سب کچھ معمول ہوکر رہ گیا ہے۔ معمول یعنی لگی بندھی سرگرمیاں۔ ایسی سرگرمیاں جن میں زندگی نام کی کوئی صفت نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
صبح ہوتی ہے‘ شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
جب سبھی کچھ معمول کی حیثیت اختیار کرگیا ہو تو زندگی میں کچھ خاص باقی بچتا نہیں۔ بچ بھی کیسے سکتا ہے؟ جب صرف معمولات کو زندگی سمجھ لیا جائے تو زندگی کا ہر رنگ پھیکا پڑنے لگتا ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ آج کا انسان ریسیونگ اینڈ پر ہے یعنی اُسے بہت کچھ ملتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ پاکر اُسے کیا کرنا ہے اِتنا سوچنے کی زحمت کم لوگ گوارا کرتے ہیں۔ معمول یا معمولات کے دائرے میں گھومنے والی زندگی کسی کو کچھ نہیں دیتی۔ دے بھی کیسے؟ زندگی معمولات سے بہت ہٹ کر کسی چیز کا نام ہے۔ ہر انسان کو خود ہی طے کرنا ہوتا ہے کہ زندگی محض معمولات کے پنجرے میں قید رہتے ہوئے بسر کرنی ہے یا کچھ کرنا بھی ہے۔ کچھ کرنا یعنی کوئی ایسی سرگرمی جس میں کچھ جدت اور معنویت ہو۔
آج کا انسان زندگی کا بڑا حصہ محض دن کو رات اور رات کو دن کرنے میں کھپا رہا ہے۔ اِس سے زیادہ کچھ کرنا اُس کے لیے عمومی سطح پر ممکن ہی نہیں ہو پارہا۔ بڑے شہروں کا معاملہ بہت عجیب اور سفّاک ہے۔ بڑے شہروں میں زندگی صرف جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے پر صرف ہو رہی ہے۔ اپنی اور اہلِ خانہ کی گزر بسر کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہی اِتنا زیادہ ہے کہ کچھ اور کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ ذمہ داری بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ محنت اور جاں طلب ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں زندگی جاں بہ لب سی ہے۔ انسان کی ساری صلاحیت جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے پر صرف ہو رہی ہے۔ سکت تو بہت ہے مگر کچھ کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کوئی بھی انسان جب معمولات کے پنجرے میں قید ہو جاتا ہے تب اُس کے لیے زندگی میں معنویت پیدا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ آج بڑے شہروں میں زندگی بسر کرنے والوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ لوگ ایک خاص ڈھب سے جی رہے ہیں۔ اِن میں الگ سے کچھ کرنے کی گنجائش برائے نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معمول کی زندگی زیادہ سے زیادہ ساکت و جامد ہوتی جارہی ہے۔ سب کچھ میکانیکی انداز سے ہو رہا ہے۔ بیشتر سرگرمیوں کا ڈھانچا کھوکھلا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے انسان کو اس کھوکھلے پن کا محض اندازہ ہی نہیں، احساس ہے بھی تو وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ آج کے انسان کو ایسا بہت کچھ مل گیا ہے جس کے لیے گزرے ہوئے زمانوں میں لوگ زندگی کھپا دیا کرتے تھے۔ تب ذرا سی تحقیق کے لیے بھی لوگ دور دراز مقامات کا سفر کرتے تھے، لوگوں سے ملتے تھے، گفت و شنید کے ذریعے کچھ جاننے کی کوشش کرتے تھے، خط و کتابت کے ذریعے بھی بہت کچھ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی۔ تب کوئی معیاری کتاب لکھنا اچھے خاصے دردِ سر کا درجہ رکھتا تھا۔ لوگ بعض معاملات میں اپنی معلومات کا معیار بلند کرنے کے لیے متعلقہ شخصیات سے ملنے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ ملاقاتیں آسان نہ تھیں۔ سو دو سو میل کا سفر بھی دقت طلب ہوا کرتا تھا۔ تب اہلِ علم کا حقیقی احترام پایا جاتا تھا۔ آج کے انسان کو بہت کچھ اِتنی آسانی سے اور کچھ خرچ کیے بغیر مل رہا ہے کہ اُس کے دل سے اہلِ علم کا احترام اٹھتا جارہا ہے۔ سمارٹ فون نے علم کی دنیا کو سمیٹ کر آج کے انسان کی ہتھیلی پر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں لوگ کسی بھی صاحبِ علم کے پاس جانے، اُس کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کی اہمیت محسوس نہیں کر رہے۔
غیر معمولی آسانی غیر معمولی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں جب بہت کچھ بہت آسانی ہو رہا ہو تو حقیقی مشکلات کا دور شروع ہوتا ہے۔ تب انسان کو زندگی میں زیادہ معنویت پیدا کرنے کی تحریک مشکل سے مل پاتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کچھ نیا اُسی وقت ہو پاتا ہے جب معاملات محنت طلب ہوں۔ ترقی اور پیش رفت کے نتیجے میں اگر بہت کچھ بہت آسانی سے ہو رہا ہو تو کچھ نیا کرنے کا جذبہ مشکل ہی سے پروان چڑھتا ہے۔ کچھ نیا کرنے کی تحریک پانے کے لیے آج کے انسان کو خاصی چاند ماری کرنا پڑتی ہے۔ میڈیا کی ترقی نے پوری دنیا کو ہمارے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں پڑھنا، لکھنا، سوچنا آسان ہوگیا ہے مگر یہ نکتہ کم لوگوں کے ذہنوں میں پروان چڑھ رہا ہے کہ معیاری پڑھنا، معیاری لکھنا اور معیاری سوچنا آج بھی بہت مشکل ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے انسان بند گلی میں پھنس جانے جیسی کیفیت سے دوچار ہے۔ عمومی سطح پر بہت کچھ ممکن ہے مگر خصوصی سطح پر کچھ کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ آج عام ڈگر سے ہٹ کر چلنا انتہائی دشوار ہے۔ لوگ محض معلومات کے حصول کو علم سمجھ بیٹھے ہیں۔ باضابطہ علوم کا سیکھنا تو آج بھی بہت محنت طلب ہے۔ علوم کی راہ پر چل کر دانش کی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ہم علم تک نہیں پہنچ پارہے، دانش تو پھر بہت دور کا مرحلہ رہا۔ آج کا انسان بند گلی سے اُسی وقت نکل سکتا ہے جب وہ کسی بھی معاملے میں تجسّس کی دولت سے مالا مال ہو۔ تجسّس کا مادّہ انسان کو بہت کچھ عطا کرتا ہے۔ جب انسان کسی معاملے میں کچھ جاننے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے، سوچتا ہے اور معلومات جمع کرکے کسی نتیجے پر پہنچتا ہے تب کچھ نیا کرنے کی حقیقی تحریک ملتی ہے۔ تیار معلومات کا حصول کوئی کارنامہ نہیں۔ آج انٹرنیٹ کے ذریعے ایسا ہو ہی رہا ہے۔ ایسے میں اپنے طور پر کچھ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
تجسّس کا مادّہ فی زمانہ بہت حد تک مفقود ہے۔ کسی نئی بات کو جاننے سے جو خوشی ملا کرتی تھی وہ اب دکھائی نہیں دیتی۔ گزرے ہوئے زمانوں میں کسی کو جب کچھ نیا معلوم ہوتا تھا تو دل کو عجیب ہی طرح کی خوشی ملا کرتی تھی۔ کچھ نیا جاننے کی صورت میں جو مسرت محسوس ہونی چاہیے وہ اس قدر واضح طور پر محسوس ہوتی تھی کہ دوسرے بھی اِسے محسوس کرتے تھے‘ وہ کیفیت اب نہیں رہی۔ آسانیوں نے زندگی کا اچھا خاصا لطف غارت کردیا ہے۔ اب کوئی بھی نئی بات نئی بات نہیں۔ روزانہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں نئی باتیں ذہن کے پیالے میں اُنڈیلی جارہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اُنڈیلی نہیں جارہیں، اُنڈل رہی ہیں! اب کچھ بھی جاننے کے لیے کچھ خاص تگ و دَو نہیں کرنا پڑتی۔ بہت کچھ خود بخود ہم تک پہنچ رہا ہے، ہمارے حافظے اور فکری ساخت کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ یہ عمل روکنا بہت مشکل ہے۔ غیر معمولی نظم و ضبط کا حامل انسان ہی ایسا کرسکتا ہے مگر ایسا نظم و ضبط اب کوئی کہاں سے لائے؟ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہونے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔ زندگی کے رنگ پھیکے پڑتے جارہے ہیں۔ ہم لگی بندھی زندگی بسر کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ایسی زندگی کسی کو کچھ نہیں دیتی۔ زندگی سے حقیقی مسرت کشید کرنے کے لیے اِس میں معنویت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ معنویت پیدا کرنا اب خاصے جاں گُسل مرحلے سے گزرنے جیسا ہے۔ لوگ محنت سے کترانے لگے ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ جو کچھ بھی سوچا جائے وہ راتوں رات ہو جائے۔ فراغت کے لمحات انسان کو تر و تازہ رکھتے ہیں۔ یہ لمحات محنتِ شاقّہ کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں۔
آج کے انسان کو زندگی کے خاکے میں نیا رنگ بھرنا ہے۔ میڈیا‘ بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے جو کچھ مل رہا ہے وہ زندگی کے حُسن میں اضافے سے کہیں زیادہ اُس میں خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ سمارٹ فون کے ذریعے جو کچھ ہم تک پہنچ رہا ہے وہ زندگی کو غیر متوازن بنارہا ہے۔ کچھ جاننے کا حقیقی لطف آج بھی ہمیں کتابوں کے مطالعے ہی سے مل سکتا ہے۔ چند جملوں پر مبنی کوئی سنسنی خیز پوسٹ ہمیں کچھ زیادہ نہیں دے سکتی۔ اہلِ علم و حکمت کو حقیقی احترام کی نظر سے دیکھنے اور اُن کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے سے ہمیں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا ہنر سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ معلومات کے ڈھیر کو ہٹاکر علم و حکمت کے موتی ڈھونڈ نکالنے ہی سے ہمیں حقیقی مسرت مل سکتی ہے۔