ظاہر و باطن اور خیر و شر کے درمیان کشمکش ہر دور میں رہی ہے۔ آج یہ بہت زیادہ ہے۔ ہونی بھی چاہیے۔ سیدھی سی بات ہے‘ جب ہر معاملہ کچھ کا کچھ ہوگیا ہے تو پھر خیر و شر کا معرکہ بھلا کیوں تیور نہ بدلے گا۔ ہر دور کے انسان کے لیے ظاہر و باطن کے درمیان توازن برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ ہر عہد میں ایسے اہلِ دانش رہے ہیں جنہوں نے عام آدمی کو سکھایا ہے کہ محض کھانا پینا‘ سونا‘ جاگنا‘ گھومنا پھرنا اور نسلِ انسانی کو آگے بڑھانا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد نہیں۔ ہر انسان کی محض ظاہری نہیں‘ باطنی زندگی بھی ہے۔ یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا فرق نظر انداز کرکے محض حیوانی سطح پر زندہ رہنے کو زندگی کہا جا سکتا ہے نہ اِس کا حق ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔
زندگی محض کھانے پینے‘ سونے جاگنے کا نام نہیں۔ انسان کو اس عمومی یا خالص حیوانی سطح سے بہت بلند ہوکر جینا ہے۔ جس خالق نے زندگی ایسی نعمت عطا کی ہے وہ ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ ہمارے خالق و رب کی مرضی یہ ہے کہ ہم اُس کی خوشنودی کے لیے جئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم محض دنیا ہی میں گم ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ دین کی بھی فکر کریں۔ اُس دن کا خیال ذہن سے کبھی محو نہ ہو جب ہم اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور تب ہم سے ہمارے ایک ایک دن‘ بلکہ ایک ایک ساعت کا حساب لیا جائے گا۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں‘ حتمی تجزیے میں‘ آخرت ہی کی تیاری کرنا ہے۔ آخرت ہی کی زندگی ہمیشگی والی ہے۔ ابدیت صرف دین یعنی عُقبٰی کو ہے۔ دنیا تو محض نظر کا دھوکا ہے۔ دنیا پر اِترانے اور نازاں ہونے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آخرت کی بہتر تیاری کے لیے کیے جانے والے نیک اعمال پر بھی متکبر ہونے کی اجازت و گنجائش بھی نہیں۔
آخرت پر دنیا کو ترجیح دینا کسی بھی درجے میں منفعت بخش فیصلہ نہیں۔ ایسے فیصلے انسان کو دونوں جہانوں میں محض رُسوا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ہر عہد میں ایسے انسانوں کی واضح اکثریت رہی ہے جنہوں نے آخرت کو بھول بھال کر صرف دنیا کی بُھول بُھلیّوں میں گم رہنے کو ترجیح دی‘ جب تک جیے صرف دنیا کے لیے جیے اور یوں اپنے برے انجام کے آغاز کا فیتہ اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹا!
آخرت کو ترجیح دینے کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کو نظر انداز کردیا جائے‘ دُھتکار دیا جائے۔ دنیا کسی بھی اعتبار سے نظر انداز کیے جانے یا دُھتکارے جانے کی چیز نہیں۔ یہاں ہمیں جتنی سانسیں عطا کی گئی ہیں اُن میں سے ہر ایک کے مصرف کا حساب لیا جائے گا۔ ایسے میں یہ دنیا ہی ہماری آخرت کا سامان کرے گی۔ ہم روئے ارض پر اپنی زندگی جس طور بسر کریں گے اُسی کی بنیاد پر آخرت میں جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہر ساعت پورے شعور کے ساتھ بروئے کار لائی جائے۔ اللہ نے جتنی بھی صلاحیت‘ مہارت اور سکت عطا فرمائی ہے اُس کے بہترین استعمال کی گنجائش پیدا کی جائے تاکہ ہمارا خالق و رب ہم سے راضی ہو۔
ہر عہد کا انسان دنیا پر مرتا آیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دنیوی سُکھ اور آسائش یقینی بنانے کے لیے روح‘ باطن اور اقدار کو نظر انداز کرنے کا چلن ہر دور میں رہا ہے۔ آج یہ چلن بہت زیادہ ہے بلکہ یہی چلن عام ہے‘ باقی سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم نے باطنِ روح اور اقدار کو یوں بھلا رکھا ہے گویا اُن کا وجود ہی نہ ہو۔ یہ بھی انتہا ہے۔ ہمیں روئے ارض پر عطا کی جانے والی زندگی اول و آخر صرف اس لیے ہے کہ اسے اللہ کی خوشنودی یقینی بنانے کی خاطر بسر کیا جائے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم مادّہ پرست نہ ہوں‘ دنیا کو سب کچھ نہ سمجھتے ہوں‘ اللہ کے طے کردہ راستے پر چلیں‘ دین و عُقبٰی پر دنیا کو ترجیح نہ دیں‘ ہر معاملے میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا درست فیصلہ کریں۔ یہ سب کچھ صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں‘ نیت یہ ہو کہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔ اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی کے بارے میں سوچا ہی نہ جارہا ہو تو دنیا میں گم رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ کامیاب وہ ہیں جو طے کر لیتے ہیں کہ جس قدر بھی زندگی ہے وہ صرف اللہ کی امانت ہے‘ اس لیے اُسی کی مرضی کے مطابق بسر کی جانی چاہیے۔ جب کوئی یہ طے کر لیتا ہے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق جینا ہے تو پھر اس بات کی گنجائش برائے نام بھی نہیں رہتی کہ دنیا کو اپنا حتمی مقدر سمجھا جائے۔ ہاں‘ دنیا کے معاملے میں مکمل شعور کے ساتھ سوچنا اور اُس پر عمل کرنا لازم ٹھہرتا ہے کیونکہ جو کچھ ہم یہاں سوچیں اور کریں گے اُسی کی بنیاد پر آخرت میں کامیاب یا ناکام ہوں گے۔
کسی بھی گزرے ہوئے دور کے مقابلے میں آج روحانیت اور اخلاقی اقدار پر زور دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ آج کا انسان زندگی کے خالص مادّہ پرست ماڈل کا غلام ہوکر رہ گیا ہے۔ کوئی بھی انسان دنیا کے جھمیلوں میں خود بہ خود نہیں پڑتا۔ وہ شعوری طور پر یہ سب کچھ اپناتا ہے۔ بُرائی کو اپنانے کے لیے شعوری عمل ناگزیر ہے تو اُس سے بچنے کے لیے بھی شعوری کوشش ناگزیر ہے۔
آج کا انسان چونکہ دنیا میں بہت زیادہ گم ہوچکا ہے اس لیے روحانی و اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی طرف کھینچنے والے معاملات آج اتنے زیادہ ہیں کہ بھرپور شعوری کوشش کے بغیر کچھ خاص بہتری یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔ کسی بھی گزرے ہوئے دور کے مقابلے میں آج کے انسان کو دنیا کے جال سے نکال کر دین و عُقبٰٰی کی طرف مائل کرنے کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔
فی زمانہ عام آدمی کو روحانی و اخلاقی اقدار کی باتیں عجیب لگتی ہیں۔ وہ بہت سی باتیں سن کر بظاہر متفق ہوتے ہوئے سر تو ہلا دیتا ہے مگر جیسے ہی معاملات عمل کی منزل تک پہنچتے ہیں‘ سارا عزم ڈھے جاتا ہے۔ عزم اُسی وقت کارگر ہوتا ہے جب وہ محکم ہو۔ مستقل مزاجی ہی انسان کو کچھ بامقصد کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ کسی کی بات سے متاثر ہوکر کوئی فیصلہ کرنا اور پھر اُس فیصلے پر قائم رہنا دو مختلف امور ہیں۔ لوگ ہر روز کسی نہ کسی بات سے متاثر ہوکر خود کو بدلنے کی ٹھانتے ہیں مگر یہ ''ٹھان‘‘ وقتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ معاملات ''رات گئی‘ بات گئی‘‘ والی کیفیت اختیار کرنے میں ذرا بھی وقت نہیں لیتے۔
زمانے کا چلن اس وقت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمایا اور زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے۔ کھلے بازار کی معیشت کے نام پر دنیا بھر میں عام آدمی کو کنزیومر اِزم کے جال میں پھانس لیا گیا ہے۔ آج کا انسان صرف مادّی سُکھ کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ یہ دوڑ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر آدمی پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں بھینچ کے رکھنا چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسی خواہش ہے جس کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ یہ دنیا کبھی کسی کی ہوسکی ہے نہ ہو پائے گی۔ دنیا کے پیچھے بھاگنا سراب کے پیچھے بھاگنا ہے۔ یہ تعاقب ختم ہوگا نہ کچھ ہاتھ آسکے گا۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ دل کی آواز سُنی جائے‘ ضمیر کی پُکار پر لبیک کہتے ہوئے اپنے باطن کی اصلاح کی جائے‘ اخلاقی اقدار کو ایک بار پھر زندگی کا حصہ بنایا جائے‘ نفسی پاکیزگی کو ایک بار پھر حرزِ جاں بنانے پر توجہ دی جائے۔ لاپروائی اور عدم توجہ سے دنیا پرستی کا زہر بڑھتا ہی رہے گا۔ دُنیوی زندگی کی لذتوں میں گم ہوکر آخرت کو داؤ پر لگانا کسی بھی درجے میں مقتضائے دانش نہیں۔ نئی نسل کو اخلاقی و روحانی اقدار کی طرف لانا زیادہ ضروری ہے کیونکہ اُس کی بے راہ روی زیادہ ہے۔ اُسے دنیا کی نذر ہونے سے بچاکر ہم اُخروی زندگی کیلئے بہتر طور پر تیار کر سکتے ہیں مگر پہلے قدم پر اپنی اصلاح شرط ہے۔