عوام کے مسائل کا حل کون تلاش کرے گا؟ کچھ پتا نہیں! ملک کی سلامتی اور استحکام یقینی بنانے سے متعلق جامع اقدامات کی بے داغ منصوبہ سازی کون کرے گا؟ یہ بھی کچھ واضح نہیں۔ ملک کو ڈھنگ سے چلانے کے معاملے میں اپنی ذمہ داری کون نبھائے گا؟ یہ عقدہ بھی کسی پر وا ہونے کا نام نہیں لیتا۔ حالات روز بروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ عام آدمی پریشان ہے کہ اپنے بنیادی مسائل کا حل کہاں تلاش کرے؟ کوئی اپنے طور پر کتنا کرے اور کب تک کرے؟ جہاں پینے کے صاف پانی، بجلی اور گیس جیسی انتہائی بنیادی چیزوں کی فراہمی کا نظام بھی تلپٹ ہو چکا ہو وہاں کوئی کسی سے داد رسی کی کیا امید رکھے؟ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے آخر ایسا کیا کرے کہ بار آور ثابت ہو۔ عام آدمی سوچ سوچ کر دبلا ہوا جاتا ہے کہ ملک کا بنے گا کیا اور دوسری طرف وہ ہیں جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں مگر صرف سیاہی بڑھانے کو اہمیت دے رہے ہیں، سفیدی کی طرف تو دیکھ بھی نہیں رہے۔ ملک جن کے ہاتھوں میں ہے اُن کا عجیب ہی فسانہ ہے۔ لاکھ توجہ دلائیے، وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ صرف ذاتی مفادات کو بنیاد و محور بناکر سوچا جارہا ہے۔ محض اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر لاحق ہے۔ قومی خزانے میں کیا رہتا ہے اور کیا نہیں اِس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے خال خال ہیں۔ یہ محدود سوچ قدرت کی نعمت کا درجہ رکھنے والی سرزمینِ پاک کو مٹی کا ڈھیر ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔
حکومت تبدیل ہوئی ہے مگر اور کچھ تبدیل نہیں ہوا یعنی کوئی بڑی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ ہاں! خرابی کی بات کیجیے تو ہر طرف گراوٹ ہی کا بازار گرم ہے۔ ہر معاملہ زیادہ سے زیادہ ابتری کی طرف رواں ہے۔ عوام دم بخود ہیں کہ جب کوئی بہتری ممکن بنانی ہی نہیں تو پھر اِتنا شور شرابہ کس حساب میں؟ ہر دور اور ہر معاملہ اپنے ساتھ چند اصطلاحات لاتا ہے۔ چند ماہ سے ہمارے ہاں رجیم چینج کا کچھ زیادہ ہی غلغلہ ہے۔ ہر حکومت کو رجیم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ لفظ کسی خاص قسم کی حکومت کے لیے بولا جاتا ہے جس سے مشابہ کوئی اور حکومت نہ پائی جاتی ہو۔ مثلاً شمالی کوریا کی یا پھر ایران کی حکومت کو بہت حد تک رجیم کہا جانا چاہیے۔ سوال اچھائی یا بُرائی کا نہیں‘ انفرادیت کا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کے خاتمے کو رجیم چینج قرار دینا میرے نزدیک محض سادہ لوحی ہے کیونکہ عمران خان کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت اپنی نوعیت اور کارکردگی کے اعتبار سے کچھ خاص نہیں تھی۔ یہ ہمارے ہاں قائم ہونے والی عمومی طرز کی حکومتوں جیسی ہی تھی۔
اسی طور چند برسوں سے ہمارے ہاں سیاسی بیانیے میں سٹیک ہولڈرز کا لفظ کچھ زیادہ اور تواتر سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی معاملے میں جن لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو اُنہیں سٹیک ہولڈر کہا جاتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں یہ لفظ بولا جارہا ہے اور لوگ اس کے ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ اختیارات اور وسائل کی بحث اس ایک لفظ سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتی ہے۔ کسی کی اصل حیثیت چاہے کچھ بھی ہو‘ خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُسے بھی سٹیک ہولڈر قرار دیا جائے۔ کسی معاملے میں جس کا حصہ ایک فیصد کے مساوی بھی نہ ہو‘ وہ بھی چاہتا ہے کہ اُسے سٹیک ہولڈر قرار دیا جائے اور اسی اصطلاح سے پکارا جائے۔ سیاسی بیانیے کا المیہ یہ ہے کہ اب ہر سیاسی معاملے کو ''سیاسی بیانیہ‘‘ قرار دے کر اُس کی قدر کا گراف بلند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جن سیاست دانوں کا قد کاٹھ صفر کے آس پاس ہے وہ بھی اپنی ہر بات کو ''سیاسی بیانیہ‘‘ قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بیشتر معاملات محض اصطلاحات میں دب کر رہ گئے ہیں۔ معاملات سیاسی چرب زبانی سے شروع ہوکر چرب زبانی ہی پر ختم ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم تو ہے مگر کچھ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا جس سے کوئی بڑا فرق رونما ہو ہو سکتا ہو۔ سیاسی سطح پر افتراق و انتشار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اپوزیشن نچلی بیٹھنے کو تیار نہیں۔ جن کی حکومت ختم ہوئی ہے وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اب اختیارات و وسائل اُن کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ حد یہ ہے کہ سابق وزیراعظم اگر اپنے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر براہِ راست خطاب کریں تو اِسے قوم سے خطاب قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے کسی بھی 'خطاب‘ کو زیادہ سے زیادہ عوام سے خطاب قرار دیا جا سکتا ہے، قوم سے خطاب صرف صدر یا وزیراعظم کا استحقاق ہے۔
جمہوری روایت تو یہ ہے کہ جس کی حکومت ختم ہو وہ اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھے، حکومت پر گرفت کرے، اُس کی کارکردگی کا جائزہ لے کر کوتاہیوں کی نشاندہی کرے اور عوام کو بتائے کہ حکومت کہاں کہاں معاملات میں ڈنڈی مار رہی ہے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنا کوئی انوکھا معاملہ نہیں۔ یہ جمہوریت کو مستحکم کرنے ہی کا عمل ہے۔ ہمارے ہاں حکومت کی تبدیلی کو واقع ہوئے چار ماہ ہونے والے ہیں۔ ایوانِ اقتدار سے نکلنے کے بعد سے اب تک پی ٹی آئی اور اُس کی ہم خیال جماعتوں نے اپوزیشن کی حیثیت قبول نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں قومی سیاست و معیشت کا جو حشر ہوا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ اِتنی خطرناک تیزی کے ساتھ جاری ہے کہ دیکھ کر دل میں ہول اٹھتے رہتے ہیں۔
کسی بھی نئی حکومت کے قیام کے بعد اپوزیشن کا کام اُس کی کارکردگی کا محاسبہ کرنا ہوتا ہے نہ کہ اُسے کام ہی نہ کرنے دینا۔ ہمارے ہاں معاملہ اب تک یہ ہے کہ حکومت کو قدم قدم پر روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جنہیں حکومت ملی ہے وہ بھی کسی خاص تیاری کے بغیر آئے ہیں مگر خیر‘ اُنہیں کام تو کرنے دیا جائے۔ اگر وہ کام ہی نہیں کر پائیں گے تو محاسبہ کس بات کا کیا جائے گا؟ معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب آرمی چیف کو امریکی قیادت سے کہنا پڑا ہے کہ پاکستان کو قرضوں کا نیا پیکیج دینے کے لیے آئی ایم ایف پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ یہ گویا سیاسی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کے سیاسی نظام پر بھروسا ہی نہیں رہا۔ یہی سبب ہے کہ اُن قوتوں کو میدان میں آنا پڑا ہے جن پر بیرونی طاقتیں ہر معاملے میں بھروسا کرتی ہیں۔
امریکی قیادت سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے رابطے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ اُس نے پاکستان میں بعض سٹیک ہولڈرز سے بات کی ہے یعنی بات گھوم پھر کر پھر سٹیک ہولڈرز تک آگئی ہے۔ ایسے میں سوچا جا سکتا ہے کہ ملک کس حد تک stake پر ہے! سیاسی نظام جس نہج پر ہے وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کے لیے جی رہی ہیں۔ ہر جماعت یہ تاثر دینے کے لیے کوشاں ہے کہ اُس کے سر پرمقتدرہ کا ہاتھ ہے۔ یہ ''دستِ شفقت‘‘ جس کے سر پر ہو اُس کا انجام بالآخر کیا ہوتا ہے‘ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ ہمارے سیاسی سٹیک ہولڈرز فلموں کے ولن والی سوچ رکھتے ہیں۔ ہر فلم کے آخر میں ولن کا انجام بُرا ہوتا ہے مگر پوری فلم میں مزے تو اُسی کے ہوتے ہیں! وقت آگیا ہے کہ سیاسی مفادات سے بلند ہو کر ملک و قوم کے لیے سوچا جائے۔ کشتی چھوٹی ہو یا بڑی، کمزور ہو یا مضبوط، جب تک ہے تب تک سفر ہے۔ کشتی ہی نہ رہے تو غرقاب ہونا مقدر ہے!