آج کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی ہے جس میں امریکی صدر سے سوال کیا گیا کہ عراق پر حملہ کیوں کیا تھا تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں ایسا لگا تھا کہ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ روس پر حملہ کیوں نہیں کیا گیا تو جواب ملا اُس کے پاس تو ایٹمی ہتھیار ہیں ۔ یہ ہے طاقت کی پوری کہانی۔ ہر دور میں طاقتور صرف کمزوروں کو دباتے آئے ہیں۔ جب کسی طاقتور کے سامنے کوئی طاقتور آ جاتا ہے تو معاملات گفت و شنید کی طرف چلے جاتے ہیں‘ مصلحت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ معاملات کو مل بیٹھ کر کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر طے کرلیا جائے۔ اگر سامنے کمزور اور کمتر ہو تو طاقتور کی دیدہ دلیری دیکھا چاہیے!
یوکرین نے سوویت یونین کی تحلیل کے نتیجے میں خود مختار ریاست کی حیثیت پائی۔ تب یہ طے پایا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے نجات پائی جائے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو سنبھالنا بجائے خود ایک بہت بڑا کام ہے۔ یوکرینی حکومت نے سوچا کہ یہ محض ڈیٹیرنس ہے‘ استعمال کرنے کی چیز نہیں۔ تب امریکا‘ روس اور نیٹو نے یوکرین کو یقین دلایا تھا کہ اُس کی سلامتی اور سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ اگر روس یا کسی اور طاقت نے یوکرین پر حملہ کیا تو نیٹو دوڑی دوڑی آئے گی اور اُس کے دفاع میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ یوکرین کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اُسے نیٹو کی رکنیت دے دی جائے گی۔ معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کی رکنیت ملنے کی صورت میں روس یا کسی اور طاقت کے حملے کی صورت یوکرین کا دفاع نیٹو کے ارکان کا فرض ٹھہرتا۔ یوکرین کی قیادت نے تمام یقین دہانیوں پر پورا بھروسا کیا اور ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونا قبول کرلیا۔
امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان‘ عراق‘ لیبیا اور شام کو تاراج کیا۔ افغانستان میں کیا تھا؟ وہاں ہتھیار تو کہاں سے ملنے تھے‘ بنیادی ڈھانچا بھی نہ تھا۔ نہتے‘ کمزور‘ تباہ حال ملک کو بھی امریکا اور اُس کے بدمست ساتھی یورپ نے نہ بخشا اور افغانوں پر قیامت ڈھانے پر تُل گئے۔ ایک دنیا یہ تماشا دیکھتی رہی۔ افغانستان کو کون سی مزاحمت کرنی تھی؟ ملک پہلے ہی برباد تھا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر خرابیوں کو دوچند کیا اور وہاں بیٹھ کر پورے خطے پر نظر رکھنے کا نظام تیار کیا۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ افغانستان میں گھس بیٹھنے کا بنیادی مقصد پورے خطے پر نظر رکھنا اور چین کو آگے بڑھنے سے روکنا تھا۔ افغانستان کے بعد عراق کی باری آئی۔ وہ بھی کمزور ملک تھا۔ تیل کی دولت نے عراقیوں کو خوشحالی ضرور دی تاہم اُن کی دفاعی صلاحیت و سکت برائے نام تھی۔ یہی سبب ہے کہ امریکا نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق کو بھی تاراج کیا۔ عراق سے نمٹنے کے بعد باری آئی لیبیا کی۔ انٹرنیٹ پر تلاش کیجیے کہ تو معلوم ہوجائے گا کہ معمر قذافی کے عہد میں لیبیا میں 25 ایسی سہولتیں عوام کو میسر تھیں جو اب کبھی ممکن نہیں بنائی جاسکیں گی۔ معمر قذافی کے بارے میں پروپیگنڈا کیا گیا کہ وہ عیاش ہیں اور اقتدار پر قابض ہیں۔ یہ کسی نے نہ دیکھا کہ معمر قذافی کے دور میں لیبیا کے عوام کو کیسی کیسی سہولتیں ملیں‘ کن کن مراعات سے نوازا گیا۔ تیل کی دولت سے محض اشرافیہ نے مزے نہیں لُوٹے بلکہ عام آدمی کو بھی بہت کچھ ملا۔ بہر کیف‘ مسلم دنیا تماشا دیکھتی رہی اور لیبیا کو بھی مٹی کا ڈھیر بنادیا گیا۔ لیبیا کا معاملہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس پر بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ عراق کی طرح لیبیا کے معاملے میں یہ الزام صریح جھوٹ ثابت ہوا۔
شام کا بنیادی قصور یہ تھا کہ وہ مغرب کی طاقت کے سامنے ٹک نہیں سکتا تھا۔ بس‘ اتنا کافی تھا۔ اگر شام تھوڑا سا بھی منہ دینے کی پوزیشن میں ہوتا تو اُس کی یہ حالت نہ ہوئی ہوتی۔ امریکا اور یورپ نے جنوبی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرح مشرقِ وسطٰی میں بھی چُن چُن کر کمزوروں کو نشانہ بنایا۔ اور کچھ اُس کے بس میں تھا ہی کہاں؟ اب یوکرین کو اس لیے نشانہ بننا پڑا ہے کہ اُس میں پلٹ کر بھرپور اور منہ توڑ قسم کا جواب دینے کی صلاحیت و سکت نہ تھی۔ روس محض ایٹمی قوت نہیں بلکہ دیگر بہت سے معاملات میں بھی یوکرین سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اور پھر دونوں کے درمیان تنازعات کی تاریخ بھی ہے۔ یوکرین پر روس کا دعویٰ ہے۔ زار کے عہد میں بھی تنازع برقرار رہا۔ سوویت یونین کی تشکیل کے بعد معاملہ دب سا گیا تاہم ختم نہیں ہوا۔ یوکرین کی قیادت کو جب اچھی طرح اندازہ تھا کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد کے ماحول میں اُن پر روس کی طرف سے حملہ ہوسکتا ہے تو ایٹمی ڈیٹیرنس (ردِ جارحیت) برقرار کیوں نہ رکھا؟ کسی کی یقین دہانیوں کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونا کیوں گوارا کیا گیا؟ اور پھر یقین دہانی بھی امریکا اور یورپ کی؟ جو اپنوں کے نہ ہوئے اُنہیں غیروں کا کیا ہونا تھا؟ امریکا نے کسی کو بھی دوست کب سمجھا ہے؟ اُسے کل بھی پارٹنرز درکار تھے اور آج بھی پارٹنرز ہی تلاش کرتا ہے۔ اور یہ پارٹنر شپ بھی وہ اپنے اصولوں اور مرضی کے مطابق چلاتا ہے۔ جیسے ہی معاملات ہاتھ سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں‘ امریکا نظریں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ ایک اچھی‘ بڑی ''طاقت‘‘ کی یہی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔
یوکرین کے کیس سے اب پوری دنیا کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اپنی بہترین دفاعی صلاحیت سے کسی بھی ملک کی یقین دہانی اور معاہدوں کی بنیاد پر دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔ یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ امریکا نے روس کے خلاف کوئی بھی کارروائی اس لیے نہیں کی کہ روس جواب میں بہت کچھ کرسکتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس بھی کمزور اور نہتے ممالک ہی کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں۔ طاقتور کے سامنے اِن کی بھی گِھگھی بندھ جاتی ہے۔ پاکستان کے لیے ایٹمی ہتھیار کل بھی زندگی اور موت کا مسئلہ تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ بھارت جیسے مخاصمت پسند ملک کو اگر پاکستان کے خلاف عسکری مہم جُوئیوں سے کسی بھی بات نے روک رکھا ہے تو وہ یہی ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پاکستان نے روایتی ہتھیاروں اور جنگ کے روایتی طریقوں کے معاملے میں بھی اپنے آپ کو ڈھیلا نہیں ہونے دیا مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بھارت کو اگر واقعی روک رکھا ہے تو ایٹمی ہتھیاروں نے۔
کسی بھی مشکل گھڑی میں کوئی ہماری کتنی مدد کرسکتا ہے یہ تو ہم نے 1971 ء میں بھارت کے خلاف جنگ کے موقع پر دیکھ ہی لیا تھا۔ ہم امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہ گئے اور بھارت نے کام دکھادیا۔ تب چین کی طرف سے تھوڑی بہت مدد ملی ہوگی مگر وہ فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکی۔ فیصلہ کن مدد کا ہمیں امریکا کی طرف سے انتظار تھا جو نہ مل سکی۔ دنیا بھر میں جتنے بھی ممالک کو اپنے اڑوس پڑوس سے خطرات لاحق ہیں اُن کے لیے یوکرین کی جنگ ایک واضح انتباہ ہے۔ اب کوئی بھی ملک محض یقین دہانیوں کی بنیاد پر چلنے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ تماشے بالآخر ہمہ گیر تباہی پر منتج ہوتے ہیں۔ یوکرین کی بے بسی دیکھیے کہ اُس سے ملحق ممالک بھی اُس کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ ثابت ہوا کہ طاقت کے سامنے صرف طاقت کا سِکّہ چل سکتا ہے‘ کوئی اور چیز کام نہیں آسکتی۔ امریکا اور یورپ نے جس طور دامن بچاتے ہوئے یوکرین کو جارحیت کی نذر ہونے دیا اُس سے پوری دنیا کو پیغام مل گیا کہ اپنا تحفظ یقینی بنانے کے لیے صرف اپنے زورِ بازو پر بھروسا کیا جانا چاہیے۔ یہ خوش فہمی بھی اب دور ہو جانی چاہیے کہ اکیسویں صدی کا ترقی یافتہ انسان روشن خیال‘ بالغ نظر اور فراخ دل ہے۔ یورپ نے لبرل ڈیموکریسی اور کھلے بازار کی معیشت کے نام پر جو ڈھونگ رچایا ہے اُس سے متعلق ہر غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے۔ کئی خطوں کو پامال کرکے اپنے آنگن میں پھول کھلانے والے امریکا و یورپ کے سامنے جب طاقت کی زبان میں بات کرنے والے آئے تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اب سب کو اپنی اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے سے بڑھ کر کسی بھی چیز کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔