیں وہ بھی پریشان ہیں اور جن کے پاس بہت کچھ ہے وہ بھی خوش نہیں؟ ایک عجیب سی بے چینی ہے جو ہر انسان کو حقیقی قلبی مسرت سے دور رکھے ہوئے ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کی جیب اور تجوری بھری ہوئی ہے جب وہ پریشان ہیں تو اُس انسان کا کیا حال ہوگا جس کے گزر بسر کرنا بھی ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں تھوڑا بہت سُکون ہوگا تو وہ ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہوسکے گا اور یوں ملک میں حقیقی معاشی و معاشرتی استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ کسی بھی ملک کو جو حقیقی افرادی قوت درکار ہوتی ہے وہ عوام ہی سے ابھرتی ہے۔ عام آدمی اگر بنیادی ضرورتوں کے معاملے میں سکون کا حامل ہو تو اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کیلئے بھی بہت کچھ کرسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں