مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات پر بھارت میں کئی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ تازہ ترین ''کشمیر فائلز‘‘ ہے جس نے خاصا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بنائی جانے والی دوسری فلموں کی طرح اس کا موضوع بھی خاصا متنازع ہے۔ اس میں کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کے ''قتلِ عام‘‘ اور مقبوضہ وادی سے اُن کی مبینہ بے دخلی کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ بھارت بھر میں مسلمانوں نے یہ محسوس کیا کہ فلم میں پیش کیا جانے والا موقف یکطرفہ ہے یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں نے وہاں سے ہندوؤں کو بے دخل کیا۔ حقیقت یہ نہیں ہے! معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی کئی حکومتوں نے بالعموم اور بی جے پی کی حکومت نے بالخصوص شعوری کوشش کی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا توازن بگڑ جائے یعنی وہاں ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہو جائے۔ ایسے میں ہندوؤں کو وہاں سے نکالنے کا دعویٰ ایسا نہیں کہ آسانی سے حلق سے اتر جائے۔
''کشمیر فائلز‘‘ پر تنقید کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ فلم کے ذریعے پورے ملک میں ایک دیوار سی کھڑی کرنے کی کوشش کی گی ہے۔ دوسری طرف حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی بہت خوش ہے۔ اُسے مسلمانوں کو مطعون کرنے کا ایک موقع درکار تھا۔ فلم میکر وویک اگنی ہوتری نے یہ موقع فراہم کردیا۔ اب بی جے پی ''کشمیر فائلز‘‘ کی ڈگڈگی بجارہی ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اُن میں سے بیشتر میں اس فلم پر تفریحی ٹیکس معاف کردیا گیا ہے۔ لوگوں کو ٹکٹ سستا مل رہا ہے اور وہ بڑی تعداد میں سینما ہالز کا رخ کر رہے ہیں۔ بی جے پی اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں اور گروہ اس فلم کو ہندو نیشنل اِزم کی ایک واضح علامت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ بعض مقامات پر فلم کی مفت نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔ بی جے پی چاہے کچھ بھی کہتی پھرے اور ''سنگھ پریوار‘‘ سے تعلق رکھنے والی دیگر تنظیموں اور گروہوں کا موقف چاہے کچھ بھی ہو، غیر جانبدار مبصرین کی رائے یہ ہے کہ اس مرحلے پر یہ فلم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات دیکھتے ہوئے ایسی فلمیں بنانے سے گریز ہی کیا جانا چاہیے۔ اُن کے خیال میں اِس طرح کی فلموں سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا موقع ملتا ہے۔
بالی وُڈ کے معروف اداکار نانا پاٹیکر نے ''کشمیر فائلز‘‘ کی ریلیز پر خاصا مخالفانہ ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو مل کر رہنا ہے۔ وہ مل کر ہی رہتے آئے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ فلم معاشرے کو مزید تقسیم کردے گی اور یہ کہ اِس مرحلے پر نیا تنازع اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ نانا پاٹیکر ایسی فلموں میں کام کرتے رہے ہیں جن میں پیش کیے جانے والے مؤقف سے بھارتی مسلمان بھی متفق نہیں۔ موصوف نے کئی فلموں میں پاکستان کے خلاف جملے بازی بھی کی ہے مگر اِس مرحلے پر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیلے بھی اس فلم پر تنقید کرنے والوں میں سرِفہرست ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر میں پنڈتوں کا مبینہ قتلِ عام ہوا تھا تب مرکزی حکومت کو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی۔ ہندوؤں کا مبینہ قتلِ عام تو بی جے پی سے روکا نہ گیا اور اب وہ ایک ایسی فلم کو نواز رہی ہے جس میں صرف تشدد دکھایا گیا ہے، کوئی تصفیہ یا حل پیش نہیں کیا گیا۔ اِس سے معاشرے میں تفریق بڑھے گی۔ ایسی فلم بنانا اور نمائش کے لیے پیش کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ مودی سرکار کے عہد میں بھارت کے مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نریندر مودی بھول گئے ہیں کہ وہ پورے ملک کے یعنی ہر طبقے کے وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ہندو وزیراعظم ثابت کرنے پر توجہ دی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، کرنی سینا اور دیگر انتہا پسند تنظیموں اور گروہوں نے بھارت بھر میں ہندو انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ لوگ تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزریں۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی معاملات بہتر نہ ہوئے۔ بھارتی مسلمانوں نے مختلف بحرانی لمحات میں ثابت کیا ہے کہ وہ پورے معاشرے کا بھلا چاہتے ہیں۔ بہبودِ عامہ سے متعلق اُن کی خدمات ڈھکی چھپی نہیں مگر سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور گروہ ملک کو صرف اور صرف تنگ دِلی اور تنگ نظری کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
معروف ادیب اور فلم میکر گلزار نے 1990 کے عشرے میں ''ماچس‘‘ بنائی تھی جس میں کشمیریوں کی نئی نسل کی الجھنوں کو ڈھنگ سے بیان کرنے پر توجہ دی گئی تھی۔ گلزار صاحب پر مسلمانوں کی طرف جھکاؤ رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اِس کے بعد بھی کشمیر پر بنائی جانے والی فلموں میں بھی مسلمانوں کو مطعون کرنے سے مجموعی طور پر گریز ہی کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمان خود سکیورٹی فورسز کے نشانے پر رہے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں دہشت گرد قرار دینا دانش اور ضمیر‘ دونوں کے منافی ہے۔ بھارت میں ایسے غیر جانبدار اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے اہلِ دانش کی کمی نہیں جو بھارتی اسیٹبلشمنٹ کی اقلیت مخالف سوچ کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں اور اس حوالے سے کسی ابہام کا شکار نہیں۔ ارون دَھتی رائے معروف دانش اور ناول نگار ہیں۔ اُنہوں نے کشمیر اِشو پر ہمیشہ حقیقت پسندانہ موقف اپنایا ہے اور اُسے مین سٹریم میڈیا کے سامنے رکھنے میں کوئی قباحت، الجھن اور خوف محسوس نہیں کیا۔ بھارتی معاشرے کو اس وقت وہ باتیں درکار ہیں جن سے دلوں کو جوڑنے میں مدد ملے۔ مودی سرکار ہندو انتہا پسندی کو نقطۂ عروج پر پہنچائے ہوئے ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ کار اور سیکولر مبصرین حکومت کو مشورے دے رہے ہیں کہ اقلیت مخالف اور بالخصوص مسلم مخالف رویہ کرتے ہوئے ملک میں حقیقی قومی سوچ پروان چڑھانے پر توجہ دے مگر نریندر مودی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ ایسے میں خیر کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟
''کشمیر فائلز‘‘ جیسی فلمیں معاشرے کو مزید تقسیم کر رہی ہیں۔ بھارت میں پہلے ہی خاصی تنگ دِلی پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ مودی سرکار کی پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ پانچ ریاستی اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے امن پسند اور متوازن سوچ رکھنے والے بھارتی باشندوں کی نیند اُڑادی ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کا دوبارہ برسرِ اقتدار آجانا انتہائی خطرناک سمجھا جارہا ہے۔ بی جے پی ملک بھر میں یہ تاثر عام کر رہی ہے کہ ہندو خطرے میں ہیں اور اب اقلیتوں کو ہر قیمت پر غیر مؤثر بنانا پڑے گا۔ ''کشمیر فائلز‘‘ کی بی جے پی نے جس شدت کے ساتھ وکالت اور پبلسٹی کی ہے اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کو اب کس طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس فلم کے پیدا کیے ہوئے کھٹ راگ کا توڑ اِس صورت ممکن ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں ہر ریاست کے سلجھے ہوئے لوگ اپنا فرض سمجھتے ہوئے معاشرے کی تقسیم در تقسیم کا عمل روکنے کی خاطر سامنے آئیں، مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو پیغام دیں کہ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم ملک کو تنگ نظری، تنگ دِلی، انتہا پسندی اور جہالت کے گڑھے میں دھکیلنے کے درپے ہے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والوں کو سامنے آکر قوم سے کہنا ہے کہ ملک کی شاندار روایات اور تہذیبی میراث کو بچانے کی ایک ہی صورت ہے‘ وہ یہ کہ مودی سرکار کی پالیسیوں کو بھرپور ہم آہنگی اور امن پسندی کے ذریعے ناکام بنایا جائے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ بہت متحرک ہوکر کام کیا جائے۔ یہ کام فوری طور پر کیا جانا ہے۔
بھارت کے سابق وزیرِ خزانہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق قومی ترجمان یشونت سنہا نے 'انڈین ایکسپریس‘ میں ایک مضمون کے ذریعے سنجیدہ طبقوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت بھارت کا تہذیبی ورثہ تباہ کرنے کے درپے ہے۔ جو یشونت سنہا نے کی ہے ایسی کئی‘ متواتر کوششیں درکار ہیں۔