"MIK" (space) message & send to 7575

ناکوں چنے چبواتا وقت

ہر انسان کو قدرت کی طرف سے ہر روز چوبیس گھنٹے ملتے ہیں۔ کوئی اِن چوبیس گھنٹوں کو چھتیس گھنٹوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور کسی کے چوبیس گھنٹے محض دس‘ بارہ گھنٹے جیسے رہ جاتے ہیں۔ ہر انسان کو طے کرنا ہوتا ہے کہ وقت کو محض گزارنا ہے یا پھر بروئے کار لانا ہے۔ اِس سے آگے کا مرحلہ ہے وقت کی سرمایہ کاری۔ بھارت کے ایک مزاح گو نے گزشتہ دنوں کہا کہ جتنی بھارت کے ہمسایہ ممالک کی آبادی ہے‘ اُتنے لوگ ہمارے ہاں فری وائی فائی کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں! اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں کتنے لوگ موبائل فون پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایرکسن موبیلٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں عام آدمی روزانہ اوسطاً ڈھائی گھنٹے موبائل فون پر کھپاتا ہے یعنی ضائع کرتا ہے۔ ہر بھارتی اوسطاً ماہانہ 18 جی بھی موبائل ڈیٹا؍ وائی فائی انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بھارت بھر میں روزانہ کم و بیش ایک ارب گھنٹوں کے مساوی وقت کسی بھی نوعیت کی مثبت، نافع اور پیداواری سرگرمی کے بغیر ضائع ہو جاتا ہے! پاکستان میں بھی معاملات زیادہ مختلف نہیں۔ ہمارے ہاں بھی عام آدمی روزانہ اوسطاً دو گھنٹے سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ پر ضائع کر رہا ہے۔ نئی نسل کو خطرناک حد تک انٹرنیٹ کی لت پڑی ہوئی ہے۔ بہت محتاط اندازہ لگایا جائے تو ہر روز قوم کے کم و بیش 20 کروڑ گھنٹے ضائع ہو جاتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ یہی وقت نافع سرگرمیوں میں کھپایا جائے تو قوم کے معاملات کتنے بہتر ہوجائیں! کیا واقعی لوگوں کے پاس اِتنا فاضل وقت ہے؟ اور کیا وقت فاضل ہوسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم اُس دنیا کا حصہ ہیں جس میں وقت ہی سب کچھ ہے۔ کوئی یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ اُس کے پاس بہت وقت ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دیہی کلچر کے لوگ وقت کے بہت ہونے کو محسوس کیا کرتے تھے۔ اب وہاں بھی وقت کی کمی کا شدید احساس پایا جاتا ہے۔ دیہات میں بھی لوگ سمارٹ فون پر بہت وقت صرف کر رہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وقت مل ہی نہیں پاتا تو پھر لوگوں کو اِتنا فاضل وقت کیسے مل جاتا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، لوگ اب ''ملٹی ٹاسکنگ‘‘ کے عادی ہوگئے ہیں یعنی ایک وقت میں کئی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی موبائل فون پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اِسی طور بہت سے لوگ کسی مشین پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ موبائل پر گانے بھی سن رہے ہوتے ہیں۔ ایسی کسی بھی صورت میں کام کا معیار بگڑتا ہے۔ اگر کوئی کاریگر کام کے دوران موبائل فون پر لگا رہے گا تو اُس کی کارکردگی کا گراف گرے گا۔ اب اس حوالے سے سوچنے والے چند ہی رہ گئے ہیں۔ جب انسان بیک وقت کئی کام کرتا ہے تو کام کا معیار ہی نہیں گرتا‘ بدحواسی بھی پیدا ہوتی ہے، تھکن زیادہ ہوتی ہے اور طبیعت میں اضمحلال و اشتعال بڑھ جاتا ہے۔ بیک وقت کئی کام کرنے سے زیادہ بے عقلی کی روش کوئی نہیں۔ دانش مند وہ ہے جو دوسروں کا وقت خرید کر اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرتا ہے اور کامیابی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی وکیل اپنے مقدمات کی بہتر تیاری کرنا چاہتا ہے تو اُسے زیادہ وقت درکار ہوگا۔ اپنی گاڑی خود چلانے کے بجائے وہ ڈرائیور رکھ سکتا ہے۔ یوں سفر کے دوران وہ ٹریفک کی الجھنوں کے بجائے اپنے کیس کی فائل پڑھنے پر وقت صرف کرے گا اور عدالت میں حاضر ہوتے وقت زیادہ اچھی تیاری کی حالت میں ہوگا۔ اگر کسی کو زیادہ کام ملا ہو تو وہ سارا کام خود کرنے کے بجائے چند افراد کی خدمات حاصل کرے یعنی اُن کا وقت خریدے اور اپنے حصے کا کام زیادہ توجہ سے کرے۔ ایسی صورت میں وہ بہتر نتائج دے سکے گا۔
ہم اپنا دن چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے کا نہیں کرسکتے مگر ہاں، دوسروں کی خدمات خرید کر اپنے وقت کو مجموعی طور پر 96 گھنٹے کا بھی بناسکتے ہیں! کسی بھی بڑے کام کو مختلف مراحل میں تقسیم کرکے ہر مرحلے کے لیے کسی کی خدمات خرید کر ہم مطلوب نتائج قابلِ رشک بناسکتے ہیں۔ آج کل بہت سوں نے قطار بند رہ کر کمانے کا شعبہ بھی اپنایا ہوا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی حوالے سے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی باری اُسے دیتے ہیں جسے اپنا وقت زیادہ قیمتی لگتا ہو۔ یوں تھوڑی بہت کمائی ہو جاتی ہے۔ برطانیہ کا فریڈرک بیکٹ اس حوالے سے غیر معمولی شہرت کا حامل ہے۔ وہ دوسروں کے لیے قطار میں لگ کر یومیہ 30 ہزار روپے تک کما لیتا ہے! فریڈرک کا یہ دھندہ جز وقتی ہے۔ وہ مصنف ہے اور جب کسی قطار میں کھڑا ہوتا ہے تب بھی لکھتا رہتا ہے۔
بہت سے لوگ ''فومو فوبیا‘‘ کا شکار ہوتے ہیں یعنی اُنہیں کسی بھی چیز سے محروم رہ جانے کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قطار میں اپنی باری چھوڑنے والوں کو کچھ دے کر نمبر حاصل کرلیتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ اپنے وقت کو زیادہ قیمتی نہیں سمجھتے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ بیک وقت بہت سے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کام کرنے کا یہ ڈھنگ انتہائی نقصان دہ ہے۔ اپنے وقت کو بہتر انداز سے صرف کرنے کے لیے بچانا لازم ہے۔ ہمارے ہاں قطار میں لگنے والے افراد سے باری خریدنے سے کہیں زیادہ بلیک مارکیٹنگ کا رجحان عام ہے۔ اس طریق میں اخلاقی گراوٹ بھی ہے اور مالی نقصان بھی۔ لوگ اپنا وقت اس قدر ضائع کرتے ہیں کہ اُنہیں یہ سمجھانا کم و بیش ناممکن ہوگیا ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ جب لوگ اپنے وقت کو کسی کام کا سمجھتے ہی نہیں تو پھر دوسروں کا وقت خرید کر اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر کیوں مائل ہوں گے؟
دنیا بھر میں لوگ خوب محنت کرتے ہیں، اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاتے ہیں اور فرصت کے لمحات کو ترستے ہیں اور جب فرصت نصیب ہوتی ہے تو اُس سے خوب لطف کشید کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ لوگ کام سے بھاگتے ہیں اور جی بھرکے فرصت کے مزے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کام نہ کرنے کی صورت میں نصیب ہونے والی فراغت ہمیں کچھ بھی لطف نہیں دے پاتی۔ پانی کب لطف دیتا ہے؟ جب خوب پیاس لگی ہو! بالکل اِسی طور بھرپور محنت کے نتیجے میں واقع ہونے والی تھکن کا توڑ فرصت اور فراغت میں مضمر ہے۔ اگر انسان نے محنت ہی نہ کی ہو، تھکن طاری ہی نہ ہوئی ہو تو فرصت لطف نہیں دے پاتی۔ وقت کے حوالے سے دنیا بھر میں سوچنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ماہرین وقت کے بہترین استعمال سے متعلق سوچتے ہیں اور پھر اپنے نتیجہ فکر کو کتابی شکل میں سامنے لاکر لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں وقت کو حقیقی دولت سمجھنے کا رجحان اب تک پیدا نہیں ہوا۔ زندگی جیسی نعمت کو یوں ضائع کیا جاتا ہے گویا کوئی بات ہی نہ ہو۔ اس حوالے سے حکومت کچھ سوچتی ہے نہ عوام کے افکار و اعمال پر اثر انداز ہونے والے سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی قائدین ہی کوئی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
ہمارے معاشرے کو وقت کے نظم و نسق کے حوالے سے انقلابی نوعیت کی طرزِ فکر و عمل درکار ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ انتہائی قلیل تعداد میں ہیں جو وقت کو دولت یا نعمت سمجھتے ہیں۔ روزانہ چار پانچ گھنٹے کسی جواز کے بغیر انتہائی بے فیض سرگرمیوں میں کھپانا پورے معاشرے کا عمومی رجحان ہے۔ والدین، اساتذہ اور اہلِ دانش اپنے حصے کا کام بھول چکے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو دیکھا دیکھی ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ تھمنا چاہیے۔ وقت کی قدر دانی کا گراف بلند ہونا چاہیے۔ آج بھرپور شعوری کوشش کے ساتھ پوری قوم کو یہ سجھانے کی ضرورت ہے کہ حقیقی دولت صرف وقت ہے۔ جس نے وقت کی قدر کی وہی کامیابی سے ہم کنار ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں