ایک ماہ سے دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ کچھ نیا سامنے آیا ہے اور بہت کچھ پرانا ایسا ہے جس کا نام و نشان مٹتا جارہا ہے۔ بہت سے ممالک کے لیے فیصلے کی گھڑی اس طور آئی ہے کہ ادھر کھائی‘ اُدھر پہاڑ والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس وقت کئی ممالک الجھے ہوئے ہیں۔ ان میں بھارت بھی نمایاں ہے۔
یوکرین پر روسی لشکر کشی نے ایک قیامت سی ڈھادی ہے۔ مغربی حکومتیں تو ایک طرف ہیں اور واضح موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی کے نقطۂ عروج کے لمحات میں ماسکو کا دورہ کرکے مغرب کو پیغام دے دیا تھا کہ پاکستان جس ڈگر پر چلتا رہا ہے اُس پر مزید چلنے کے موڈ میں نہیں۔ عام حالات میں مغرب ہمیں ایسی کسی بھی جسارت پر آسانی سے نہ بخشتا مگر اس وقت امریکا اور یورپ کی اپنی حالت بُری ہے اس لیے ہمیں سبق سکھانے کی فکر میں مبتلا ہونے کے بجائے وہ خود سبق سیکھنے میں مصروف ہیں۔ روس کو ساتھیوں کی تلاش ہے۔ چین کے مفادات بھی داؤ پر لگے ہوئے ہیں مگر بہر کیف وہ روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر کیفیت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ ایک طرف ہیں اور دوسری طرف چین اور روس مل کر ایک نئے بلاک کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ ایشیائی ممالک ابھی اپنے آنگن میں واقع ان دونوں طاقتوں کا کُھل کر ساتھ نہیں دے رہے مگر وہ دن زیادہ دور نہیں جب اُنہیں واضح فیصلے کرنا ہوں گے اور ممکنہ طور پر روس اور چین ہی کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
روس کے لیے بھی یہ بہت مشکل گھڑی ہے۔ اپنی بات منوانے کے لیے اُس نے یوکرین پر چڑھائی کر تو دی ہے مگر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش زیادہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوئی۔ روس میں خاصا دم خم دکھائی دے رہا ہے۔ چین کا اُس کے ساتھ کھڑے رہنا بھی حوصلہ بڑھانے کے لیے کافی ہے۔ روس نے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے چند ایک فیصلے کیے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ مغرب کی چال کو اُلٹا کردے۔ اس کے لیے اُس نے بعض انتہائی پُرکشش پیشکشیں بھی کی ہیںمثلاً اُس نے بھارت کو خام تیل خاصے کم نرخ پر فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش نے مودی سرکار کو عجیب الجھن میں ڈال دیا ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس پیشکش کا جواب کیا اور کیسے دے۔
روس پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی یہ ہے کہ اُس سے تجارت کی جائے۔ اس وقت جو بھی روس سے کھل کر تجارت کرے گا اُسے بھی امریکا اور یورپ کی طرف سے ثانوی نوعیت کی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس نے بھارت کو سستے تیل کی پیشکش کرکے عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ بھارت کو کئی معاملات دیکھنے ہیں۔ سوال صرف سستے تیل کا نہیں بلکہ اُس کے نتیجے میں بھگتنے والے مہنگے عواقب کا بھی ہے۔
امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ اس وقت کوئی بھی روس کی طرف نہ جھکے۔ اور پھر بھارت؟ بھارت بھلا ایسا کیسے کرسکتا ہے جبکہ امریکا اُس کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے؟ اگر مودی سرکار روس سے سستا تیل خریدنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ امریکا اور یورپ کے خلاف جارہی ہے۔ امریکا نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ بھارت سستا تیل خرید کر روس کے ہاتھ مضبوط کرنے سے باز رہے۔
بھارت اور روس کے تعلقات سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے سرد رہے ہیں۔ سرد جنگ میں جب سوویت یونین موجود تھا تب بھارت کے اُس سے امتیازی نوعیت کے تعلقات تھے۔ تب بھارت نے وکٹ کے دونوں طرف کھیل کر فوائد بٹورے تھے۔ ایک طرف وہ امریکا اور یورپ کو بھی خوش رکھتا تھا اور اُن سے تجارت میں مصروف رہتا تھا اور دوسری طرف سوویت یونین سے بھی پینگیں بڑھاکر دفاعی ضروریات پوری کیا کرتا تھا۔ سوویت یونین کو خوش رکھنے کی خاطر بھارت نے سرد جنگ کے زمانے میں معیشت کو منضبط رکھا۔ معیشت کے کم و بیش ہر پہلو پر ریاست کا کنٹرول غیر معمولی تھا۔
1990ء میں سوویت یونین کی تحلیل پر بھارت کے لیے معیشت کو آزاد کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی۔ کنٹرولڈ معیشت کا ڈھانچا گراکر آزاد منڈی کی معیشت کو گلے لگانے کا ڈول ڈالا گیا۔ 1991ء میں بھارت نے ادائیگیوں کے توازن میں عدم موافقت ختم کرنے اور زرِ مبادلہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے پیکیج اس شرط پر حاصل کیا کہ معیشت پر ریاستی کنٹرول ختم کردیا جائے گا۔ بھارت کے لیے اب سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ چین اور روس بھی اُس کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ روس سے بھی بھارت کی تجارت کم نہیں۔ ایسے میں بھارت کے لیے فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے کہ ان دونوں کو خوش رکھا جائے یا مغرب کو۔ مغرب میں بھارت کے نالج ورکرز بڑی تعداد میں کام کر رہے ہیں۔ امریکا بھارتی برآمدات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی سرکار کو روس کی طرف جھکنے سے روک رہا ہے۔ اگر مودی سرکار روس سے سستا تیل خریدتی ہے اور اُس کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی جاتی تو پھر امریکا اور یورپ کا دنیا بھر میں تمسخر اڑایا جائے گا اور بالخصوص امریکا کی ساکھ مزید خراب ہوگی۔ یوکرین کو بچانے کے حوالے سے عملاً کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے امریکا اور یورپ نے دور ہی سے ہاتھ ہلاکر اظہارِ یکجہتی کرنے پر اکتفا کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں کو شدید نکتہ چینی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک اضافی مصیبت یہ بھی ہے کہ بھارت اگر روس سے سستا تیل خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے تو‘ روس پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے باعث‘ سَودا ڈالر میں نہیں ہوسکتا یعنی بھارت کو روبل یا روپے میں ادائیگی کرنا پڑے گی۔ اگر ایسا ہوا تو اضافی خدشہ اس بات کا ہے کہ چین بھی بھارت پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ دو طرفہ تجارت روپے اور یوآن میں کی جائے۔ ایسی صورت میں سعودی عرب اور دیگر ریاستیں بھی بھارت کو اپنی اپنی کرنسی میں ادائیگی کا پابند کرسکتی ہیں۔ یہ عمل ڈالر کی بے توقیری کا باعث بنے گا۔ اس وقت چین اور امریکا کے درمیان ایک بڑی جنگ ڈالر کے حوالے سے بھی لڑی جارہی ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ اُس کی کرنسی کا عالمی ریزرو کرنسی کا درجہ برقرار رہے‘ بے توقیر نہ ہونے پائے۔ دوسری طرف چین برابر اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طور ڈالر کی حیثیت گھٹائی جائے اور دیگر بڑی کرنسیوں کو بھی عالمی تجارت میں مرکزی یا کلیدی حیثیت دلائی جائے۔ امریکا کسی بھی طور نہیں چاہے گا کہ ''ڈی ڈالرائزیشن‘‘ کے عمل میں اُس کا کوئی قریبی تجارتی شراکت دار بالخصوص بھارت ملوث ہو۔
بھارت کی ایک اضافی الجھن یہ بھی ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس سے سرد چلے آرہے تعلقات کو تھوڑی بہت گرم جوشی بخشنے کا کوئی بھی اچھا موقع ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ سستے تیل کی پیشکش نے بھارت کو فیصلے کے اعتبار سے بند گلی میں کھڑا کردیا ہے۔ روس سے تیل نہ خریدنے کا واضح مطلب ہے کہ یوکرین کے بحران کی پیدا کردہ مجموعی کیفیت میں روس کے ساتھ کھڑے ہونے سے صاف انکار۔ بھارت کے لیے امریکا اور یورپ کی بات رکھ کر روس کی پیشکش ٹھکرانا ایسا آسان نہیں کیونکہ وہ آج بھی عسکری ساز و سامان کے حوالے سے غیر معمولی حد تک روس پر منحصر ہے۔ بھارتی فضائیہ کا روس پر زیادہ مدار ہے۔ ایسے میں روس کو بھی ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ مودی سرکار کے لیے یہ بہت عجیب موڑ ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہاں سے کس طرف کو جایا جائے۔ یوکرین کے بحران نے متعدد ایشیائی ممالک کو مجبور کردیا ہے کہ اب کوئی واضح فیصلہ کریں کہ ایشیائی بلاک کا حصہ بننا ہے یا امریکا و یورپ کا ساتھ دیتے رہنا ہے۔ یوکرین کے معاملے میں امریکا اور یورپ نے جو رویہ اختیار کیا ہے‘ اُس نے ایشیا اور افریقہ میں درجنوں ممالک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ بھارت جیسے مخمصے سے دوچار ممالک کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔