والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنا بھی شامل ہے۔ والدین تحت الشعور کی سطح پر اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ بچوں کا بہتر مستقبل یقینی بنانا اُن کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر وہ اس حوالے سے زیادہ واضح سوچ کے ساتھ کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حال سے نمٹیں تو مستقبل کا سوچیں۔ فی زمانہ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے الجھا ہوا ہے۔ جس کی جیب خالی ہے وہ بھی پریشان ہے اور جس کی تجوری بھری ہوئی ہے وہ بھی کم پریشان نہیں۔ پریشانیوں اور الجھنوں میں سے سب کو حصہ مل کر رہتا ہے۔ ہم سب ایک ایسے عہد کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جو سو طرح کی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں، مشکلات ہیں، پیچیدگیاں ہیں جو ہمارا سکون ڈکارنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اگر معاملات کو ذرا بھی ڈھیلا چھوڑیے تو دیکھتے ہی دیکھتے خرابیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ پھر کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔
نئی نسل بہت الجھی ہوئی ہے۔ اُس کا الجھنا بنتا بھی ہے۔ آج کی دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو اس کے ذہن کو الجھنوں سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہے۔ ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے دنیا کو کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ ایسے میں نئی نسل سب سے زیادہ نشانے پر ہے۔ وہ بہت کچھ سمجھ پانے پر بھی الجھی ہوئی ہے اور ذرا سوچیے کہ جن باتوں کو وہ سمجھ ہی نہیں پاتی‘ اُن کے معاملے میں اُس کی ذہنی الجھن کس نوعیت کیا ہوگی۔ فی زمانہ والدین کی ذمہ داریاں یوں بھی بڑھ گئی ہیں کہ بچوں کی ذہنی الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ گزارے کی سطح سے بلند ہوکر بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ بن گیا ہے۔ والدین پر بھی اس حوالے سے ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اولاد کو مستقبل کے لیے بہتر طور پر تیار کیا جائے مگر یہ بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ الجھتا جارہا ہے۔ نئی نسل بہت سے معاملات میں پابندیاں قبول نہیں کرتی۔ والدین اگر نظم و ضبط کے نام پر چند ایک معاملات کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو اولاد آسانی سے بات نہیں مانتی۔ میڈیا سے متعلق ٹیکنالوجی میں عدیم المثال پیش رفت نے بچوں کے ذہنوں میں بہت کچھ بھردیا ہے۔ وہ پچھلی نسلوں کی طرح 'فرمانبردار‘ نہیں رہے۔ کسی کی بات کو ماننا اور پھر اُس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا اُن کے لیے بہت دشوار ہوچکا ہے۔ والدین کے لیے یہ نکتہ سمجھنا لازم ہے کہ بچوں کو مستقبل کے حوالے سے تیار کرنے کا مطلب ہے اُن کی ایسی تربیت جس کے ذریعے وہ زندگی کو قدرے آسان اور مستحکم انداز سے بسر کرسکیں۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے اہم معاملہ ہے معاش۔ اگر آمدن اچھی ہو اور اُسے ڈھنگ سے خرچ کرنا بھی آتا ہو تو زندگی آسان سے آسان تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی تربیت میں یہ نکتہ بالعموم قابلِ توجہ نہیں ٹھہرتا۔ بچوں کی معاشی تربیت پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے بات کیجیے تو بیشتر والدین یکسر بے بسی ظاہر کرتے ہیں۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ معاشی معاملات میں والدین کی اپنی تربیت قدرے خام ہوا کرتی ہے۔ جب وہ خود ہی کسی معاملے کو بہتر طور پر سمجھ نہیں پائیں گے تو سمجھائیں گے کیسے۔ والدین اگر چاہتے ہیں کہ بچے مستقبل کے لیے بہتر طور پر تیار ہوں تو اُن میں معاشی معاملات کا فہم پیدا کرنا پڑے گا مگر اِس کے لیے پہلے خود بھی معاشی اُمور کی تھوڑی بہت شُدبُد پیدا کرنا لازم ہے۔ وہی والدین اولاد کو مستقبل کے لیے بہتر طور پر تیار کر پاتے ہیں جو خود مطالعے کے شوقین ہوں اور اہم معاملات کا فہم رکھتے ہوں۔ والدین میں معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کی معقول صلاحیت ہونی چاہیے۔ اگر اُن کا مطالعہ وسیع ہو اور مشاہدہ بھی اچھا ہو تو بچوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بچوں کو کسی بھی معاملے میں کوئی کام کی بات بتاتے وقت والدین کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اپنے کہے پر وہ خود بھی عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
زندگی کے بیشتر معاملات معاشی اُمور کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ بڑوں کی زندگی کمانے اور خرچ کرنے میں گزرتی ہے۔ بچے محض تماشائی ہوتے ہیں۔ بچوں کو محض تماشائی کی سطح پر رہنے دینا ٹھیک نہیں۔ اُنہیں معاشی معاملات کے بارے میں بہت چھوٹی عمر سے بتانا لازم ہے۔ والدین اگر یہ چاہتے ہیں کہ بچے تابناک مستقبل کے حامل ہوں تو اُنہیں کمانے کی اہمیت اور کفایت شعاری جیسے معاملات کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔ بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کمانا کوئی کھیل نہیں۔ جو کچھ اُنہیں آسانی سے مل جاتا ہے‘ وہ کس طور حاصل کیا جاتا ہے یہ بات اُن کے علم میں ہونی چاہیے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوگا جب والدین اُنہیں پوری شعوری تیاری کے ساتھ کچھ بتانا چاہیں۔ بچوں کی معاشی تربیت اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ بچوں کو تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزرنے کے بعد زندگی بھر کمانا اور خرچ ہی تو کرنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ اُنہیں پہلے سے معلوم ہو تو بہت سی باتوں کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کمانے کی ذہنیت کے بارے میں بتانا یوں بھی لازم ہے کہ اُنہیں زندگی بھر آمدن میں اضافے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعض نسلوں اور برادریوں میں بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے کمانے اور خرچ کرنے کے بارے میں شعوری طور پر بتایا جاتا ہے یعنی اُنہیں اس حوالے سے باضابطہ تیار کیا جاتا ہے۔ بعض کاروباری برادریاں بچوں کو محض بتاتی نہیں بلکہ اُنہیں کمانے کے عمل میں شریک بھی کرتی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اُن میں بہت چھوٹی عمر سے ڈھنگ کی زندگی بسر کرنے کا شعور پیدا ہوتا ہے اور اعتماد کا گراف بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ جن بچوں کو چھوٹی عمر سے کمانے اور خرچ کرنے کے بارے میں بنیادی باتیں بتائی گئی ہوں وہ مختلف حوالوں سے معیاری زندگی بسر کرتے ہیں۔ کمانے کا شعور اور اعتماد انسان کی تمکنت میں اضافہ کرتا ہے۔ یوں اُنہیں بہتر زندگی کے لیے تیار ہونے کا موقع ملتا ہے۔
جب زندگی لگی بندھی ڈگر پر چلتی تھی تب کسی بھی شعبے میں زیادہ اُتھل پتھل نہیں تھی۔ عشروں بلکہ صدیوں تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ تب زندگی ایک خاص ڈھرے پر رہتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ہزاروں سال کی دانش اور محنت کے نتیجے میں دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ یہ سب کچھ فطری تھا یعنی دنیا کو بالآخر اُس مقام پر آنا ہی تھا جہاں وہ آج کھڑی ہے۔ سوال ماحول کا نہیں‘ فرد کا ہے۔ بچنا فرد کو ہے۔ ماحول تو مسائل کھڑے کرتا ہی رہے گا۔ نئی نسل بہت کچھ سمجھتی ہے مگر جو کچھ وہ نہیں سمجھتی وہ بہرحال زیادہ ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں جذباتی ہوتی ہے، بالخصوص اخراجات کے معاملے میں۔ کمانے کی ذمہ داری سے یکسر ناواقف بچوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اُن کے والدین یا سرپرست جو کچھ اُنہیں دے رہے ہیں اُس کے لیے اُنہیں کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے تربیت خود بخود نہیں ہوتی‘ کرنا پڑتی ہے۔ شعوری کوشش ہی بچوں کو معاشی معاملات میں توازن برقرار رکھنے کا ہنر سکھا سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں نئی نسل کو اپنے طور پر جینے دینا انتہائے حماقت ہے۔ اُس میں نظم و ضبط پیدا کرنا والدین ہی کا فرض ہے۔ سکول اور دیگر سطح کی تعلیم بھی اُن میں وہ بات پیدا نہیں کرسکتی جو والدین پیدا کرسکتے ہیں۔
معاشی معاملات کے حوالے سے بچوں میں شعور اور اعتماد پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ اگر معاشی معاملات میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ بیشتر معاملات میں قدرے غیر متوازن انداز کے حامل رہتے ہیں۔ بڑی عمر میں اُنہیں کچھ بھی سکھانا زیادہ دشوار ہو جاتا ہے۔ معاشی معاملات میں بچوں کو جو کچھ سکھانا ہے ابھی سے سکھائیے تاکہ اُن میں اعتماد کا گراف بھی بلند ہو اور وہ قدرے پُرسکون رہتے ہوئے عملی زندگی شروع کریں۔ کمانے کا عمل بچوں میں انوکھا اعتماد پیدا کرتا ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے کمانے کی عادت ڈالی جائے تو بچے بہتر مستقبل کے لیے معیاری انداز سے تیار ہوتے ہیں۔