انڈر ورلڈ ایک ایسی دنیا ہے جو بہت حد تک اندر ہی اندر ہوتی ہے اور جسے کماحقہٗ سمجھنے کے لیے بہت نیچے اُترنا پڑتا ہے، گہرائی میں جانا پڑتا ہے۔ طاقت کا معاملہ ہے ہی کچھ ایسا پیچیدہ کہ جب تک گہرائی میں نہ جائیے بات سمجھ میں آتی نہیں۔ ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی طاقت کو سمجھنے کے لیے گہرائی میں اُترنے کے بعد ابھرنا دشوار ہو جاتا ہے مگر جناب! طاقت کو ڈھنگ سے سمجھنا ہے تو اِتنا جوکھم تو اٹھانا ہی پڑے گا۔ انڈر ورلڈ ہم جرائم کی دنیا کو کہتے ہیں۔ یہ بھی ہماری خوش فہمی یا خام خیالی ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ ایک تو ہے انڈر ورلڈ یعنی جرائم کی دنیا اور جو کچھ اِس سے ہٹ کر ہے‘ وہ بالکل شریف اور درست دنیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے! حقیقت یہ ہے کہ انڈر ورلڈ بھی دراصل اوور ورلڈ یعنی شریفوں کی دنیا ہی کا عکس ہے اور وہ دنیا بھی اِس دنیا کے افکار و اعمال کے نتیجے ہیں میں معرضِ وجود میں آتی ہے۔ انڈر ورلڈ تو محض ایک کور ہے جس کی مدد سے ''شریفوں‘‘ کو اپنے چہرے چھپانے کا موقع مل جاتا ہے۔ کیا ہم نے بے لگام طاقت کے ایسے تماشے نہیں دیکھے جن میں شریفوں کے ہاتھوں ایسے جرائم کار ارتکاب ہوا کہ پیدائشی جرائم پیشہ بھی شرمسار ہوکر رہ گئے؟
''شرفا‘‘کی نام نہاد دنیا نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ بجائے خود انتہائی شرم ناک انڈر ورلڈ ہے۔ ہر دور میں معاشرے بھرپور طاقت کے حصول کی خواہش کے تحت افکار و اعمال کی سطح پر بے لگام ہوتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہر عہد میں چند ریاستوں نے مل کر باقی دنیا کو اپنی مٹھی میں لیا اور دنیا بھر کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی بھرپور کوشش کی۔ گزشتہ چار پانچ صدیوں کی تاریخ کھنگالیے تو معلوم ہوگا کہ یورپ نے فطری علوم و فنون میں فقید المثال پیش رفت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی کوشش بھی کی ہے تاکہ اپنی مرضی دوسروں پر تھوپتے ہوئے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
تاریخ کے ہر دور میں کوئی نہ کوئی سپر پاور رہی ہے۔ کوئی ایک ملک یا چند ممالک باقی دنیا سے زیادہ طاقت حاصل کرکے میدان میں آئے اور دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ اسلام کے عہدِ اول میں ایران (فارس) اور روم کی سلطنتیں سپر پاور تھیں۔ قرونِ اول کے مسلمانوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں سپر پاورز کو دُھول چٹائی اور مسلمانوں کے ایسے سنہرے دور کا آغاز کیا جو کم و بیش ایک ہزار سال تک چلا۔ مسلمانوں نے مختلف خطوں میں شاندار انداز سے حکومت کی اور پھر انتہائی عبرتناک انداز سے برباد بھی ہوئے۔ چار پانچ صدیوں کے دوران پہلے یورپ نے اور پھر گزشتہ صدی سے امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر باقی دنیا کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنائے رکھنے پر اِتنی توجہ دی کہ دنیا بھر میں بہت کچھ الٹ پلٹ گیا۔ یورپ نے کم و بیش ساڑھے تین صدیوں تک دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھا۔ اس دوران بہت سے خطوں کو زیرِ تسلط رکھ کر اُن کے وسائل کو جی بھرکے لوٹا گیا۔ ہندوستان جیسی زرخیز اور خوش حال سرزمین کو بھی یورپ نے بالآخر تاراج کرکے چھوڑا۔
امریکا نے بیسویں صدی میں دنیا پر قابلِ رشک انداز سے راج کیا۔ دنیا بھر کے معاملات کو امریکی قیادت نے کھینچ کھانچ کر اپنی مٹھی میں بند کر لیا۔ جس طور کسی ملک میں تمام اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جانے سے انتہائی نوعیت کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں بالکل اُسی طور دُنیا بھی تب تب خرابی کی نذر ہوئی جب کسی ایک ملک یا چند ریاستوں نے بہت زیادہ طاقت جمع کرکے اختیارات بھی اپنی مٹھی میں بند کر لیے۔ کم و بیش پانچ صدیوں تک دنیا پر راج کرنے کے بعد اب امریکا اور یورپ تھکن محسوس کرنے لگے ہیں۔ طاقت کا ایک عجیب پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہ جلوہ گر ہوتی ہے تب کمزوروں کو ایسا لگتا ہے کہ اب صدیوں تک کچھ بھی تبدیل نہ ہوسکے گا مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ بدلنے لگتا ہے۔ وقت کی بساط پر نئے مہرے سامنے آجاتے ہیں اور بساط پر اختیار بھی نئے کھلاڑیوں کا ہوتا ہے۔
چین کسی دور میں ایک بڑی طاقت تھا۔ اُس نے اپنی حدود سے نکلنے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہی معاملہ ہندوستان کا بھی تھا۔ ہندوستان بہت بڑا اور زرخیز خطہ تھا اور یہاں بہت سے علوم و فنون کے ماہرین بکثرت تھے مگر اسے ایک منظم ریاست کا روپ بہت بعد میں ملا۔ تب تک دنیا بھر میں نئی طاقتیں اُبھر چکی تھیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کے دوران بہت کچھ ایسا بھی کیا جس سے یہ خطہ سینکڑوں چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں، جاگیروں (رجواڑوں) کے دور کو بھول کر ایک باضابطہ ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ انتہا پسند ہندو یہ بات تو زور و شور سے بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اُن کی سرزمین کا بار بار رُخ کیا مگر اس حقیقت تک اُن کی نظر نہیں جاتی کہ مسلم حکمران لُوٹ مار کرکے چلے نہیں جاتے تھے بلکہ وہاں حکومت قائم کرکے معاشرے کو باضابطہ ریاست کی شکل دینے پر بھی توجہ دیتے رہے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا اور دھیرے دھیرے اپنی پوزیشن مستحکم کی تب عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ پچیس فیصد سے زیادہ تھا! یہ سب مسلم حکمرانوں کی محنت کا نتیجہ تھا۔ کئی مسلم حکمرانوں نے ہندوستانی سرزمین پر معیشت اور معاشرت‘ دونوں کو باضابطہ شکل دی، استحکام بخشا۔
خیر اس وقت معاملہ یہ ہے کہ چین دوبارہ اُبھر چکا ہے۔ دوسری طرف روس بھی نئی اننگز شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ روس بعض معاملات میں مجبور اور بے بس ہے۔ اُس کا محلِ وقوع اُسے حقیقی سپر پاور بننے سے روکتا ہے۔ چین اس معاملے میں بہت حد تک خوش قسمت ہے۔ اُس کا محلِ وقوع اُسے محدود رکھنے والا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ غیر معمولی معاشی استحکام یقینی بنانے کے بعد اب عالمی سیاست میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ روس اُس کے ساتھ ہے۔ چند اور ممالک بھی اِن دونوں کے ہم نوا ہیں۔ اگر مسلم دنیا ساتھ دے تو روس اور چین مل کر امریکا اور یورپ کی بالا دستی ختم کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ چین بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ امریکا اُسے عسکری معاملات میں چھیڑنے سے گریز کر رہا ہے۔ یورپ پہلے ہی الگ راہ پر گامزن ہے۔ یورپی قائدین کوئی نئی جنگ نہیں چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں سارا کا سارا فائدہ امریکا کو پہنچنا ہے۔ امریکی قیادت اپنی کمزوریوں سے بہت اچھی طرح واقف ہے اس لیے چاہتی ہے کہ کوئی نئی، ہمہ گیر قسم کی جنگ شروع ہو تاکہ وہ اسلحے کی منڈی میں آنے والی تیزی سے اپنی مرضی کے مطابق مستفید ہوسکے۔
یوکرائن کے حوالے سے روسی گرم جوشی سے امریکا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ڈھائی‘ تین عشروں سے وہ انتہائی کمزور ممالک کو نشانے پر رکھ کر اپنی دکان چلاتا آیا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ روس بپھر کر یوکرائن سے بھڑ جائے تاکہ اسلحے کی منڈی میں تیزی آجائے۔ اِس حقیقت کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اب امریکا کی بڑھکیں بھی کام نہیں کر رہیں۔ چین کو وہ ڈرا نہیں سکتا۔ مسلم دنیا بھی اُس کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ بعض معاملات میں وہ خود ہی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ بوڑھا بدمعاش جب اور کچھ نہیں کرسکتا تو بڑھکیں مارنے پر تُل جاتا ہے کہ شاید دھونس‘ دھمکی سے کچھ کام بن جائے۔ امریکا کی بڑھکیں بھی اب جگتوں کی سی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں!
یہ نازک وقت ہے۔ امریکا چند ایک معاملات میں بہت طاقتور ہے مگر دوسرے بہت سے معاملات میں اُس کا وہ پہلے سا دبدبہ نہیں رہا۔ اُسے کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر یورپ بھی راستہ بدل رہا ہے۔ یورپی قائدین جنگ پسند ذہنیت ترک کرکے صرف معاشی معاملات پر متوجہ ہیں۔ امریکی قیادت شاید بھول گئی ہے کہ جن کے اپنے گھر شیشے کے ہوں وہ دوسروں کو پتھر نہیں مارا کرتے۔ چین اور روس نے جس امریکا کا ناطقہ بند کر رکھا ہے‘ وہ بڑھکوں پر گزارہ کر رہا ہے۔ موقع اچھا ہے کہ اُبھرتی ہوئی طاقتیں مل کر اُسے گھیریں اور بڑھکیں مارنے کے قابل بھی نہ چھوڑیں۔