کسی بھی ترقی پذیر ملک کے سب سے بڑے شہر کو جو اہمیت دی جانی چاہیے وہ کراچی کو بھی دی جارہی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اہمیت عوام دے رہے ہیں، ریاستی اور انتظامی مشینری کو کچھ نہیں پڑی۔ معاملات کو ''آٹو‘‘ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ جتنے بھی مسائل ہیں وہ ایک دن خود بخود حل ہو جائیں گے۔ کسی بھی زخم کو سینے کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ خود بخود بھر نہیں جاتا بلکہ اس کے ناسُور بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کراچی وہ بدنصیب شہر ہے کہ ملک بھر کا مفاد اِس کے مفادات سے وابستہ ہے مگر کوئی اِس پر ڈھنگ سے متوجہ ہونے کے لیے تیار نہیں۔ شہر کمائی کا ذریعہ بھی ہے اور آباد ہونے کے لیے سازگار ماحول کا حامل بھی مگر پھر بھی کوئی نہیں سوچ رہا کہ یہ شہر مستحکم رہے گا تو ملک کے لیے زیادہ بار آور ثابت ہوگا۔
کراچی کو بہت کچھ درکار ہے۔ بنیادی سہولتوں کا نیٹ ورک اب تقریباً خاتمے کی منزل میں ہے۔ عوام کو ضرورت کے مطابق پانی میسر ہے نہ بجلی۔ گیس کا معاملہ کچھ بہتر رہا ہے مگر اب اُسے بھی پیچیدہ تر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگ اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے جیب سے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ ہر معاملہ مافیا کی نذر ہوچلا ہے۔ جس چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اُس کے حصول کے لیے لوگ چار و ناچار اپنی جیب ڈھیلی کرتے ہیں۔ حکومتی اور انتظامی مشینری اس حوالے سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ لوگ احتجاج بھی کر رہے ہیں، شور بھی مچارہے ہیں مگر جنہیں اس شہر کا نظم و نسق سونپا گیا ہے اُن کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔
کراچی کو کسی اور چیز سے زیادہ جامع اور ہمہ گیر منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔ شہر کے لیے جو منصوبہ سازی کی گئی تھی وہ کب کی از کارِ رفتہ ہوچکی۔ شہر کے لیے جو بنیادی ڈھانچا تیار کیا گیا تھا وہ اصلاً چالیس پچاس لاکھ افراد کے لیے کافی تھا۔ اس وقت شہر کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ 60 لاکھ اور نجی دعووں کے مطابق ڈھائی سے تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر دباؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ محض خرابی سے دوچار نہیں بلکہ اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام جواب دے چکا ہے۔ بجلی کا معاملہ چند علاقوں کو لوڈ شیڈنگ کے دائرے میں گھماکر نمٹایا جارہا ہے۔ جن علاقوں سے پوری ریکوری ہو رہی ہے اُنہیں تو بجلی تسلی بخش انداز سے دی جارہی ہے؛ تاہم غریب بستیوں کا بہت برا حال ہے۔ بعض علاقوں میں بجلی کی بندش کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے جنریٹر نہیں چلا سکتے اور یو پی ایس یا سولر پینل بھی نہیں لگوا سکتے‘ وہ بجلی چوری کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شہر بھر میں بہت بڑے پیمانے پر بجلی چرائی جارہی ہے۔ کے الیکٹرک کو اپنی لاگت پوری کرنے سے غرض ہے۔ بجلی چوری کے نتیجے میں جو نقصان اسے پہنچتا ہے اُسے وہ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں کے کھاتے میں منتقل کردیتا ہے۔ اُسے اور کوئی حل سُوجھتا ہی نہیں۔ چوروں کے خلاف کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے الگ سے شعبہ قائم کرکے پولیس فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ سبھی کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ جہاں معاملات ملی بھگت سے شروع ہوکر ملی بھگت پر ختم ہو رہے ہوں وہاں کوئی بھی کسی مقصد کی خاطر پراپر چینل کے ذریعے جانا کیوں پسند کرے گا؟ کرپشن کا معاملہ اتنا پھیل چکا ہے کہ قدم قدم پر ''سٹیک ہولڈرز‘‘ سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔
کراچی کے لیے نیا ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ شہر میں جہاں جہاں سرکاری زمینوں پر لوگ قابض ہیں اُن سے زمین واگزار کرانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک بڑا رجحان یہ ہے کہ اگر کہیں سرکاری زمین واگزار کرانے کی کوشش کی جائے تو لوگ احتجاج کرتے ہیں اور پھر تشدد پر اُتر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر سیاسی جماعتیں پوری کردیتی ہیں جو نمبر بنانے پہنچ جاتی ہیں۔ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے کچی آبادیاں بنانے والوں کی مدد کے لیے جب سیاسی جماعتیں کھڑی ہو جاتی ہیں تو اُنہیں مزید شہ ملتی ہے اور وہ سرکاری مشینری کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں تجاوزات کے خلاف بھی آپریشن ڈھنگ سے کامیاب نہیں ہو پاتا، تو پھر سرکاری زمینیں واگزار کرانے کے بارے میں کون سوچے۔
شہرِ قائد کو ایسی منصوبہ سازی درکار ہے جو کم و بیش پچاس سال کے لیے کافی ہو۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ راتوں رات ہو جائے۔ کراچی میں ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں۔ کچی آبادیوں کو بے ہنگم طریقے سے ختم کرنے کی صورت میں لسانی اور نسلی منافرت بڑھ سکتی ہے۔ جس برادری کو اٹھایا جائے گا وہ سمجھے گی صرف اُس پر ظلم ڈھایا جارہا ہے، باقی سب تو مزے سے جی رہے ہیں۔ یہ پورا معاملہ بھرپور احتیاط اور توجہ سے نمٹانے کی ضرورت ہے۔ ہر برادری کے مضبوط اور حقیقی نمائندوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ ندی نالوں کے کنارے آباد لوگوں کو ہٹانے کے لیے فضا سازگار بنانا ہوگی۔ شہر میں بیسیوں مقامات پر بے گھر افراد نے پُلوں کے نیچے، سڑکوں کے کنارے یا ندی نالوں کے منہ پر جھونپڑیاں اور کچے مکانات بنا رکھے ہیں۔ یہ لوگ حوادث کے خطرے سے بھی دوچار رہتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافے کا ذریعہ بھی ہیں۔ ناگزیر ہے کہ اس حوالے سے پوری سنجیدگی کے ساتھ سوچا جائے۔ بیشتر کچی آبادیاں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کے مراکز میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ شہر کے داخلی راستوں پر غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی بستیوں کا ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ یہ مقامی آبادی کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔
شہرِ قائد پر آبادی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور اِس بڑھتے ہوئے دباؤ کو مقامی آبادی برداشت کر رہی ہے۔ بہت سے لوگ یہاں چالیس سال سے آباد ہیں مگر اب تک غیر مقامی ہیں کیونکہ نہ تو وہ پکے مکانوں والی آبادیوں میں رہتے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اِن میں سے بیشتر تمام بنیادی سہولتوں سے غیر قانونی طور پر مستفید ہوتے ہیں اور اِس ضمن میں ایک پائی بھی ادا نہیں کرتے۔
کراچی کسی بھی مقامی یا غیر مقامی فرد کی جاگیر یا سلطنت نہیں۔ یہ مِنی پاکستان ہے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ یہاں سکونت پذیر ہیں۔ جو لوگ یہاں آباد ہوچکے ہیں اُنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی بھی ضرورت ہے اور بنیادی سہولتوں سے مستفید ہونے پر اُن سے وصولی بھی کی جانی چاہیے۔ کچی آبادیوں میں لاکھوں افراد غیر قانونی کنکشنز کے ذریعے پانی اور بجلی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس مد میں ہونے والے خسارے کا بھگتان مقامی، پختہ آبادیوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صریح نا انصافی اب ختم ہونی چاہیے۔ کراچی کے لیے ایسا ماسٹر پلان تیار کیا جائے جس کے ذریعے لوگوں کو ڈھنگ سے آباد کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔ شہر کے جن دور افتادہ علاقوں میں وسیع سرکاری قطعاتِ اراضی پڑے ہیں اُنہیں چھوٹے پلاٹس کی شکل میں کم نرخوں پر فروخت کیا جائے تاکہ انتہائی غریب طبقہ بھی اپنے لیے سر چھپانے کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ کراچی کو غیرمعمولی سکیورٹی درکار ہے۔ لوٹ مار کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی راہ روکنے پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ لوگ بے فکری کے ساتھ معاشی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں اور معاشرتی معمولات میں بھی کوئی رخنہ نہ پڑے۔ کسی بھی سطح کی حکومت کو شہرِ قائد میں حقیقی امن اور استحکام یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے تاکہ اہلِ شہر ڈھنگ سے جی سکیں اور قومی معیشت میں اپنا کردار بھرپور دلجمعی کے ساتھ ادا کرسکیں۔
جو کراچی سمیت پورے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُنہیں اب اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جانا چاہیے۔ کراچی سمیت ہر بڑا شہر مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ شہری علاقوں پر آبادی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ دیہات سے نقلِ مکانی کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ لازم ہے کہ چھوٹے بڑے تمام شہروں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ دیہات و قصبات میں بھی روزگار کے ذرائع کے حوالے سے کچھ بہتری لائی جائے۔ اِسی صورت شہروں پر پڑنے والے دباؤ میں کمی واقع ہوگی اور یوں معاشرتی سطح پر پایا جانے والا خلفشار قابو میں لایا جاسکے گا۔