"MIK" (space) message & send to 7575

چین کہاں، آرام کہاں؟

یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے ایک دنیا کو خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بہت فخر سے کہا جاتا ہے کہ دنیا سمٹ کر اب گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے یعنی گلوبل ویلیج منصۂ شہود پر آچکا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ سب آپس میں جڑگئے ہیں مگر اِس کا نقصان بھی تو ہے۔ کچھ ہوتا ہے تو بہت دور تک اُس کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ یکسر غیر متعلقین بھی زد میں آ جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ روس نے یوکرین پر چڑھائی کی اور اس کے اثرات سبھی خطوں کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اصلاً یہ یورپ اور یوریشیا کا جھگڑا ہے۔ یوکرین مشرقی یورپ کا حصہ ہے۔ اس پر روس کا دعویٰ ہے۔ دعویٰ صحیح ہے یا غلط، اِس بحث سے قطعِ نظر حقیقت یہ ہے کہ آج اس قضیے نے پوری دنیا کی جان عذاب میں ڈال رکھی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اب دنیا ایسا سمندر ہے جس میں کوئی ایک ریاست بھی خود کو جزیرہ قرار نہیں دے سکتی۔ دو ریاستوں کے مابین مفادات کا تصادم دور و نزدیک کی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لیے بغیر نہیں رہتا۔ مگر صاحب، کیا کیجیے کہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
روس نے یوکرین پر چڑھائی کی تو دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس کریش ہوگئیں۔ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ 17 فیصد تک بڑھ گئے۔ دنیا بھر میں فوڈ سکیورٹی کا معاملہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بڑی آبادی والی بیشتر ریاستیں اپنے باشندوں کے لیے اشیائے خور و نوش کی ترسیل جاری رکھنے کا اہتمام کرنے میں مصروف ہیں۔ عالمی منڈی میں بھی خوردنی اشیا کے نرخ بڑھتے جارہے ہیں۔ طلب بڑھتے رہنے سے بھی اشیا کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ متعدد ممالک کورونا کی وبا کے باعث پہلے ہی شدید معاشی بحران سے دوچار تھے‘ رہی سہی کسر یوکرین کے بحران نے پوری کردی۔ بہت سی حکومتیں پریشان ہیں کہ مالیات سمیت تمام معاشی معاملات کیسے سنبھالیں۔ یوکرین پر روسی لشکر کشی نے کئی ممالک کو جنگ کے ممکنہ پھیلاؤ کے حوالے سے بھی پریشان کر رکھا ہے۔ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور یوریشیا کے خطوں میں کئی ممالک جنگ کے ممکنہ پھیلاؤ سے نمٹنے کی تیاریوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ مغربی میڈیا نے معاملات کو خراب کرنا شروع کردیا ہے۔ ڈیلی میل نے وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ روس کو بنیاد بناکر پاکستان کو یوکرین پر روسی لشکر کشی کے ذمہ داران میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کو روس کا ''سہولت کار‘‘ ثابت کیا جائے۔ یہ بھی خوب رہی! ایک طرف پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ دنیا بھر میں جتنی بھی خرابیاں ہیں اُن کی پشت پر پاکستان جیسے ممالک ہیں!
یوکرین کے معاملے میں چین اور پاکستان خاموش ہیں۔ بھارت اب تک تذبذب کا شکار ہے۔ وہ یوکرین پر لشکر کشی کی مذمت تو کر رہا ہے؛ تاہم اُس نے سلامتی کونسل میں روس کے خلاف پیش کی جانے والی مذمتی قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہ لینے کو ترجیح دی۔ وہ غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے مگر اب ایسا ممکن نہیں۔ روس سے اب اُس کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے۔ یوکرین کے بحران پر اگر وہ روس کے ساتھ کھڑا نہ ہوا تو رہی سہی دوستی بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ روس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو مزید کچھ مدت تک ڈانواں ڈول رکھنے کا انتظام کردیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کی الجھنیں دوچند ہوگئی ہیں۔ کورونا کی وبا کے شدید منفی اثرات نمٹنے کی اپنی سی کوششیں ابھی پوری طرح بارآور ثابت نہ ہوئی تھیں کہ عالمی سیاست و معیشت میں پھر اکھاڑ پچھاڑ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دنیا بھر کے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے خام تیل کے بڑھتے ہوئے نرخ پریشانی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ دوسرے نمبر پر گیس، کوئلہ اور توانائی کے دیگر ذرائع ہیں۔ فوڈ سکیورٹی کا معاملہ بھی حکومتوں کو پالیسیاں تبدیل کرنے اور نئی حکمتِ عملی کے تحت کچھ کرنے کی تحریک دے رہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک فوڈ سکیورٹی اور توانائی کے معاملات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ سکت۔ ایسے میں وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا۔ کھلے بازار کی معیشت کا اصول پاکستان جیسے ممالک پر جامع طریق سے اطلاق پذیر ہوتا ہے کیونکہ یہاں کوئی میکنزم کام نہیں کر رہا۔ طلب بڑھتی ہے تو نرخ بڑھتے ہیں یعنی مہنگائی کا گراف بلند ہوتا ہے اور عوام کی مشکلات دوچند ہو جاتی ہیں۔ کمزور ممالک کے لیے عالمی معیشت کا بگاڑ ایسی خرابیاں پیدا کر رہا ہے جن سے نمٹنے کے لیے انہیں طویل مدت درکار ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فطری علوم و فنون میں بے مثال ترقی کے باوجود دنیا بھر میں پسماندگی تادیر رہے گی۔ طاقتور ممالک اپنی پوزیشن کسی نہ کسی طور مستحکم رکھنے کے لیے ایسے بہت سے اقدامات کر رہے ہیں جو اخلاقی اقدار کے سراسر منافی ہیں۔ پس ماندہ ممالک کے اربوں باشندے انتہائی پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے میں بہت حد تک ترقی یافتہ ممالک قصور وار ہیں کیونکہ اُن کی پالیسیوں نے پسماندہ ممالک کو جکڑ رکھا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر ترقی یافتہ دنیا کا کنٹرول ہے۔ وہ اپنی مرضی سے قرضے اور نام نہاد امداد دیتے ہیں۔ شرائط بھی ایسی عائد کی جاتی ہیں کہ قرضے اتارے نہ جاسکیں اور پس ماندہ دنیا پس ماندہ ہی رہے۔
بیسویں صدی کے دوران متعدد ممالک نے غیر معمولی ترقی یقینی بنائی۔ دنیا بھر میں ایجاد و اختراع کا بازار گرم رہا۔ اس کے نتیجے میں اکیسویں صدی کی آمد تک ترقی کی رفتاری ایسی ہوگئی کہ دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا۔ اس کے باوجود ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے بیشتر پسماندہ ممالک کے حالات درست نہ ہوسکے۔ ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں داخل ہوچکے ہیں مگر اب تک دنیا کے معاملات نہ صرف یہ کہ درست نہیں کیے جاسکے بلکہ درستی کی امید قائم کرنا بھی بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی خواہش نے بعض بڑی، طاقتور ریاستوں کے درمیان مسابقت تیز کردی ہے۔ امریکا اور یورپ ایک طرف کھڑے ہیں جبکہ چین، روس اور اُن کے ہم نوا ممالک مل کر متبادل یا متوازی بلاک تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوشش اخلاقی اعتبار سے غلط نہیں۔ امریکا اور یورپ نے بھی تو مل کر اپنے مفادات کو تحفظ دیا ہے۔ ان دونوں خطوں نے مل کر ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا میں جو کچھ کیا‘ وہ تاریخ کے دامن پر گہرا دھبہ ہے۔ دنیا کو اپنے پیروں تلے رکھ کر، اُس کے وسائل پر قبضہ کرکے امریکا اور یورپ نے اپنے لیے حیران کن ترقی اور خوش حالی یقینی بنائی۔ پسماندہ ممالک کا اب سُکون کے چند لمحات پر بھی حق نہیں رہا۔ لتا منگیشکر کے ایک فلمی گیت کا مکھڑا بے ساختہ یاد آگیا ہے ع
ہم پیار میں جلنے والوں کو چین کہاں‘ آرام کہاں؟
چین اور روس ابھرے ہیں تو بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی بڑھ گئی ہے۔ اس رسہ کشی نے چھوٹے اور کمزور ممالک کے لیے بقا کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے سات عشروں تک کئی خطوں میں درجنوں ممالک کو شدید پسماندگی سے دوچار کیا۔ امریکا نے دنیا بھر کے فوجی جمع کرکے افغانستان جیسے چھوٹے، پس ماندہ اور نہتے ملک پر لشکر کشی کی تب امریکا اور یورپ کے پالیسی میکرز کو کچھ خیال نہ آیا کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ اب یوکرین پر روس نے لشکر کشی کی ہے تو امریکا اور یورپ دُہائیاں دے رہے ہیں۔ یہ اس خوف سے کہ کہیں اپنے ہی آنگن میں جنگ نہ چھڑ جائے۔ چین اور روس ابھرے ہیں تو دنیا بھر کے پسماندہ ممالک کے لیے نیا آپشن پیدا ہوا ہے۔ سب مل کر مغرب کے مقابل ایک نیا، جاندار بلاک بنا سکتے ہیں۔ عالمگیر سطح پر طاقت کا توازن قائم ہوگا تو کچھ بہتری آسکے گی۔ روس نے جو کچھ کیا ہے وہ ویک اَپ کال ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو اس مرحلے پر دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے بہترین پارٹنرز کا انتخاب کرنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں