"MIK" (space) message & send to 7575

ذرا ذہن تو لڑائیے

ہر عہد بہت سی ایسی خصوصیات کا حامل پایا گیا ہے جو اُس سے قبل نہیں پائی گئیں۔ آج کا عہد بھی اس معاملے میں انوکھا نہیں یعنی آج بھی ایسا بہت کچھ ہے جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ بالکل فطری بات ہے کیونکہ ہر عہد ذہن کی نئی بلندی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ کسی بھی گزرے ہوئے عہد کے مقابلے میں آج لوگ زیادہ مستعد اور مختلف النوع چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ تیار اور توانا ہیں۔ ہر عہد اپنے لیے ساتھ چند ایسے تقاضے بھی لاتا ہے جنہیں نبھانے ہی پر زندگی کا حسن نکھرتا ہے، معیار بلند ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں لوگ بہت سے چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہر شعبے میں بے مثال ترقی ممکن بنائی جاچکی ہے۔ ہر شعبے کی ترقی اپنے ساتھ چند الجھنیں بھی لاتی ہے۔ الجھنوں کو محض الجھن سمجھ کر قبول کیا جائے تو اُن سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اور اگر اِن الجھنوں کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا جائے تو ڈٹ کر اُن کا سامنا کرنے اور اُنہیں ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کا ذہن بنتا ہے۔ ہر چیلنج ہم سے ایسی ہی ذہنیت کا طالب ہے۔
فی زمانہ ایسا بہت کچھ ہے جو ہم سے ذہن کو متحرک کرنے کا تقاضا اور مطالبہ کرتا ہے۔ یہ بھی بالکل فطری امر ہے کیونکہ کسی بھی گزرے ہوئے دور کے مقابلے میں آج کا عہد ذہن کے وسیع تر استعمال سے عبارت ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کی دنیا صرف اُن کے لیے ہے جو ذہن لڑانے کے بارے میں سوچتے ہیں، ذہن سے کام لیتے ہوئے اپنے مسائل حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہت سے شعبوں میں صرف ذہن کو بروئے کار لانے سے بات بنتی ہے۔ جسمانی محنت و مشقّت اپنی جگہ مگر ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان ذہن سے کام لیے بغیر ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ ذہن سے کام لینے کا مطلب کیا ہے؟ کیا ہم یومیہ بنیاد پر ذہن کو بروئے کار لانے کی کوشش نہیں کرتے؟ کیا ذہن سے کام لینا عمومی زندگی سے ہٹ کر کوئی بات ہے؟ کیا ہمارے معمولات ذہن کو بروئے کار لانے سے عبارت نہیں؟ اِن سوالوں کے جواب میں بہت آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم عمومی سطح پر ذہن کو بروئے کار تو کیا لائیں گے، ایسا کرنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں!
ذہن کو بروئے کار لانا ایک باضابطہ عمل ہے۔ جو کچھ ہم معمولات کے دوران کرتے ہیں وہ لازمی طور پر ذہن کو بروئے کار لانا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمومی سطح پر ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خالص حیوانی سطح کی عقل ہے۔ دوسرے بہت سے حیوانوں کی طرح انسان بھی حیوان ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسان سوچنے اور بولنے والے حیوان ہیں۔ عام حیوان کو عقل کی جس سطح پر خلق کیا گیا ہے وہ سطح ہم میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ تو کم از کم والا معاملہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت عقل کی عمومی سطح ہی پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتی رہی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب ہم ذہن کو بروئے کار لانے اور اپنے فکر و عمل کا معیار بلند کرنے پر متوجہ نہیں ہوں گے تو کسی بھی معاملے میں مطلوب نتائج بھی یقینی نہیں بنائے جاسکیں گے۔ بیشتر انسانوں کا یہی معاملہ ہے۔ خالص حیوانی سطح پر جس قدر عقل درکار ہوتی ہے اُس سے کہیں زیادہ عقل انسانوں کو عطا کی گئی ہے۔ انسان جب اپنے کسی بھی کام میں ذہن پر زور دیتا ہے تب اُس پر بہت کچھ روشن ہوتا ہے۔ عام حیوانات دانش کے مکلّف نہیں یعنی اُنہیں لمحۂ موجود میں جینے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ ہمارے ماحول میں پائے جانے والے تمام حیوانات ''جیسا ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر جیتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی گزرے ہوئے زمانے کا غم پالتے ہیں نہ آنے والے کسی زمانے کے بارے میں سوچ کر کڑھتے ہیں۔ سوچنا حیوانات پر فرض ہی نہیں کیا گیا۔ انسانوں کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ انسانوں کو ہر معاملے میں سوچنے اور سمجھنے کا مکلّف بنایا گیا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر جینا خالص حیوانی سطح ہے۔ اگر کوئی انسان اِس سطح پر جی رہا ہے تو گویا اپنے مقصدِ تخلیق کے خلاف جارہا ہے۔ ہمارے رب کی منشا ہے کہ ہم اپنے ماحول کو دیکھیں، اپنے وجود پر غور کریں، اپنی ذمہ داریوں سے بطریقِ احسن عہدہ برآ ہونے کی کوشش کریں، اپنے لیے بھی کچھ کریں اور دوسروں کے لیے بھی۔ یہ سب ناگزیر ہے۔ اگر کوئی ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے تو گویا کفرانِ نعمت کرتا ہے۔ ہمارے رب نے ہمیں اس طور جینے کے لیے خلق ہی نہیں کیا۔ ہمیں زندگی ایسی نعمت عطا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں، جو کام رب نے ہمارے ذمہ لگایا ہے وہ کریں اور اِس دنیا کا معیار بلند کریں۔
ہر عہد کے انسان نے ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کا معیار بلند کرنے پر توجہ دی ہے۔ جن لوگوں نے دل جمعی اور بھرپور لگن کے ساتھ ایسا کیا ہے اُنہیں اللہ نے دنیا کی امامت کے شرف سے بھی نوازا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف اقوام کو دنیا کی امامت ملی۔ یہ امامت تب تک برقرار رہی جب تک متعلقہ اقوام نے رب کی مرضی کے مطابق کام کیا، اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا کیا، دنیا کو زیادہ بارونق اور پُرکشش و آرام دہ بنانے پر متوجہ رہیں۔ جب بھرپور طاقت اور ترقی نے عیش و عشرت کی زندگی کا جال بچھاکر طاقتور اقوام کو پھانس لیا تب اللہ تعالیٰ نے بازی پلٹ دی۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ جس قوم کا سورج نصف النہار ہی پر رہتا تھا وہ صدیوں کے لیے اندھیروں میں ایسی ڈوبی کہ لوگوں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا کہ اُس کا سورج اب کبھی طلوع بھی ہوسکے گا۔ ذہن سے کام لینا کم و بیش ہر انسان پر فرض ہے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے زندگی کا حسن نکھرتا ہے، اُس کی افادیت اور معنویت بڑھتی ہے۔ جب لوگ ذہن سے کام لینے کے عادی ہوں تو معاشرہ تیزی سے پروان چڑھتا ہے۔ ذہن سے کام لینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے چند ایک امور لازم ہیں۔ سب سے بڑی ضرورت ہے مطالعہ! جو لوگ پڑھتے ہیں وہی ذہن سے بطریقِ احسن کام لینے کے بارے میں سوچتے ہیں، اس حوالے سے ذہن بنا پاتے ہیں۔ مطالعہ انسان کو سکھاتا ہے کہ کس طور ذہن سے کام لیتے ہوئے زندگی کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی لازم ہے۔ مشاہدہ یعنی اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بغور دیکھنا، اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرنا۔ مطالعہ اور مشاہدہ دونوں ہی محنت طلب عمل ہیں اس لیے لوگ اِن سے بھاگتے ہیں۔ عام آدمی ذہن کی عمومی سطح پر جینے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ سوچنے کی صورت میں دماغ پر بوجھ پڑتا ہے! کسی بھی معاملے میں منظّم اور مربوط سوچ اپنانے سے لوگ بالعموم اس لیے بھاگتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اُن کے معمولات بگڑتے ہیں، لگی بندھی سوچ میں خلل واقع ہوتا ہے! لوگ جو کچھ اپنے لیے طے کرلیتے ہیں اُس میں کسی بھی نوع کی تبدیلی کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔
ترقی یافتہ معاشروں پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن میں عام آدمی ذہن کے اعتبار سے کوئی توپ نہیں ہوتا مگر بالکل عمومی یا حیوانی سطح سے کچھ بلند ہوکر جیتا ہے۔ وہ منظم زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اِس کے لیے ذہن کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا ماحول ہر انسان کو بیدار ذہن کے ساتھ زندہ رہنے کی تحریک دیتا رہتا ہے۔ لوگ سوچ سمجھ کر جینے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ عمومی سطح پر وہ کوئی بھی کام بے ذہنی سے نہیں کرتے۔ عمومی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور بہترین متبادل تلاش کیا جائے اور اُسے رُو بہ عمل بھی لایا جائے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت خالص بے ذہنی کی حالت میں ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر جی رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے معاملات خرابی کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں مگر کسی کو جیسے کچھ پروا ہی نہیں۔ یہ زمانہ صرف اور ذہن کو بروئے کار لانے سے عبارت ہے۔ جس نے ذہن کو نظر انداز کیا سمجھیے دُنیا نے بھی اُسے بھلادیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں