ڈھائی‘ تین ماہ کے دوران ملک نے جو سیاسی اُچھل کُود اور اُکھاڑ پچھاڑ دیکھی اُس کے ہاتھوں پیدا کردہ گرد بیٹھی تو سہی۔ سیاسی بے چینی اور اشتعال کا بظاہر خاتمہ ہوا ہے تو اہلِ وطن کے دل تھوڑے سے مطمئن ہیں کہ چلیے کوئی ایک راہ تو متعین ہوئی، ایک نیا سیٹ اَپ تو آیا۔ عوام کے لیے کیا پرانا اور کیا نیا‘ سبھی ایک سے ہیں۔ عوام کے نصیب کے بادل آتے ہیں نہ برستے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے میں کامیابی کے بعد اب قائم ہونے والی حکومت کے سامنے بھی چیلنج ہی چیلنج ہیں۔ کوئی ایک محاذ ہو تو دھیان بھی دیا جائے۔ یہاں تو ہر معاملہ محاذ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ایک طرف ملک اندرونی عدم استحکام سے دوچار ہے اور دوسری طرف بیرونی محاذ پر بھی الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے‘ زمینی حقیقتوں سے انکار ممکن نہیں۔ اگر کوئی ان حقیقتوں سے صرفِ نظر کرتا ہے تو یہ اُس کی کوتاہی ہے۔
جو حکومت گئی‘ اُسے بھی مختلف محاذوں پر چیلنجز کا سامنا تھا اور اُس نے بھی اپنی سی کوشش کی۔ مسائل زیادہ ہوں تو کوششیں بالعموم رائیگاں جاتی ہیں‘ بالخصوص ایسی کوششیں جو نیم دِلانہ ہوں۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسے نہیں کہ سرسری لیے جائیں۔ بھرپور توجہ بھی لازم ہے اور اُن چیلنجز سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی بلکہ مثالی نوعیت کا جوش و خروش بھی ناگزیر ہے۔ ہم ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کے موڑ تک آچکے ہیں۔ ایسے میں عدمِ توجہ کا مطلب ہے اپنے آپ کو بھیانک انجام کے حوالے کر دینا۔ نئی حکومت کے لیے بھی چیلنج کم نہیں۔ کورونا کی وبا نے دو برس کے دوران معیشت اور معاشرت‘ دونوں کا بُرا حال کیا ہے۔ معیشت کو مکمل بحالی کی حالت میں لانا اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو حالیہ تین چار ہفتوں کے دوران شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ مبینہ خط کا معاملہ سامنے لائے جانے کے بعد سے ملک شدید غیر یقینی کیفیت سے دوچار رہا۔ سٹاک مارکیٹ پر اِس صورتِ حال کا شدید منفی اثر مرتب ہوا۔ برآمدات بھی متاثر ہوئیں۔ پوری قوم خلجان میں مبتلا تھی۔ جو حکومت چلی گئی وہ خود کو بچانے کی کوشش میں باقی تمام معاملات کو بھلا بیٹھی تھی۔ کسی کو معیشت کی ابتری سے بظاہر کچھ غرض نہ تھی۔ لگتا تھا سب یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ آٹو سسٹم کے تحت سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا۔ کاروباری طبقہ پہلے ہی بہت پریشان تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران دو سال تک صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوئی تھیں وہ تو اب نہیں رہیں مگر ہم مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ سکتے۔ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے میں ابھی وقت لگے گا۔ برآمدات کا شعبہ اب تک مکمل بحالی کی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ بیروزگاری کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ سرکاری شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا آسان نہیں۔ بجٹ خسارہ پہلے ہی اچھا خاصا ہے۔ ایسے میں غیر ضروری طور پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صورت میں قومی خزانے پر بوجھ بڑھے گا جو آخرِ کار عوام تک منتقل کرنا پڑے گا۔ سرکاری مشینری کی کارکردگی پہلے ہی اطمینان بخش نہیں۔ اگر نفری بڑھاکر عوام پر بوجھ بڑھایا گیا تو معاملات بہت بگڑ جائیں گے۔
شہباز شریف نے ملک کی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے۔ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ انتظامی مشینری سے کس طور کام لینا چاہیے یہ انہیں خوب آتا ہے۔ انتظامی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت اپنی جگہ اور تین عشروں پر محیط سیاسی تجربہ اپنی جگہ‘ شہباز شریف کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ عمر کے اِس مرحلے میں بھی، بعض عمومی عوارض کی پیدا کردہ پیچیدگیوں کے باوجود، بہت پُرجوش، فعال اور عمل نواز ہیں۔ اُن کا عمل نواز رویہ پہلے بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ وہ خود بھی متحرک رہتے ہیں اور اپنے متعلقین کو بھی متحرک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوم نے نئی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کیں۔ عقلِ سلیم کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اِس حکومت کو پارلیمنٹ کی باقی ماندہ میعاد پوری کرنی ہے۔ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ سال سوا سال میں کوئی بڑا تیر نہیں مارا جاسکتا۔ چھوٹے تیر البتہ مارے جاسکتے ہیں اور شہباز شریف کو اس طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ اپنے نام کامیابی کی فہرست میں صرف اِس صورت لکھوا سکتے ہیں کہ بڑے بڑے دعوے کرنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے عوام کے لیے تھوڑی بہت راحت کا اہتمام کریں۔ دو چار بنیادی چیزیں بھی عوام کو سستی مل جائیں تو اُن کے آنسو پُنچھ جائیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو بڑے دعوے اور وعدے ہی لے ڈوبے۔ عوام کو بہت کچھ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ عوام بھی جانتے تھے کہ یہ سب کچھ ممکن نہیں۔ اگر تھوڑی بہت راحت دینے کا وعدہ کیا جاتا تو عوام کو یقین بھی آ جاتا کہ خان صاحب کچھ کر گزریں گے۔ رہی سہی کسر ٹیم کی ناقص کارکردگی نے پوری کردی۔ بہر کیف‘ جو ہوا سو ہوا۔ یہ وقت بیتے دنوں کے ماتم کا نہیں۔ قوم کو جو مشکلات درپیش ہیں اُن سے نمٹنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ قومی خزانے کو نقصان ہر دور میں پہنچتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی بہت سے معاملات قابلِ اعتراض تھے۔ پارلیمنٹ کی باقی ماندہ میعاد کے لیے قائم ہونے والی حکومت کو بہت کچھ نہیں کرنا‘تھوڑا سا ہی کرنا ہے اور بطریقِ احسن کرنا ہے تاکہ قوم کو تھوڑی بہت مثبت تبدیلی دکھائی دے۔ جانے والوں کو رونے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دستیاب وسائل کا بہترین استعمال یقینی بناتے ہوئے قوم کے لیے راحت و فرحت کا سامان کرنے پر متوجہ ہوا جائے۔
جو حکومت رخصت ہوچکی اُس نے اپنے آخری ایام میں خارجہ پالیسی کے محاذ پر جو مہم جُوئی اور معرکہ آرائی کی تھی وہ اپنی نوع کے اعتبار سے نئی بھی تھی اور پریشان کن بھی۔ امریکا کے معاملے میں جو رویہ اختیار کیا گیا وہ عقلِ سلیم کے تقاضوںکے منافی تھا۔ پاکستان کو ہر دور میں امریکا سے شکایات رہی ہیں۔ واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکا نے اپنے مفادات سے مطابقت رکھنے والی ترجیحات ترتیب دیں اور اُنہی کے مطابق ہمیں اور دوسرے ممالک کو برتا ہے۔ ہم آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔
ہمیں اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے مگر جب کوئی قوم سر سے پاؤں تک قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہو تو خم ٹھونک کر بات نہیں کرسکتی۔ بہت سے معاملات میں دَبنا بھی پڑتا ہے۔ دَبنے اور مصلحت سے کام لینے میں بہت فرق ہے۔ پاکستان جہاں کھڑا ہے وہاں وہ مصلحت کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمیں جھیلنا پڑتا ہے اور جھیلنا پڑے گا۔ اِس کا مطلب اپنی آزادی و خود مختاری سے دستبردار ہونا نہیں۔ بین الریاستی معاملات میں ہاتھ پاؤں بچاکر چلنا پڑتا ہے۔ اور اب معاملہ تو واحد سپر پاور سے معاملت کا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہوچکی ہے مگر اِس حقیقت سے بھی تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم اِس گھٹتی ہوئی قوت والے امریکا سے بھی براہِ راست متصادم نہیں ہوسکتے۔ یہ بہت بعد کا مرحلہ ہوسکتا ہے۔ اِس وقت تو صرف عقلِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلقات اُستوار رکھنے ہیں اور اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں رکھنا ہے کہ بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورتِ حال میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایک ایک قدم احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جذباتیت سے واضح طور پر گریز کرتے ہوئے بیرونی معاملات میں ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے جس میں غیر حقیقت پسندی بھی نہ ہو اور بلا جواز فرمانبرداری بھی نہ جھلکے۔ یہ تنے ہوئے رَسّے پر چلنے جیسا معاملہ ہے۔ قوم نتائج چاہتی ہے مگر اُسے بھی غیر ضروری بے صبری کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ نئے سیٹ اَپ کو معاملات سمجھنے اور سنبھالنے کا وقت ملنا چاہیے۔