ایک زمانہ تھا جب ہم پر بھی عہدِ شباب تھا اور ہم بھی بھرپور جوش و خروش کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر کمر بستہ رہتے تھے۔ اُسی بھرپور جوش و خروش کے عالم میں لکھنے کی ابتدا کی تھی اور جی چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے‘ سب کا سب پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دیا جائے۔ بسیار نویسی کی عادت تب کی ہے۔ یہ ہم 1985ء کے اواخر کی بات کر رہے ہیں۔ تب زندگی کی رفتار خاصی کم تھی۔ معاشرے میں مجموعی طور پر ٹھہراؤ اور سکون تھا۔ لوگ ہڑبونگ سے ''آراستہ‘‘ زندگی بسر کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ابھی آئی نہیں تھی‘ اس لیے اخبارات میں بھی پرانے، پُرسکون انداز سے کام ہوا کرتا تھا۔ ہر اخباری دفتر میں سب سے زیادہ جگہ کاتب گھیرا کرتے تھے کیونکہ اُن کی فوجِ ظفر موج لکھنے میں مصروف رہتی تھی۔
جب ہم نے کراچی کی اخباری دنیا میں قدم رکھا تب کچھ شائع کرانا آسان نہ تھا کیونکہ اخبارات چند ایک ہی تھے۔ اخبارات و جرائد کے ڈیکلریشن مشکل سے ملا کرتے تھے‘ تب ہر چیز کنٹرول میں تھی۔ میڈیا پر حکومت کا کنٹرول کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ نام نہاد آزادی کے نام پر کچھ بھی کہنے اور کچھ بھی کر گزرنے کی اجازت نہ تھی۔ لوگ کسی کی پگڑی اُس وقت اُچھالتے تھے جب ایسا کرنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ محض دل پشوری کے لیے کسی کو ہدفِ استہزا بنانے کا چلن عام نہ ہوا تھا۔ اُسی زمانے میں کہ جب قتل و غارت کی سیاست پروان چڑھ رہی تھی اور معاشی استحکام کے باوجود سیاسی انتشار بڑھتا جارہا تھا‘ شاہد خان مرحوم کی وساطت سے ہم محترم رئیسؔ امروہوی کے تلامذہ میں شامل ہوئے۔ شعر گوئی کا شوق تھا جسے اُستادِ محترم نے خوب پروان چڑھایا۔ حوصلہ افزائی بھی کی اور راہ نمائی بھی۔ رئیسؔ صاحب کی بیٹھک کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا تھا۔ لوگ آتے تھے، گھنٹوں بیٹھتے تھے، رئیسؔ صاحب سے بتیاتے تھے، اُنہیں اپنے نتائجِ طبع بھی دکھاتے تھے، رائے لیتے تھے اور مطمئن ہوکر لوٹتے تھے۔
رئیسؔ صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ کچھ کہے بغیر بہت کچھ بیان کردیتے تھے اور سکھانے کی شعوری کوشش کے بغیر بھی بہت کچھ سکھا دیا کرتے تھے۔ اُن کے ''دربار‘‘ میں آنے والے نوجوان علم و دانش کے موتی لے کر جاتے تھے۔ معروف شعرا، ادیبوں، صحافیوں اور اساتذہ کا رئیسؔ صاحب کے ہاں آنا جانا تھا۔ ہم جیسے مبتدی خاموش بیٹھ کر بڑوں کی گفتگو سُنا کرتے تھے اور اپنی قسمت پر ناز کرتے تھے کہ ایسی شاندار، سنجیدہ علمی بیٹھک کا حصہ بننے کا موقع مل رہا ہے۔ آج وہ بیٹھک یاد آتی ہے تو بہت عجیب سا لگتا ہے کہ یہ ہم کس کباڑ خانے میں جی رہے ہیں! کچھ بھی تو نہیں بچا۔ تب اہلِ علم و فن کسی کو مستفید کرنے میں بُخل سے کام لیتے تھے نہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ہر وقت مال بٹورنے کی فکر میں غلطاں رہنے کی بیماری تب کسی کسی کو لاحق ہوتی تھی۔ لوگ چاہتے تھے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں عطا کیا ہے وہ دوسروں تک پہنچایا جائے، جو کچھ سکھایا جاسکتا ہے وہ ضرور سکھایا جائے۔ اور یوں انتقالِ علم و فن کا عمل جاری رہتا تھا۔
رئیسؔ صاحب کے ہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اُنہی سے سیکھا کہ کس طور خاموش رہ کر بھی بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے! رئیسؔ صاحب صرف ضرورت کے مطابق لب کُشا ہوا کرتے تھے۔ لہجہ دھیما تھا اور الفاظ کم سے کم۔ خاکسار کا اپنا مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی بھی فضول بات اُن کے منہ سے شاذ و نادر ہی نکلی ہو۔ کسی کی دل آزاری والی کوئی بات وہ نہیں کرتے تھے۔ کسی کو ہدفِ استہزا نہیں بناتے تھے۔ غیبت سے بھی شدید اور ازلی پرہیز تھا۔ جو سامنے نہیں ہوتا تھا اُس کی صرف اچھائی بیان کرنے تک وہ محدود رہتے تھے۔ بولنے کے لیے موضوع کا ہونا لازم تھا۔ بے ربط گفتگو اُن سے ہو ہی نہیں پاتی تھی۔ تربیت کچھ اِس نہج کی تھی کہ جب بولیے ناپ تول کر، سوچ سمجھ کر بولیے تاکہ اپنی بھی تشفّی ہو اور فریقِ ثانی بھی کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو۔ یہی سبب ہے کہ نئی نسل کے نمائندے اُن کی محفل میں خاموش رہا کرتے تھے تاکہ کچھ سننے اور سیکھنے کو ملے۔ فی زمانہ یہ وصف بھی ناپید ہے۔ لوگ کسی جواز کے بغیر بولنا چاہتے ہیں اور بولتے ہی رہتے ہیں۔ بولنے اور بولتے رہنے کا فرق یوں بھلادیا گیا ہے کہ اب کسی کو یاد بھی نہیں آتا کہ کچھ جاننے کے لیے کچھ سننا لازم ہے۔ سب اپنے ذہن کے پیالے میں پکنے والا بے ڈھنگا لاوا دوسروں پر انڈیلنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ تب ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ لوگ کسی جواز کے بغیر بولا کریں گے اور اِس بات پر بھی بضد رہیں گے کہ اُنہیں صرف سنا نہ جائے بلکہ 'لائک، سبسکرائب اور شیئر‘ بھی کیا جائے!
رئیسؔ صاحب کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ بیک وقت سنتے، بولتے اور لکھتے تھے۔ آنے والوں سے دعا سلام بھی رہتی تھی اور ضروری ہدایات کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ ایک بات اُن کی شخصیت میں نمایاں تھی‘ وہ یہ کہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کیا جائے۔ جب اُن کی بیٹھک میں تمام نشستیں بھری ہوتی تھیں تب بھی وہ اپنا کام جاری رکھتے تھے۔ خطوط کا جواب دینا اور مضمون نگاری‘ دونوں ہی کام جاری رہتے تھے اور لوگوں سے گفتگو کا تار بھی نہیں ٹوٹتا تھا۔ یہ خوبی آج کے اہلِ علم و فن میں خاصی کم پائی جاتی ہے۔
رئیسؔ صاحب کا ایک بنیادی نظریہ یہ تھا کہ انسان کو صلے کی پروا کیے بغیر کام کرتے رہنا چاہیے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے جس کام کے لیے خلق کیا ہے اُسے وہ کام کر گزرنا چاہیے۔ صلے کی پروا اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عادل ہے۔ وہ صلہ دیے بغیر رہے گی نہیں۔ ہاں! صلے کو پہچاننا انسان کا کام ہے۔ خاکسار کے ساتھ اور بھی کئی مبتدی رئیسؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور ہم سب کے لیے یہی تلقین تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ اپنی ذات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اُسے تقسیم و ترسیل کے عمل سے گزارا جائے۔ رئیسؔ صاحب کہا کرتے تھے کہ اِس دنیا میں ہمیں بخشی جانے والی سانسیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم اپنے اپنے حصے کا کام کرکے رخصت ہوں۔ دنیا ہمیں اگر یاد رکھے گی تو گفتار کی بنیاد پر نہیں بلکہ کردار یعنی عمل کی بنیاد پر۔ کل کو اگر کسی کو حوالہ دینا ہوگا تو ہمارے کام کا حوالہ دے گا نہ کہ عمومی سی گفتگو کا۔ اہلِ علم کی گفتگو بھی بہت کچھ ہوتی ہے مگر عمل کا اپنا مقام ہے جو گفتگو کو کبھی نہیں مل سکتا۔ رئیسؔ صاحب جو کچھ کہتے تھے اُس میں کتنا دم ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ ہر دور میں وہی لوگ پہچانے گئے ہیں جو کچھ کر گزرے ہیں۔ عملی زندگی کے چار عشروں کے دوران خاکسار نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو غیر معمولی صلاحیت و سکت کے حامل ہونے کے باوجود کچھ بھی کرنے سے محض اس لیے مجتنب رہے کہ معقول صلے کی اُمید نہ تھی! رئیسؔ صاحب کا نظریہ یہ تھا کہ ''پیکیج‘‘ یا ''ڈیل‘‘ کی راہ دیکھتے رہنے کے بجائے انسان کو بھرپور لگن کے ساتھ محنت کرنی چاہیے تاکہ جو کچھ بھی وہ کرسکتا ہے کر جائے۔ لوگ ہمیں ہمارے کام ہی کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ بولنا بھی اہم وصف ہے مگر یہ عمل کا نعم البدل نہیں۔ کوئی کتنا ہی اچھا بولے‘ دیکھا یہ جائے گا کہ کرتا کیا ہے۔ کسی سے پوچھا گیا: آپ کیا کرتے ہیں؟ اُنہوں نے بتایا :شعر کہتا ہوں۔ سامنے سے جواب آیا: وہ تو ٹھیک ہے مگر کرتے کیا ہیں!
حقیقی اُستاد وہ ہے جو انسان کو عمل پسند بنائے۔ رئیسؔ صاحب نے اپنے شاگردوں کو زندگی کی بنیادی حقیقتوں سے رُو شناس کرایا اور اُن کی زندگی سنواری۔ شعرا بالعموم بے عمل سے رہتے ہیں۔ رئیسؔ صاحب خالص عملی انسان تھے اُن کی فکر کا حاصل یہ تھا کہ انسان کو جو کچھ بھی آتا ہے‘ وہ اُسے کرنا ہی چاہیے۔ نیک نیتی سے کیے جانے والے کسی بھی عمل کو ضائع کرنا قانونِ فطرت نہیں ہے۔