"MIK" (space) message & send to 7575

بروقت، برمحل

زندگی کو زیادہ سے زیادہ کامیابی سے ہم کنار کرنے سے متعلق شائع ہونے والا مواد پڑھیے، انٹرویوز سنیے تو یہ نکتہ بار بار آپ کے سامنے آئے گا کہ بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے بھرپور محنت ناگزیر ہے۔ صرف بھرپور محنت؟ جی نہیں! صرف محنت سے کچھ نہیں ہوتا۔ کامیابی کے موضوع پر لکھنے اور بولنے والوں کو غلط مت سمجھیے‘ وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ اُن کی بیشتر باتیں چند ایک مفروضوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں، مثلاً وہ یہ فرض کرتے ہوئے مشورے دیتے ہیں کہ آپ نے دیگر شرائط کی پابندی کرلی ہے۔ کامیابی کے لیے ایک بنیادی پابندی ہے صلاحیت و سکت۔ شاندار کامیابی یقینی بنانے کے لیے متعلقہ شعبے کی بنیادی صلاحیت سے کماحقہٗ واقفیت لازم ہے اور ساتھ ہی ساتھ سکت بھی ہونی چاہیے۔ صلاحیت ہو اور سکت نہ ہو تو کامیابی کو یقینی بنانا بہت دشوار ہوتا ہے۔ سکت یعنی طاقت۔ اِس کی مثال یوں ہے کہ کسی کو پہلوانی تو آتی ہو یعنی داؤ پیچ جانتا ہو مگر جسم جواب دے گیا ہو یا کسی وجہ سے جسم میں اِتنی جان ہی نہ بچی ہو کہ مدمقابل کو پچھاڑ سکے تو شعبۂ پہلوانی میں کامیابی یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔
شخصی ارتقا کے ماہرین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ کامیابی کے لیے بھرپور کوشش کرنے سے قبل متعلقہ تیاریوں پر توجہ دی جانی چاہیے۔ بہت سے لوگوں میں صلاحیت بھی ہوتی ہے اور سکت بھی کم نہیں ہوتی مگر اُن میں بھرپور جذبہ و شوق نہیں ہوتا۔ غیر معمولی لگن کے بغیر غیر معمولی کامیابی ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ صلاحیت و سکت کو مہمیز اُسی وقت ملتی ہے جب انسان میں کام کرنے کی بھرپور لگن پائی جاتی ہو۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ صرف صلاحیت اور سکت کو سبھی کچھ سمجھ کر مطمئن ہو رہتے ہیں۔ اُن میں کام کرنے کا شوق اُس درجے کا نہیں ہوتا جو بھرپور کامیابی کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ یہ کمی دوسرے بہت سے معاملات بگاڑ دیتی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ صلاحیت، سکت اور لگن کی موجودگی میں بھی مطلوب نتائج کا حصول دشوار ثابت ہوسکتا ہے! بہت سوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ جب صلاحیت، سکت اور لگن موجود ہے تو پھر کمی کس چیز کی ہے۔ کیا اب بھی کامیابی کے حصول میں کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے؟ جی بالکل! کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب تمام متعلقہ عوامل کو ڈھنگ سے بروئے کار لایا جائے۔ ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو کام جس وقت کرنا ہو اُسی وقت کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ مقام کا بھی خیال رکھا جائے۔ اگر کوئی چیز کسی فرد کو دینے سے بات بنتی ہو تو وہ چیز متعلقہ فرد ہی کے حوالے کی جانی چاہیے۔ کسی اور کو دینے سے بات یا تو نہیں بنے گی یا بگڑ جائے گی۔
بڑی کامیابی یقینی بنانے میں صلاحیت، سکت اور لگن کے ساتھ ساتھ وقت اور مقام کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ لڑکپن سے عنفوانِ شباب اور پھر پختہ شباب کے عہد تک کوئی بھی ہنر زیادہ دلجمعی کے ساتھ اور پُرامید رہتے ہوئے سیکھا جاسکتا ہے۔ ڈھلتی ہوئی عمر یا صریح بڑھاپے میں بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے؛ تاہم ایسے میں وہ بات نہیں بنتی جو بننی چاہیے۔ ہر چیز دیگر تمام عوامل کے ساتھ ساتھ موقع و محل سے مناسبت رکھنے کی صورت میں جچتی ہے۔ موقع سے مراد ہے وقت اور محل سے مراد ہے مقام۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کا تیز ترین انسان وہ ہے جس نے 100 میٹر کی دوڑ سب سے کم وقت میں جیتی ہو۔ یہ ریکارڈ یوسین بولٹ نے 2009ء میں آئی اے اے ایف ورلڈ چیمپئن شپ کے دوران 100 میٹر کا فاصلہ 9.58 سیکنڈز میں طے کرکے قائم کیا تھا۔ اب اگر کسی کو یہ ریکارڈ توڑنا ہے تو اُسے متعلقہ فورم کے تحت کرائے جانے والے مقابلے میں شریک ہونا پڑے گا۔ اگر کوئی اپنے طور پر یعنی انفرادی کارکردگی کے ذریعے یہ فاصلہ کم وقت میں طے کر بھی لے اور مووی بنانے کے ساتھ ساتھ چند سو یا چند ہزار افراد کو گواہ بنا بھی لے تو اُسے چیمپئن اس لیے تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ اُس نے متعلقہ اداروں یا تنظیموں کے تحت منعقد کیے جانے والے مقابلوں میں شرکت نہیں کی۔ اِس وقت گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی تیز ترین گھوڑی ''وننگ بریو‘‘ ہے جس نے 43.97 میل یا 70.7628 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ کر دکھایا۔ اگر کوئی اور گھوڑا یا گھوڑی اِس سے زیادہ رفتار سے دوڑ کر دکھا بھی دے تو اُسے چیمپئن اُس وقت مانا جائے گا جب وہ اپنی رفتار کے معاملے میں متعلقہ ادارے یا اداروں کے تصدیقی مرحلے سے گزرے گا یا گزرے گی۔ یہی معاملہ دوسرے تمام کھیلوں اور علوم و فنون کا ہے۔ بہت سے لوگ غیر معمولی صلاحیت کے حامل تو ہوتے ہیں مگر وہ متعلقہ فورم پر خود کو پیش نہیں کرتے اور اُس فورم کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا سے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش نہیں کرتے۔
اِس پورے معاملے کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بہت سوں نے غیر معمولی مطالعہ کر رکھا ہوتا ہے۔ وہ دنیا بھر کی معلومات اپنے ذہن میں سموئے پھرتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر بات کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ علم کا دریا بہہ رہا ہے۔ بعض کا معاملہ اِس سے بھی آگے کا ہوتا ہے یعنی وہ اپنے رویے اور مزاج سے ''بحر العلوم‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی اُن سے کچھ دیر بتیائے تو ایسا لگتا ہے جیسے علم کے سمندر میں غوطہ خوری کی ہے۔ اِس کے باوجود ایسے لوگ اپنے بیشتر معاملات میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ وہ اچھے ٹیچر بھی نہیں بن پاتے۔ اُن سے دوسرے بہت سے علمی کام بھی نہیں ہو پاتے۔ ایسا کیوں ہے؟ بات اِتنی سی ہے کہ وہ متعلقہ طریق سے دور رہتے ہیں اور ہر طرح سے آزاد طریقِ زندگی کو اپناتے ہوئے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خود بھی دنیا کو قبول نہیں کر رہے ہوتے اس لیے دنیا بھی انہیں قبول نہیں کر رہی ہوتی۔ یہ کھیل، تماشا یا ڈرامہ زندگی بھر جاری رہتا ہے اور یوں غیر معمولی صلاحیت و سکت رکھنے والے یہ لوگ اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیل نہ کرنے کے نتیجے میں دنیا سے ناکام ہی چلے جاتے ہیں۔ یا اگر یہ کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ رسمی نوعیت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ وہ ایسا کچھ نہیں کر پاتے کہ لوگ تادیر یاد رکھیں۔
کامیابی یقینی بنانے کے لیے دیگر تمام امور کی تیاری کے ساتھ ساتھ موقع و محل کا خیال رکھنا بھی لازم ہے۔ کسی کو ٹیچر بننا ہے تو اُس کے لیے عمر کا خیال رکھے کہ چھوٹی عمر میں بھرتیاں تیزی اور آسانی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی بہت پڑھنے کے بعد بڑی عمر میں ٹیچر بننا چاہے تو متعلقہ امتحانات ہی میں الجھ کر رہ جائے گا۔ کسی کو محض اس لیے ٹیچر نہیں بنایا جاسکتا کہ اُس نے بہت پڑھ لیا ہے۔ سوال پڑھنے کا نہیں‘ پڑھانے کا ہے۔ اگر وہ طلبہ کو ڈھنگ سے کچھ نہیں سکھا سکتا تو پھر اس بات کی کچھ زیادہ اہمیت باقی نہیں رہتی کہ اُس نے بہت پڑھا ہے اور بہت سوچا ہے۔
ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ اپنی صلاحیت اور سکت کو لگن سے متصف کرنے کے بعد بھی وقت اور مقام کا خیال نہیں رکھتے۔ بیشتر معاملات میں وقت گزر جانے کے بعد کچھ کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ یا اگر کوئی کام بروقت کرنے کا سوچ بھی لیا جائے تو محل یعنی مقام غلط ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز اُسی وقت اچھے نرخ پر فروخت ہوسکتی ہے جب اُس کی ضرورت پائی جاتی ہو۔ وقت گزرنے جانے پر یعنی ضرورت ختم ہو جانے پر اُس چیز کی نسبتی اہمیت گھٹ جاتی ہے۔ کسی کو ٹھنڈے مشروبات کے دھندے میں کمانا ہے تو گرمیوں میں ایسا کرنا زیادہ مفید ہوگا۔ جب گرمیاں گزر چکی ہوں اور موسم خنک ہو چلا ہو تو ٹھنڈے مشروبات کی مارکیٹ ویلیو گر جاتی ہے۔ ایسے میں فروخت کا حجم بھی گھٹے گا اور منافع کی شرح بھی نیچے آجائے گی۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو اُس وقت بیچنے نکلتے ہیں جب اُس کی طلب نمایاں حد تک گھٹ چکی ہوتی ہے۔ نقالی عام ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت کچھ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ موقع و مَحَل نظر انداز کرنے پر صرف ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں