"MIK" (space) message & send to 7575

اب تو وہ گھڑی بھی آچکی

زمانے کے تقاضوں کو نظر انداز کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ کوئی اگر بضد ہو کہ زمانے کے کسی بھی تقاضے کو نبھانا نہیں تو پھر اُسے خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں کو بھی وقت کے تقاضے محض سمجھنے نہیں‘ نبھانے بھی ہیں۔ وقت کا کوئی بھی تقاضا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کرلیا جائے اُتنا اچھا! ایک جملہ ہمارے ہاں تواتر سے سُنائی دیتا ہے کہ ''ملک تباہی کے دہانے پر‘‘ یا پھر ''نازک موڑ پر‘‘ کھڑا ہے۔ جو بات بار بار کہی جائے وہ اثر کھو بیٹھتی ہے مگر ان دونوں جملوں کی تاثیر اور تاثر اب تک برقرار ہیں۔ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ہمارا وطن بار بار اس مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کرم ہے جو ہمیں بار بار بچالیتا ہے وگرنہ یاروں نے تو کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک گھوم پھر کر وقفے وقفے سے نازک موڑ پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب شاید یہ ہے کہ ہم اپنی کسی بھی غلطی سے کوئی بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ اللہ جانے کیوں ہمارے ذہنوں میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ ہم چاہے کتنے ہی بے عمل ہو جائیں‘ ہمارے مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے۔
اہلِ پاکستان کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ عالمی برادری میں کوئی قابلِ قدر مقام ممکن بنانے کے لیے کسی بھی قوم کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایک طویل مدت تک ٹھوس ارادوں اور بھرپور صلاحیت و سکت کے ساتھ مصروفِ عمل رہنا پڑتا ہے۔ ہم کوئی انوکھے تو ہیں نہیں کہ ہمارے لیے اس کائنات کے اصول بدل دیے جائیں۔ ہمیں بھی لیاقت، محنت اور دیانت ہی کے ذریعے کچھ کرنا پڑے گا۔ جب ایسا ہوگا تب ہمارے لیے کچھ گنجائش پیدا ہوگی۔ ایک زمانے سے یہ بات بھی ہم سنتے آئے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب ہمیں جاگنا ہی پڑے گا‘ کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ کیا وہ گھڑی آ نہیں چکی؟ اب کس وقت اور کس ساعت کا انتظار ہے؟ ہم جتنے دبائے جاسکتے تھے‘ دبا دیے گئے ہیں۔ اب کیا کسر رہ گئی ہے کہ جس کے واقع ہونے کا انتظار کیا جائے؟ کورونا کی وبا کے دوران یعنی کم و بیش دو سال کی مدت میں ایسا بہت کچھ رونما ہوا جو ہمیں بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی تھا۔ ایک دنیا نے کورونا کی وبا کے شدید منفی اثرات کا سامنا کیا تو بہت کچھ سیکھا۔ اس دوران معیشتیں دب کر‘ کچل کر رہ گئیں۔ یہ سب کچھ بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی تھا۔ جنہیں مستقبل کی فکر لاحق ہو وہ فکر و تدبر کی طرف جاتے ہیں۔ منظم انداز سے سوچنا ہی انفرادی اور اجتماعی سطح پر حقیقی مطلوب تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
متعدد ممالک نے کورونا کے ہاتھوں پیدا شدہ حالات کا سامنا کرنے کے دوران کچھ نہ کچھ سوچا اور سیکھا۔ ہمارے ہاں حکومت نے کچھ سیکھا نہ عوام نے۔ مسائل کی شدت ویسی کی ویسی ہے۔ پرنالے وہیں گر رہے ہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے آپ کو بدلنا ہے بلکہ اپنا آپ بدلنا ہے۔ سیاست دان نعروں کا جھولا جھلاتے رہتے اور عوام جھولتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ مدتِ دراز سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ نعروں، دعووں اور وعدوں سے بہلنے کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ کم و بیش ایک صدی کے دوران دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ قدم قدم پر چیلنجز ہیں جن کا سامنا کرنا ہی ہے۔ بہت سی اقوام نے سوچنے کا ہنر دیکھا‘ پھر عمل کی عادت اپنائی اور اپنا آپ بدل لیا۔ ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ مغرب نمایاں ترین مثال ہے۔ ایشیا میں کئی ممالک نے اپنی شدید پس ماندگی کو کام کرنے کی لگن، لیاقت اور سکت کے ذریعے شکست دی اور اقوامِ عالم میں اپنے لیے ایک نمایاں مقام یقینی بنایا۔
کورونا کی وبا ہمارے لیے بھی ویک اَپ کال تھی۔ کامیاب وہی رہتا ہے جو بروقت بیدار ہوتا ہے اور اپنے آپ کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ جب معیشتیں رُل رہی ہوں اور یہ عمل دنیا بھر میں جاری ہو تب بہت کچھ سمجھنا، سوچنا پڑتا اور منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں معاشی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اِس دورِ ابتلا کی دست اندازی سے محفوظ و مامون نہ رہ سکے۔ ترقی یافتہ دنیا کے لوگوں نے بھی بہت کچھ جھیلا۔ ہاں! اُن کی حکومتوں نے بھرپور ساتھ دیا‘ مالی مشکلات دور کرنے میں مدد کی۔ اس کے باوجود کورونا کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جو معاشرتی الجھنیں پیدا ہوئیں‘ وہ اپنی جگہ تھیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی معاشرتی امور کے حوالے سے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں تک محدود رہنے سے لوگوں میں اچھی خاصی نفسی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ یہ پیچیدگیاں ہمارے لیے زیادہ منفی اثرات لائیں کیونکہ معاشی الجھنوں نے اِنہیں دو آتشہ کردیا۔ ہمارے ہاں فراغت کے لمحات بہت ہیں اور یہ لمحات بالعموم گھر سے باہر گزارے جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے لوگوں کو اس حوالے سے الجھادیا۔ رات رات بھر ہوٹلوں پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے والے نوجوانوں کی تو جان پر بن آئی۔ گھر تک محدود رہنا اُن کے مزاج کا حصہ کبھی رہا ہی نہیں۔ ایسے میں اُن میں نفسی پیچیدگیوں کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ جو لوگ گھر میں رہتے ہوئے معاشی سرگرمیاں کسی حد تک جاری رکھ سکتے تھے‘ وہ بھی ایسا کرنے سے مجتنب رہے۔ لاک ڈاؤن کو سزا تصور کرنے والوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ تھی۔ یہ بحرانی کیفیت ہمیں بہت کچھ سکھانے کے لیے آئی تھی مگر ہم نے کچھ سیکھنے کے بجائے اِسے محض سزا تصور کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع کرنا اور کڑھتے رہنا قبول کیا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم آنے والے زمانوں کی ممکنہ پیچیدگیوں سے مؤثر طور پر نمٹنے کی تیاری کریں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ گزارے کی سطح پر جینے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اگر ہم ڈھنگ سے جینا چاہتے اور عالمی برادری میں اپنے لیے کوئی قابلِ ذکر مقام یقینی بنانا چاہتے ہیں تو سوچنا پڑے گا، کچھ منصوبہ سازی کرنا پڑے گی، نظم و ضبط کو مزاج کا حصہ بنانا ہوگا، دیانت کو اپنانا ہوگا، محنت کو شعار بنانا ہوگا۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہو گا جب ہم صورتِ حال کو قبول کرنے پر مائل ہوں۔ ہمارے سامنے مسائل کا انبار لگا ہے۔ ہر مسئلہ کسی عفریت کی طرح منہ کھولے ہمیں ہڑپنے کو بے تاب ہے۔ کسی بھی مسئلے کو مؤثر طور پر حل کرنے کے لیے‘ اُسے بوجھ سمجھنے کے بجائے چیلنج سمجھ کر قبول کرنے کی عادت اپنانا ہوگی۔ مسئلے سے خوفزدہ ہوکر اُس کا رونا نہیں رویا جاتا۔ چیلنج اس لیے ہوتا ہے کہ اُس کا مقابلہ کر کے اُسے پچھاڑنے کی ذہنیت کا مظاہرہ کیا جائے۔
ہم صرف تباہی کے دہانے یا نازک موڑ پر ہی نہیں بلکہ وقت کے اہم موڑ پر بھی کھڑے ہیں۔ وقت کا ہر موڑ کچھ نہ کچھ سکھانے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ موڑ کچھ زیادہ ہی سیکھنے کا تقاضا کر رہا ہے۔ انسان نے کم و بیش چار‘ پانچ ہزار سال کے دوران جو ذہنی و جسمانی مشقت کی ہے اُس کا نچوڑ ہمارے سامنے ہے۔ ہر شعبے میں فقید المثال ترقی ممکن بنائی جاچکی ہے۔ اِس کے نتیجے میں نفسی پیچیدگیاں بھی بڑھی ہیں۔ ہمیں اِن نفسی پیچیدگیوں سے کماحقہٗ نمٹنا ہے۔ یہ مرحلہ محض نالہ و شیون کا نہیں، عمل پسند رویے کے اظہار کا ہے۔ اب ہم حقیقی معنوں میں دو راہے پر کھڑے ہیں۔ غلط راہ کا انتخاب ہمیں کبھی سکھ کی منزل تک پہنچنے نہیں دے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم محض رُکے ہوئے بھی نہیں ہیں بلکہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں فرق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کچھ سوچنے اور کرنے کی گھڑی آچکی ہے۔ وقت ضائع کرنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں بچی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ عمل نواز طرزِ فکر اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ اور یہ کوئی آپشن نہیں‘ یہ تو کرنا ہی ہے! نہ کیا تو شدید ترین پس ماندگی مقدر بنی رہے گی۔ یہ دور ہمیں قدم قدم پر کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم آمادہ ہوں تو بہت کچھ سیکھ کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں