"MIK" (space) message & send to 7575

اپنے زورِ بازو کی کہانی

تاریخ کا ہردور انفرادی سطح پر غیر معمولی ذمہ داریوں اور اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دباؤ سے عبارت رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مجموعی کیفیت اُس سے تعلق رکھنے والے ہر فرد پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔ ایک طرف انفرادیت ناگزیر ہے اور دوسری طرف اجتماعیت لازم۔ ہر انسان کو اِن دو کشتیوں میں ساتھ ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی فرد کے لیے مکمل آزادی اور خود مختاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا کبھی ممکن نہیں ہوسکا۔ انسان کو بہت سے اختیارات کے ساتھ ساتھ متعدد ذمہ داریوں کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی شخص زندگی کا حقیقی لطف مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے حاصل کرتا ہے۔ ہر انسان اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتا ہے مگر یہ معاملہ ایسا آسان اور سادہ نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی مرضی کی زندگی ممکن بنانے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو اُسے دوسروں کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف اپنے بہت سے معاملات میں ایثار کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
کوئی بھی شخص ہر اعتبار سے جامع زندگی ممکن بناسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ مکمل طور پر جامع زندگی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ ہاں! انسان بہت سے معاملات میں غیر معمولی کد و کاوش کے ذریعے اپنے معاملات کو درست رکھنے میں ضرور کامیاب ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں بہت حد تک پُرسکون زندگی بسر کرنا ممکن ہو جاتا ہے یا یوں کہیے کہ ایسی زندگی میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی۔ ہر اعتبار سے جامع زندگی تو ممکن نہیں مگر ایسی زندگی ضرور بسر کی جاتی ہے جو غیر معمولی تسکین کا اہتمام کرے۔ ہر اُس انسان کے لیے زندگی سر بسر سکون و راحت ہوتی ہے جو اپنے زورِ بازو کی مدد سے زندہ رہنے پر یقین رکھتا ہے۔ اپنے بل پر جینا کسی بھی شخص کے لیے انتہائی بنیادی معاملہ ہے کیونکہ اِس ایک معاملے میں پیدا ہونے والی خرابی پورے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
کسی بھی شخص کے لیے حقیقی زندگی وہی ہے جس کی پوری ذمہ داری وہ خود اٹھائے‘ برداشت کرے۔ اپنے تمام معاملات کی پوری ذمہ داری قبول کرنے والوں کے رنگ ڈھنگ الگ ہی ہوتے ہیں۔ آپ اُنہیں بہت دور سے شناخت کرسکتے ہیں۔ ایسے افراد میں غضب کا اعتماد پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی نظر میں بلند رہتے ہیں اس لیے جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس میں شرحِ صدر نمایاں ہوتی ہے‘ یعنی یہ کہ ایسا انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اُس کے حوالے سے اُس کے دل و دماغ میں کوئی گِرہ یا الجھن نہیں پائی جاتی۔ ایسی حالت میں ضمیر پر بوجھ نہیں ہوتا اور ذہن مکمل راحت سے ہم کنار رہتا ہے۔ اپنے زورِ بازو پر جینے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے بیشتر معاملات میں اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اُنہیں قلبی سکون بھی میسر ہوتا ہے۔ دوسروں کے بل پر زیادہ بھروسا کرنے کے بجائے اپنے زورِ بازو پر اعتماد رکھنے والوں کی زندگی میں آپ بہت سے رنگ دیکھیں گے۔ سب سے نمایاں رنگ ہوتا ہے اطمینانِ قلب کا۔ اُن کی زندگی بالعموم نظم و ضبط کے دائرے میں رہتی ہے۔ وہ اپنی ترجیحات کا تعین احسن طریقے سے کرتے ہیں۔ اپنے بیشتر کام وہ بروقت اور پوری دل جمعی سے کرتے ہیں۔ کسی بھی کام کے لیے جس قدر صلاحیت، مہارت اور توانائی درکار ہو‘ اُس کا اہتمام وہ خوب کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کوئی اپنے زورِ بازو کی مدد سے جینے کا طے کرے اور جی لے۔ یہ سب کچھ بہت چھوٹی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ بچوں کو پہلے گھر میں اور پھر سکول کی سطح پر یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حقیقی زندگی وہ ہوتی ہے جو اپنے بل پر گزاری جائے۔ دوسروں کے بھروسے اور سہارے جینے والوں کو آپ ہمیشہ پریشان حال دیکھیں گے۔ بچوں کو خصوصی طور پر سکھایا جائے کہ وہ کسی بھی معاملے میں دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی صلاحیت و سکت پر بھروسا کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ انہیں ذہن نشین کرایا جائے کہ حقیقی اور پُرسکون زندگی وہی ہے جسے بسر کرنے کے لیے دوسروں کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ ہر اُس انسان کی زندگی مثالی اور قابلِ رشک دکھائی دے گی جو ہمیشہ اپنے بل پر جینے کی کوشش کرتا آیا ہو۔ ایسی حالت میں انسان حیرت انگیز اعتماد کا حامل رہتا ہے۔ جب اپنی صلاحیت و سکت کا بخوبی اندازہ ہو تو انسان مقاصد اور اہداف کا تعین بھی سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ جب اپنے معاملات اپنے طور پر نمٹانا ہوں تو انسان کسی کی طرف دیکھنے سے صرف گریز ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے وجود کا گہرائی اور باریکی سے جائزہ لینے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ نئی نسل کو یہ بات سمجھنے پر خاص توجہ دینا چاہیے کہ ہر کامیاب انسان اپنے وجود کی بنیاد پر کامیاب ہوتا ہے۔ انسان معاشرے کا حصہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اشتراکِ عمل بھی اُس کے معمولات کا حصہ ہوتا ہے‘ وہ دوسروں سے مدد لیتا ہے اور اُن کی مدد کرتا ہے مگر حتمی تجزیے میں تو صرف وہ خود ہی اپنا ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد کی کہانی پڑھ دیکھیے‘ آپ اندازہ لگائیں گے کہ بھرپور کامیابی اُسی وقت ممکن ہو پائی جب انہوں نے کسی اور کی طرف دیکھنے کے بجائے صرف اپنی طرف دیکھا، اپنی مدد کی اور اپنے دم پر معاملات کو درست کرنے پر مائل ہوئے۔
ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اپنی صلاحیت و سکت کے بارے میں زیادہ فکر مند رہنے کے بجائے سہارے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ الجھنوں کا شکار پائے گئے ہیں۔ جب انسان دوسروں سے مدد کا طالب رہتا ہے تب اپنے وجود پر اعتماد گھٹتا چلا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اپنے وجود کو بروئے کار لانے پر توجہ دینا ممکن نہیں رہتا۔ یہ خامی بہت سے معاملات بگاڑ دیتی ہے۔ انفرادی معاملات ہی کی بنیاد پر قوم کے معاملات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ہر وہ قوم پوری دنیا کی نظر میں غیر محترم ٹھہرتی ہے جو اپنے بل پر جینے کے بجائے سہارے تلاش کرتی رہتی ہے۔ سہارے مختلف شکلوں میں ہوسکتے ہیں۔ اُدھار پر جینا بھی سہارے تلاش کرنے ہی کی ایک شکل ہے اور یہ شکل خاصی پریشان کن ہے۔ امداد کی تلاش میں رہنا بھی کسی قوم کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ کسی بھی مشکل گھڑی کے اثرات سے احسن طریقے سے نمٹنے کے لیے ہر قوم کو تیار رہنا چاہیے۔ کسی قوم پر کوئی بڑی افتاد آ پڑے تو باقی دنیا اُس کی مدد کرتی ہے اور ایسے مواقع پر کوئی بھی کسی کو مطعون نہیں کرتا مگر بات بات پر دوسروں کی طرف دیکھنا اور مدد کا منتظر رہنا کسی بھی اعتبار سے درست روش نہیں ہے۔ ایسی قوم کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کسی فرد کو دوسروں کے بل پر جینے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ویسی ہی مشکلات ہر اُس قوم کو برداشت کرنا پڑتی ہیں جو اپنے بل پر جینے سے واضح گریز کرے اور محنت سے جی چُرائے۔
دوسروں کے سہارے جینے کی عادت محنت سے جی چُرانے کی عادت کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ آج ہمارے ماحول میں ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو اپنے بیشتر معاملات میں سہارا دینے والوں کو تلاش کرنے یا اُن کے منتظر رہنے کے عادی ہیں۔ کچھ نیا سیکھنے، معاشی معاملات بہتر بنانے کے لیے ناگزیر سمجھی جانے والی مہارتوں کا حصول یقینی بنانے اور زیادہ محنت کرنے سے کترانے کا نتیجہ دوسروں پر انحصار کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ وہی پاکستان ہے جس میں کبھی لوگ شبانہ روز محنت کے ذریعے مختلف شعبوں میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ دیتے تھے۔ آزادی کے ابتدائی دو‘ ڈھائی عشروں کے دوران لوگ سیکھنے اور محنت کرنے کے عادی تھے۔ پھر تن آسانی نے ہمارے دلوں میں گھر کرلیا۔ اِس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ اپنے تمام مضمرات کے ساتھ آج ہمارے سامنے ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر اپنے زورِ بازو پر جینے کی عادت ترجیحاً اپنائی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں