"MIK" (space) message & send to 7575

کام جانے کہاں کھوگیا؟

آج ہمارے بیشتر معاملات اُس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں زندگی میں اور تو سب کچھ ہے، بس ایک کام کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ آپ سوچیں گے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ کام ہی نہ کیا جائے تو کوئی کیا کمائے، کیا کھائے، کیسے جیے؟ آپ کا ایسا سوچنا غلط نہیں مگر ہمیں کچھ اور عرض کرنا ہے۔
معاشی تگ و دَو ہر انسان کے لیے لکھ دی گئی ہے۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ جب تک آرام کرنے کی حقیقی گنجائش پیدا نہ ہو تب تک کام کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی بھی معاشرہ انوکھا یا کم نصیب نہیں۔ کم و بیش ہر معاشرے میں سبھی کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سوں کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی زندگی کے خوب مزے لوٹ رہا ہے۔ بنیادی سہولتوں کی حد تک تو یہ معاملہ ٹھیک ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی کو تمام بنیادی سہولتیں دستیاب ہیں اور وہ معیارِ زندگی کا گراف بلند کرسکتا ہے۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پریشانیاں اُس کی زندگی میں بھی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں پریشانیوں کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے، اُن کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ معاشی تگ و دَو ہر معاشرے میں ایک الجھن کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ اور بات کہ ہمارے ہاں جو کچھ معاشی الجھن کی تعریف میں آتا ہے وہ ترقی یافتہ معاشروں میں کسی بھی سطح پر زیادہ پریشان کن نہیں سمجھا جاتا۔ اُن معاشروں کی معاشی الجھنوں کی نوعیت مختلف ہے اور درجہ یا شدت بھی کچھ اور ہے۔
بات ہو رہی ہے کام کی۔ کام ہر معاشرے میں بنیادی قدر ہے۔ معاشی جدوجہد کے دائرے سے کوئی بھی اور کچھ بھی باہر نہیں۔ خواتینِ خانہ اگرچہ کمانے کے لیے گھر سے نہیں نکلتیں مگر کام تو انہیں بھی کرنا پڑتا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خواتینِ خانہ کچھ زیادہ ہی کام کرتی ہیں۔ ایشیائی معاشروں میں آج بھی گھر چلانے کے لیے کمانے کی ذمہ داری مرد کی ہے۔ وہ زندگی بھر کام کرتا رہتا ہے۔ یہاں کا یہی نظام ہے۔ جنوبی ایشیا کے معاشروں میں کمانے کے حوالے سے مردوں کا کردار کچھ بڑھ کر ہے۔ ایک فرد پورے گھر کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ اب دنیا بدل گئی ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں اب گھر کے تمام افراد مل کر چولھا جلتا رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ نظام اب تک نہیں آیا۔ حالات متقاضی ہیں کہ گھر کا پورا بوجھ ایک فرد نہ اٹھائے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کی صلاحیت و سکت ہی نہیں بلکہ پوری زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ذہنی الجھنیں بڑھتی ہیں، زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔
اب آئیے موضوع کی طرف۔ ہم زندگی بھر کام کرتے رہتے ہیں۔ کام کرنے میں اور ڈھنگ سے کام کرنے میں بہت فرق ہے۔ بہت سے لوگ بہت محنت کرنے پر بھی کچھ خاص حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ایسا بالعموم اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنے کام کا معیار بلند کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ کام کا معیار بلند کرنے کا مطلب ہے جو کچھ بھی ہم تیار کر رہے ہیں یا جو خدمات فراہم کر رہے ہیں اُن کا اعلیٰ معیار‘ تاکہ حتمی تجزیے میں یہ اندازہ لگانا آسان ہو کہ جو بھی معاوضہ ہمیں دیا گیا ہے اُس کے عوض ہم نے کیا دیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے بارے میں یہ دعویٰ کوئی بھی نہیں کرسکتا کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کا کام پوری دیانت اور جاں فشانی سے کر رہے ہیں۔
کام سے جان چھڑانے کی روش ہمارے ہاں اِس قدر عام ہوچکی ہے کہ اب اِسے قباحت کے درجے میں بھی نہیں رکھا جارہا۔ جب سبھی اپنے اپنے حصے کے کام سے گریز کر رہے ہوں تب کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ کسی بھی معاشرے میں چند افراد ضرور اپنے حصے کا کام کر رہے ہوتے ہیں اور وہ نمایاں بھی ہوتے ہیں۔ جب معاشرے کی مجموعی روش کام سے گریز کی ہو تو معیارِ زندگی بھی بلند نہیں ہو پاتا۔ معیارِ زندگی کا تعلق بنیادی طور پر اس بات سے ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو بطریقِ احسن جاری رکھا جائے اور اِسی طور منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
آج ہمارے ہاں دنیا بھر کی باتوں پر توجہ دی جارہی ہے اور اگر توجہ نہیں دی جارہی تو صرف کام پر۔ معاشی سرگرمیاں جاری تو ہیں مگر نیم دِلی اور لاپروائی کے ساتھ۔ کام کی مقدار کی فکر ہے نہ معیار کی۔ ایک طرف تو لوگ اپنے حصے کا کام پورا نہیں کرتے اور پھر کام کے معیار پر بھی متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران معاملات بہت تیزی سے خرابی کی طرف گئے ہیں۔ کام چوری کا چلن پہلے بھی تھا مگر عام نہ ہوا تھا۔ لوگ تھوڑی بہت کام چوری ضرور کرتے تھے مگر مکمل ہڈ حرامی سے گریز کرتے تھے۔ اور پھر کام چوری مقدار کے حوالے سے زیادہ نہ تھی۔ معیار کو نظر انداز کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ کام کے مقام پر کم وقت دینا، کم کام کرنا ہر دور کا چلن رہا ہے مگر معیار کو داؤ پر لگانے سے گریز جاتا تھا تاکہ مجموعی طور پر زیادہ نقصان نہ ہو اور ادارے کا وجود ہی داؤ پر نہ لگ جائے۔
آج معاملہ یہ ہے کہ لوگ کام کرتے تو ہیں مگر اُسے کماحقہٗ اہمیت نہیں دیتے۔ آپ صرف اُن معاشروں کو ترقی کرتا‘ آگے بڑھتا ہوا پائیں گے جو کام سے محبت کرتے ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی فرد یا معاشرہ اپنی معاشی جدوجہد کو حرزِ جاں نہ بنائے اور اعلیٰ مقام پانے میں کامیاب ہو جائے۔ اِس حقیقت کی بنیاد پر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا۔ آج ہمارے معاشرے میں معاشی سرگرمیوں کے نام پر لوگ محض سر سے بوجھ اتارنے کا سوچتے رہتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ کام نہ کرنا پڑے اور من چاہا معاوضہ بھی مل جائے۔ یہ گویا آگ اور پانی کو ایک پیج پر لانے والا معاملہ ہوا۔
آج کا انسان سو جھمیلوں میں کھویا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ فراغت کے لمحات پاتے تھے تو خوب محظوظ ہوتے تھے۔ تب فراغت محنتِ شاقّہ کے بعد حاصل ہوا کرتی تھی۔ سماجی معاملات نظر انداز نہیں کیے جاتے تھے؛ تاہم ہر چیز کا حساب کتاب رکھا جاتا تھا۔ لوگ نپی تُلی زندگی بسر کرتے تھے۔ خوب محنت کے بعد جب فراغت کے چند لمحات نصیب ہوتے تھے تب زندگی کا نیا روپ دیکھنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ آج معاملہ پلٹ چکا ہے۔ آج کا انسان ہر وقت زیادہ سے زیادہ تفریحِ طبع یقینی بنانے کے فراق میں رہنے کا عادی ہوچکا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو برائے نام بھی پیاس نہ لگی ہو اور وہ ہمہ وقت پانی پیتا رہے۔ اس کے نتیجے میں صرف نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ ہوتا ہی ہے۔ بھرپور محنت کے بغیر کچھ پانے کی تمنا اور تھکن کے بغیر فراغت کے لمحات تلاش کرنا اور تفریحِ طبع کا اہتمام کرنا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر وقت تفریحِ طبع کی راہ ہموار کرنے کی دُھن میں رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کام بہت پیچھے کہیں رہ گیا ہے اور زبردستی کی تفریحِ طبع زندگی کا لازمہ بن کر رہ گئی ہے۔
کسی بھی معاشرے کی حقیقی اُٹھان یقینی بنانے کے لیے جس نوعیت کا کام لازم ہوتا ہے وہ آج ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ پوری دلچسپی اور دل جمعی سے کام کرنے والے خال خال ہیں۔ اور اپنے کام سے محظوظ ہونے والے تو اور بھی کم ہیں۔ ہر عہد میں بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہونے کی بنیادی شرط یہ رہی ہے کہ انسان اپنے کام سے محبت کرے، اُس سے محظوظ ہو، اُسے بوجھ نہ سمجھے،کام کو طوق سمجھ کر اتار پھینکنے کی فکر میں غلطاں نہ رہے۔ کام سے محبت کا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے لوگوں کو نمایاں طور پر پیش کرنا ہوگا جنہوں نے بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے محنت کو شعار بنایا، دن رات ایک کیے اور کام کے معاملے میں دیانت کی راہ پر گامزن رہے۔ محنت کی کمائی کا اپنا مزہ ہے۔ اِس میں اللہ تعالیٰ نے برکت بھی رکھی ہے۔ محض دولت کا حصول سب کچھ نہیں۔ کام سے محبت انسان کو زندگی میں نئی معنویت سے ہم کنار کرتی ہے۔ آپ اُن تمام لوگوں کو غیر معمولی بلکہ قابلِ رشک حد تک مطمئن پائیں گے جو اپنے حصے کی معاشی جدوجہد کو محض بوجھ سمجھ کر اُتار پھینکنے کے فراق میں نہیں رہتے۔ محنت ہر انسان کے وجود کا حصہ ہے مگر ہمارے ہاں اِسے آزمائش یا سزا تصور کرلیا گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں