پیش رفت بہت سے طریقوں سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ غیر معمولی محنت بھی پیش رفت کے لیے ناگزیر ہے اور مثالی نوعیت کی صلاحیت بھی انسان کو پیش رفت کے قابل بناتی ہے۔ حالات کے پلٹنے سے بھی ہم کبھی کبھی کسی معاملے میں پیش رفت ممکن بنا پاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں اور کسی بھی حوالے سے پیش رفت یقینی بنانے میں اشتراکِ عمل بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مل کر کام کرنے کی صورت میں کم محنت سے زیادہ کام ہو پاتا ہے اور نتائج بھی بہتر ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں مل جل کر کام کرنے کا ماحول کبھی پروان نہیں چڑھ سکا۔ معاشرتی الجھنیں اس قدر ہیں کہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پانا ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ پورا ماحول ایسا ہے کہ لوگ بس جیے جارہے ہیں۔ سوچنے کی زحمت گوارا کی جارہی ہے نہ اصلاحِ احوال ہی کا کچھ خیال ہے۔ محض جینے کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ جن معاملات میں غیر معمولی تدبر درکار ہے اور عمل بھی ناگزیر ہے اُن کے حوالے سے لمبی تان کر سونے ہی کو سب کچھ گردان لیا گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے ممالک نے اپنے بنیادی مسائل حل کرنے کے بعد ترقی کی ہے‘ عمومی خوش حالی ممکن بنائی ہے۔ جاپان ایک زمانے سے ترقی یافتہ ہے۔ جنوبی کوریا اور ملائیشیا کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر چین ہے جس نے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا اور غریب ملک ہونے کے باوجود شدید پسماندگی کو شکست دے کر اپنے آپ کو اس قابل بنایا ہے کہ آج امریکا اور یورپ کو منہ دینا ممکن ہوسکا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں ابتدا ہی سے ایسی بہت سی خصلتیں پائی جاتی رہی ہیں جن کے ہوتے ہوئے ترقی اور خوش حالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ پسماندہ معاشروں کو دیکھیے تو اُن میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے وہ ہمارے ہاں بھی انتہائی شکل میں پایا جاتا ہے۔ سوال خرابیوں کی موجودگی کا نہیں۔ خرابیاں کس معاشرے میں نہیں؟ ہر معاشرے کے کچھ نہ کچھ مائنس پوائنٹس ہوتے ہی ہیں مگر وہ کچھ سوچتے بھی تو ہیں‘ معاملات کو درست کرنے کی طرف چلنا تو شروع کرتے ہیں۔ رونا اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں اصلاحِ احوال یقینی بنانے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جارہی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خرابی کو خرابی بھی تسلیم نہیں کیا جارہا!
کسی بھی معاشرے میں ترقی کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے جب لوگ معاشی الجھنوں سے نجات پانے کے لیے پہلے اپنے معاشرتی رویوں کو درست کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ریاست کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ جہاں ریاستی مشینری نے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے وہاں قوم نے بحیثیت مجموعی ترقی کی منازل طے کی ہیں اور دنیا کو اپنی صلاحیت و سکت کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ممالک کو شاندار مثال کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ چین نے جس طور اپنے آپ کو بدلا ہے اور پسماندگی کے گڑھے سے نکل کر ترقی و خوشحالی کی بلندی تک پہنچ کر دکھایا ہے وہ اپنے آپ میں آج کا ایک نمایاں کارنامہ ہے۔ چین کی ترقی اُس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے اور اُسی کے لیے ہے مگر اس کہانی میں باقی دنیا کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ پسماندہ معاشرے چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
بیسویں صدی ابتدائی عشروں تک چین ایک ایسا ملک تھا جو اپنی غیر معمولی آبادی کے ہاتھوں ہر معاملے میں پچھڑا ہوا تھا۔ آبادی کی اکثریت ناخواندہ‘ کاہل اور یکسر غیر ذمہ دار تھی۔ ملک میں قدرتی وسائل کی کمی نہ تھی مگر افرادی قوت غیر معیاری اور ریاست پر بوجھ تھی۔ پھر کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماؤ زے تنگ کی ولولہ انگیز قیادت میں چینیوں نے اپنے آپ کو پہچانا‘ خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے بعد اُنہوں نے کچھ کر دکھانے کی ٹھانی۔ افیم کے نشے میں غرق رہنے والے چینی جب سنبھلے تو ایسے سنبھلے کہ ایک دنیا کے قدم ڈگمگا گئے۔ آج چین کہاں ہے؟ امریکا اور یورپ کے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ محض سات آٹھ دہائیوں میں ہوا ہے۔ چینیوں نے اپنے آپ کو کیسے بدلا؟ ایک دوسرے کو قبول کرکے‘ مل کر کام کرنے کا فلسفہ اپناکر۔ چینی قیادت نے اپنے لوگوں کو سمجھایا کہ آپس میں دست و گریباں رہنے سے صرف پستی ممکن ہے۔ چینیوں کے ذہن میں یہ نکتہ اچھی طرح نصب کیا گیا کہ وطن ہے تو سب کچھ ہے۔ وطن پرستی چینیوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وطن کے خلاف کوئی بھی چینی ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتا۔ چینی قیادت نے اپنے لوگوں کو سکھایا کہ کامیابی کی طرف بڑھنے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کی کامیابی سے جلنے کُڑھنے کے بجائے اُن کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی جائے۔
پاکستانی معاشرے میں آج بھی عمومی چلن یہ ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر صرف حسد کیا جائے اور دوسروں کی قبر پر اپنا تاج محل کھڑا کرنے پر توجہ دی جائے۔ کامیابی اپنے بل پر ہوتی ہے۔ کسی کو غمگین دیکھ کر یا رنجیدہ کرکے اپنے لیے حقیقی خوشی اور طمانیت ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔
آج پاکستانی قوم کو پوری تیاری کے ساتھ یہ سکھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لیے دوسروں کو ناکام بنانا لازم نہیں اور یہ بھی کہ اگر انگور ہاتھ نہ آسکیں تو وہ لازمی طور پر کھٹّے نہیں ہوتے! آج ہمارے معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ تھوڑی بہت محنت کرنے پر بھی کچھ حاصل نہ ہوسکے تو انتہائی بے دلی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ کامیاب ہونے کا کچھ فائدہ نہیں! یہ رویہ جذبۂ عمل کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ جب ہم محنت کرنے پر مطلوب نتائج حاصل نہ ہونے پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جس چیز کے لیے ہم نے محنت کی تھی وہ حاصل کئے جانے کے قابل ہی نہ تھی تب فکر و عمل پر جمود سا طاری ہونے لگتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کچھ سیکھنے اور زیادہ محنت کرنے کا جذبہ اُس وقت سرد پڑنے لگتا ہے جب یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ کامیابی تو محض نصیب سے حاصل ہوتی ہے اور یہ کہ محنت کرنے پر بھی جو کچھ نہ ملے وہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں کچھ نیا کرنے کی لگن پیدا نہیں ہوتی۔ انسان سیکھنے پر مائل ہی نہ ہو تو جدت کا بازار کیسے گرم ہو؟ اگر معاشرے پر جمود طاری ہو اور لوگ جدت سے بھاگ رہے ہوں تب بھی انفرادی سطح پر تو جدت پسندی کا ولولہ برقرار رہنا ہی چاہیے۔ کوئی معاشرہ کیسا ہی گرا ہوا اور پچھڑا ہوا ہو‘ انفرادی حیثیت میں کچھ کر دکھانے کا آپشن تو موجود رہتا ہے۔ ہاں‘ خود کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ جو کچھ آسانی سے نہ مل پائے اُسے پر لعنت بھیج کر ایک طرف بیٹھ رہنے سے کہیں بڑھ کر اس بات کی اہمیت ہے کہ بھرپور ولولے اور نئی لگن کے ساتھ کام کیا جائے‘ خود کو منوایا جائے۔
آج ہماری قیادت اور ریاستی مشینری کو عوام کے فکر و نظر میں مثبت تبدیلی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ رویوں کا درست کیا جانا ناگزیر ہے تاکہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے لیے کوئی باعزت مقام ممکن بنایا جاسکے۔یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب باصلاحیت اور کامیاب افراد کو قبول کیا جائے‘ اُن کی کارکردگی دیکھ کر افسردہ ہونے کے بجائے کچھ سیکھنے کی کوشش کی جائے‘ اپنے اندر کام کرنے کی لگن پروان چڑھائی جائے۔ کوئی بھی معاشرہ اُس وقت پروان چڑھتا ہے جب وطن سے بے پناہ محبت کی جائے اور اہلِ وطن کے لیے کچھ کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ کامیاب معاشروں میں لوگ مل کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ باقی دنیا کو یہی تو سکھاتا ہے۔ اشتراکِ عمل اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب معمولی سی ناکامی کو حواس پر سوار کرکے انگوروں کو کھٹّا قرار دینے کے بجائے اُن کی مٹھاس کا اعتراف کیا جائے اور اُن کے لیے نیک جذبات پروان چڑھائے جائیں جنہیں یہ انگور ہاتھ آئے ہوں۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ایک طرف تو ماحول پژمردہ ہے اور دوسری طرف سیاسی قائدین اور ریاستی مشینری بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تک اس حوالے سے سوچنے کی بنیادی بھی نہیں ڈالی گئی۔ ایسے میں عمل تو بہت دور کا معاملہ ہے۔