جینے کو ہم‘ آپ سبھی جی رہے ہیں۔ کیا محض جینے کو زندگی کہا جاسکتا ہے؟ سانسوں کا تسلسل زندگی کہلا سکتا ہے؟ سانسوں کا ربط برقرار رہنا صرف کہنے کی حد تک زندگی ہے۔ یہ خالص حیوانی سطح ہے۔ درندوں، چرندوں اور پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے مخصوص مقاصد کے تحت خلق کیا ہے۔ وہ ہمارے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور اپنے قیام کی مدت پوری ہونے پر رخصت ہو جاتے ہیں۔ ہر دور کے‘ ہر معاشرے میں بہت سے انسان بھی خالص حیوانی سطح پر زندگی بسر کرتے پائے گئے ہیں۔ یہ جینے کا آسان ترین طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حیوانوں کو ایک خاص نظم کے تحت خلق کیا ہے۔ اُن پر سوچنے، سمجھنے اور کسی بھی معاملے میں پہلے سے تیار رہنے کی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی۔ دیگر کسی بھی مخلوق کے لیے ماضی کی کچھ اہمیت ہے نہ مستقبل کی۔ نہ ہی اُنہیں اس حوالے سے سوچنے کی صلاحیت ہی عطا کی گئی ہے۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور سانسوں کا کوٹہ پورا کرکے دنیا سے چل دیتے ہیں۔ انسانوں کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ ہم حیوانوں کی سطح پر جی تو سکتے ہیں اور جیتے بھی ہیں مگر اِسے کسی بھی درجے میں زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کسی بھی انسان کو محض اس لیے خلق نہیں کیا گیا کہ سوچے سمجھے بغیر جیے، سانسوں کی گنتی پوری کرے اور دنیا سے چل دے۔ انسان پر اپنے ماحول اور باقی دنیا کو سمجھنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ ماحول سے بے تعلق رہتے ہوئے جینا کسی بھی اعتبار سے زندگی کہلائے جانے کا مستحق نہیں۔ انسانوں کے لیے لازم ہے کہ مل جل کر رہیں، ایک دوسرے کے دُکھ درد کو سمجھیں، اُسے کم کرنے کی کوشش کریں، اشتراکِ عمل کے ذریعے اپنے اور دوسروں کے مسائل حل کریں کیونکہ روئے ارض پر رہنے کے لیے جو سانسیں عطا کی گئی ہیں اُن کا حساب لیا جانا ہے۔ حساب کتاب کے دن پوچھا جائے گا کہ زندگی ایسی نعمت کو کس طور بروئے لایا گیا، کس حد تک اپنا بھلا کیا اور کس قدر دوسروں کے کام آئے۔ انسان کے لیے جینے کے کئی ڈھب ہوسکتے ہیں۔ ہر انسان اپنے طور پر جینے کی کوشش کرتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ زندگی میں کچھ نہ کچھ تنوع دکھائی دے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر معترض ہوا جائے۔ ہاں! مقصدیت کو فراموش نہ کیا جائے تو زندگی بسر کرنے کا کوئی بھی طریق قابلِ اعتراض نہیں۔ انسان کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے طے کردہ اصولوں کے مطابق جیے یعنی زندگی میں مقصدیت نمایاں ہو۔ ہمارے خالق کی منشا یہ ہے کہ محض سانسوں کی گنتی پوری نہ کی جائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، اپنا کام بھی ڈھنگ سے کیا جائے اور دوسروں کے لیے معاون بھی ثابت ہوا جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے دوسروں کے کام آنا اُسی وقت ممکن ہے جب وہ پہلے اپنے لیے کام کا ثابت ہو۔ زندگی تحرّک کا نام ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی پر کائی جم جاتی ہے‘ یہ کیچڑ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ٹھہرا ہوا انسان زمانے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسروں کے لیے کچھ کیا کرنا ہے‘ ایسا انسان اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر پاتا۔
ہر دور کے اہلِ علم و فن نے عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے لیے بہت سے مشوروں سے نوازا ہے۔ فی زمانہ شخصی ارتقا ایک باضابطہ موضوع ہے جس پر تحقیق بھی بہت ہوئی ہے اور لیکچرز، مضامین اور کتب کے علاوہ مذاکرے، مباحثے اور سیمنارز وغیرہ بھی دستیاب ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں شخصی ارتقا کے لیے بہت کچھ کیا جارہا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ ہر انسان اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے قابل ہو جائے تاکہ معاشرہ اُس سے مستفید ہو۔ ان پروگرامز کی مدد سے‘ کسی نصاب کی تکمیل کی صورت میں انسان اپنی فکری ساخت میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں زندگی کا ایک نیا چہرہ سامنے آتا ہے۔ ہمارے ہاں شخصی ارتقا کا کلچر اب تک عام نہیں ہوا۔ شخصی ارتقا اور سیلف ہیلپ کے حوالے سے بازار میں کتب تو دستیاب ہیں؛ تاہم عوام میں اب تک وہ جوش و جذبہ پیدا نہیں ہوا جو اس حوالے سے مطلوب ہے۔
زندگی کا اصل رنگ و روپ اُس وقت نکھرتا ہے جب وہ تحرّک سے ہم کنار ہوتی ہے۔ تحرک ہی زندگی کی آن بان اور شان ہے۔ زندگی کو حقیقی معنوں میں زندگی بنانے والا تحرک خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے بارے میں سوچتا ہے، کائنات سے اپنے تعلق پر غور کرتا ہے، ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اپنے آپ کو زیادہ کارآمد بناکر دوسروں کے کام آنے کی ذہنیت کا آپشن اپناتا ہے تب کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ یہ لگن اُسی وقت پروان چڑھتی ہے جب انسان لگے بندھے معمولات سے ہٹ کر جینے کی طرف جاتا ہے۔ معمولات کے پنجرے میں قید ہوکر زندگی بسر کرنے والوں کو آپ زندگی کی حقیقی لگن سے عاری پائیں گے۔ 1950 کے عشرے میں راج کپور کی فلم ''شری 420‘‘ کے لیے مکیش کمار ماتھر کا گایا ہوا گیت ''میرا جوتا ہے جاپانی‘ یہ پتلون انگلستانی‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس گیت کے ایک انترے کا مصرع ہے ع
چلنا جیون کی کہانی‘ رُکنا موت کی نشانی
کیا بات ہے! چلنا یعنی تحرک! یہی تو زندگی ہے۔ رُکنا یعنی بے عملی کی زندگی بسر کرنا موت کے برابر ہے۔ رُکی ہوئی، ٹھہری ہوئی زندگی جوہڑ کی طرح ہوتی ہے۔ کسی بڑے گڑھے میں رُکا ہوا، ٹھہرا ہوا پانی جوہڑ کہلاتا ہے۔ ایسے پانی میں زندگی نہیں ہوتی۔ ٹھہرے ہوئے پانی پر کائی جمتی ہے اور پھر پورا پانی کیچڑ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ٹھہری ہوئی زندگی بھی کسی کام کی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی جیسی نعمت اس لیے تو عطا نہیں کی کہ ہم اُسے بہتے پانی کی طرح کارآمد و بارآور بنانے کے بجائے جوہڑ میں تبدیل کردیں، کیچڑ بناکر یکسر بے مصرف چھوڑ دیں؟ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی کامیاب معاشرے کا پوری دیانت، جاں فشانی اور باریک بینی سے جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کامیابی کے حصول کا صرف ایک راستہ ہے ... متحرک ہونا۔ متحرک ہونے ہی سے بگڑے ہوئے کام بنتے ہیں اور بنتے کام سنورتے ہیں۔ تحریک و تحرّک ہی سے معاشرے زندہ رہتے اور پنپتے ہیں۔ زندگی کو مقصدیت سے ہم کنار رکھنے کی لگن انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ لگن ہی زندگی میں حقیقی معنویت پیدا کرتی ہے۔ ہر کامیاب انسان کو آپ متحرک پائیں گے اور جو متحرک ہو وہ کامیاب نہ ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔
آج کی دنیا ہر شعبے میں غیر معمولی تحرک سے عبارت ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی بھی کام کرنے کی جتنی لگن سے متصف ملتا ہے اُتنی لگن کے حامل افراد ہمارے ہاں بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ رویہ ہی ہمیں کچھ کرنے کی تحریک عطا کرتا ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے جو سنجیدگی ہونی چاہیے وہ ہمارے ہاں دکھائی نہیں دیتی۔ اس دنیا میں قیام ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسے ہم کوئی میلہ دیکھ رہے ہوں۔ ہم صرف میلہ دیکھنے نہیں آئے بلکہ اِس میلے کی رونق اور افادیت میں اضافہ کرنے کیا فریضہ بھی ہمیں ادا کرنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم عمل نواز طرزِ فکر کے حامل ہوں۔ عمل سے محبت ہی انسان کو اس دنیا کی رونق میں اضافے کا اہل بناتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جو ہر آن بدلتی رہی ہے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔ دنیا کا بدلتے رہنا اور بہتر ہوتے جانا اس امر کی بدولت ہے کہ گوناگوں صلاحیتوں کے حامل افراد اپنے عمل سے اِس کی رونق بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ دنیا کو صرف اَپ ڈیٹ نہیں کرنا‘ اَپ گریڈ بھی کرنا ہے۔ دنیا کا اَپ گریڈ کیا جانا اس امر سے مشروط ہے کہ اِس میں بسنے والے اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ اور کمر بستہ ہوں۔ پاکستان جیسے معاشروں کی بقا یقینی بنانے کی ایک ہی صورت ہے ... عمل نواز طرزِ فکر اپنائی جائے، سنجیدہ رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے اور جس وقت جتنی محنت کرنا لازم ہو اُتنی محنت ضرور کی جائے۔ جمود سے دنیا کا انفرادی سطح پر بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور دنیا کی رنگا رنگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک بروقت ہو جائے تو اچھا۔