معاشرے کا بگاڑ دیکھ کر دل دُکھتا ہے۔ جو لوگ نعمتِ احساس سے مالا مال ہیں وہ دولتِ رنج کے معاملے میں بھی ''خود کفیل‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ اگر احساس ہوگا تو رنج بھی ہوگا کیونکہ کسی بھی خرابی کو دیکھ کر دل کو دُکھ پہنچتا ہی ہے۔ دُکھ اُسی دل کو پہنچتا ہے جو معاملات کو احساس کے آئینے میں دیکھنے اور پرکھنے کا عادی ہو۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ معاشرہ جس تیزی سے پستی کی نئی گہرائیوں سے آشنا ہوتا جارہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔ سوچنے والے ہر ذہن میں تشویش کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ نظام کے بگڑتے چلے جانے سے خرابیوں کی محض تعداد نہیں بڑھی‘ اُن کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لوگ چونکہ انتہائی الجھے ہوئے ذہنوں کے ساتھ جی رہے ہیں اِس لیے زندگی کا توازن بہت حد تک بگڑا ہوا ہے۔ بعض عمومی معاملات بھی زندگی کا حلیہ بگاڑنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جب ذہن قابو میں نہ ہوں اور ہر بُری عادت کو گلے لگانے کا چلن عام ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے پیمانے پر مصائب کی راہ ہموارکرتی ہیں۔
معاشرے کی پستی کا گراف اس لیے بلند ہوتا جارہا ہے کہ لوگ خرابیوں کو بہت تیزی سے قبول کرتے جارہے ہیں۔ جب خرابیوں اور خامیوں کو قبول کرنے کا چلن عام ہو جائے تو اصلاحِ احوال کی کوششیں آسانی سے مطلوب نتائج پیدا نہیں کرتیں۔ ڈھائی‘ تین عشروں کے دوران ہمارے ہاں ایک عجیب ذہنیت پروان چڑھی یا چڑھائی گئی ہے۔ یہ ذہنیت ہے خرابیوں اور خامیوں سے حَظ کشید کرنے کی۔ کسی بھی چھوٹی یا بڑی خرابی کی شدت محسوس کرتے ہوئے اُس سے نجات پانے کے بارے میں سوچنے کے بجائے اب لوگ اُس سے حَظ کشید کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر دور میں ایسے ٹی وی پروگرام پیش کیے جاتے رہے ہیں جن میں معاشی اور معاشرتی خرابیوں سے نفرت پروان چڑھانے کے بجائے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا رہا ہے کہ طنز و مزاح کے پیرائے میں اُن سے لطف اندوز ہوا جائے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں اُس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں ذہن کسی بھی خرابی سے نجات پانے کے بارے میں سوچنے کی طرف جاتا ہی نہیں۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ اُسے بیان کرکے دل خوش کیا جائے۔ یہ روش خرابیوں کو تیزی سے بڑھارہی ہے اور وہ زیادہ قابلِ قبول بھی ہوتی جارہی ہیں۔ یہ تو ہوا خرابیوں کو قبول کرنے کا معاملہ۔ دوسری طرف اچھائیوں کو گلے لگانے سے گریز کا رجحان بھی عام ہے۔ لوگ دیانت اور صاف گوئی سے یوں دامن بچاتے ہیں گویا یہ بڑی برائیاں ہوں، گویا حق گوئی کا وصف اُسے اپنانے کی صورت میں ترقی و خوش حالی کی راہ مسدود ہو جائے گی! جب معاشرے ایسی کیفیت سے دوچار ہوں تب بہت کچھ تلپٹ ہو جاتا ہے اور کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔
کیا معاشرے کو راہِ راست پر نہیں لایا جاسکتا؟ کیا ہماری معاشی، معاشرتی اور ذہنی پیچیدگیاں دور نہیں کی جاسکتیں؟ کیا اب ہم کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے؟ 1960ء کے عشرے کے دوران پاکستان جس انداز سے آگے بڑھ رہا تھا‘ کیا وہ انداز اب کبھی اپنایا نہ جاسکے گا؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال اُن تمام پاکستانیوں کے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں جو وطن اور اہلِ وطن کے حوالے سے سوچ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں۔ وطن اور اہلِ وطن کے لیے حقیقی معنوں میں کچھ کرنا تو اُن کا کام ہے جو ملک کے نظام پر متصرف ہیں۔ ملک کے فیصلے کرنے والے کیا چاہتے ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ کسی بھی اعتبار سے کسی حقیقی تبدیلی یعنی وطن اور اہلِ وطن کی بہتری کو یقینی بنانے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں۔ حکومتی یا ریاستی مشینری کے اہم پرزوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ جو لوگ قوم کے لیے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں وہ دن رات ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ایسے میں عام شہری کیا کرے؟ اُس کے اختیار میں کیا ہے؟ کیا وہ اپنے اور دوسروں کے حالات کو آسانی سے بدل سکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب نفی اور اثبات‘ دونوں میں ہے۔ کسی بھی معاشرے کی پستی کبھی اتنی نہیں ہوتی کہ اُس سے تعلق رکھنے والوں کی غالب اکثریت کچھ کرنا چاہے اور نہ کر پائے۔ یورپی معاشروں نے جب ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا سوچا تو گامزن ہی نہیں ہوئے بلکہ منزل پر بھی پہنچے۔ ان معاشروں کی ترجیحات میں مادّی سُکھ چونکہ پہلے نمبر پر تھا اس لیے وہ آج مادّی آسودگی کے حامل ہیں اور یہ آسودگی بھی ایسی ہے کہ دیکھنے والے رشک کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بھٹکا ہوا ہے۔ راہِ راست سے دور ہو جانے کے باعث منزل دکھائی نہیں دے رہی اور ڈھنگ سے چلنا بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ مرحلہ سخت جاں گُسل ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمت ہار کر ایک طرف بیٹھ رہا جائے۔ چکبستؔ نے خوب کہا ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بُزدلوں کو گردشِ قست سے ڈر جانا
یہ سودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مر جانا
ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں سے آگے بڑھنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہ فطری امر ہے کیونکہ ہم جس پستی سے دوچار ہے اُس کے پیشِ نظر منزل کی طرف بڑھنا انتہائی دشوار ہوا کرتا ہے مگر پھر بھی ہمت ہارنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کسی بھی صورتِ حال میں کچھ نہ کچھ بامقصد کرنے کی سوچ ہمارے ذہنوں کو ودیعت کی جاتی ہے۔ بات آکر ہماری نیت پر رُکتی ہے۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ زندگی کا رنگ ڈھنگ بدلے؟ کیا ہم کسی بھی بڑی مثبت تبدیلی کو گلے لگانے اور اُس کے تقاضے نبھانے کے لیے تیار ہیں؟ پوری دیانت سے اپنے باطن کا جائزہ لیجیے تو جواب ملے گا کہ نہیں! ہم کسی بھی بڑی اور حقیقی تبدیلی کے تقاضے نبھانے کے لیے تیار ہیں نہ اُسے گلے لگانے ہی کے حقیقی خواہش مند ۔
پورے معاشرے میں منفی سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ لوگ ہر معاملے میں صرف منفی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ اول و آخر کوشش صرف یہ دکھائی دیتی ہے کہ کسی بھی معاملے کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرکے صرف منفی پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے اور جیسے بھی ممکن ہو، صرف منفی نتائج کے بارے میں سوچا جائے۔ لوگ شعوری سطح پر مثبت سوچ اور مثبت اقدار کو اپنانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ جہاں بہتری کی تھوڑی بہت گنجائش دکھائی دے رہی ہو وہاں بھی لوگ منفی پہلوؤں پر متوجہ ہوکر اُس گنجائش سے کماحقہٗ مستفید نہیں ہو پاتے۔ اب جنگی بنیاد پر کرنے کا کام یہ ہے کہ معاشرے کو مثبت سوچ کی طرف لے جایا جائے۔ مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری محض ریاستی مشینری کی نہیں۔ اسے اس بات سے غرض ہی کیا ہے کہ مثبت سوچ پروان چڑھے، لوگ ڈھنگ سے جینے کے لیے تیار ہوں۔ ہمارے ہاں اب کوئی باضابطہ نظام بچا ہی کب ہے کہ ہمارے بارے میں سوچے، زندگی کا عمومی معیار بلند کرنے پر متوجہ ہو۔ ایسے میں معاشرے کو بہتری کی طرف لے جانے کی ذمہ داری اہلِ علم و فن کی ہے۔ جنہیں اللہ نے دانش سے نوازا ہے اُنہیں اپنے قریب ترین لوگوں کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بننے میں مدد دینا ہے۔ اس حوالے سے محض انفرادی سطح کا کام کچھ زیادہ نفع نہ پہنچا سکے گا۔ اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی نفسی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے نفسی امور کے ماہرین کو میدان میں آنا ہو گا۔ یہ کام چونکہ جنگی بنیاد پر کرنا ہے اس لیے خاصی وسیع اور وقیع تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہو گی۔ انٹرنیٹ کی مدد سے عوام کو مثبت کی طرف لانے کی بھرپور کوشش مطلوب نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ افلاس زدہ لوگوں کی مدد کرنا اچھی بات ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اُن میں حوصلہ پیدا کرنا بھی لازم ہے تاکہ وہ ہاتھ پھیلانے کی ہزیمت سے بچتے ہوئے خود بھی کچھ کرنے پر مائل ہوں۔