کیریئر کے حوالے سے محنت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ معاشرے میں سنجیدگی کا فقدان سہی مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ اپنے لیے کچھ بہتری چاہتے ہی نہیں۔ لوگ محنت بھی کرتے ہیں اور کچھ بننے کی خواہش بھی رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ بننے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ ہی کے ماحول میں بہت سے لوگ زندگی بھر مثالی نوعیت کی محنت کرنے کے باوجود کچھ خاص نہیں بن پاتے، بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ سوال صلاحیت کا ہے نہ سکت کا۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اُن میں صلاحیت بھی ہوتی ہے اور سکت بھی مگر پھر بھی وہ زیادہ دور نہیں جا پاتے۔ زندگی کی دوڑ اُنہیں بہت تیزی سے تھکا دیتی‘ ہرا دیتی ہے۔ ہم چاہے کسی بھی ماحول میں ہوں، اُس میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو قدم قدم پر حوصلہ شکن ثابت ہوتا ہے۔ ہم دوسروں کو دیکھ دیکھ کر بہت کچھ اخذ کرتے رہتے ہیں۔ کامیابی کے معاملات ہم پر خوش گوار اثرات مرتب کرتے ہیں؛ تاہم کسی کی ناکامی ہم پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ بھرپور کامیابی کے لیے غیر معمولی عزم درکار ہوتا ہے۔ یہ عزم ہی بہت آگے لے جانے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ مثالی نوعیت کا عزم ہی انسان کو کامیابی کے لیے درکار لیاقت اور سکت پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ ہم جو کچھ بننا چاہتے ہیں وہ ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی کا طالب ہوتا ہے۔ سنجیدہ ہوئے بغیر مثالی نوعیت کی کامیابی ممکن نہیں بنائی جا سکتی۔
شخصی ارتقا کے حوالے سے جو لوگ میدان میں ہیں وہ بہت سے بنیادی معاملات پر زور دیتے ہیں اور بھرپور کامیابی کے لیے درکار ذہنیت پیدا کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ پھر بھی لوگ زیادہ نہیں سیکھ پاتے اور کچھ زیادہ بن پاتے ہیں نہ کر پاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ لوگ بہت چاہنے پر بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے؟ حد یہ ہے کہ غیر معمولی محنت بھی غیر معمولی کامیابی کی ضامن قرار نہیں دی جا سکتی۔ کیوں؟ اس کیوں پر غور کرنے والے برائے نام ہیں۔ ہم زندگی بھر کسی نہ کسی حوالے سے محنت تو کرتے ہیں مگر شاندار کامیابی یقینی بنانے کے لیے جس نوعیت کی محنت لازم ہوتی ہے وہ نہیں کر پاتے۔ سوال صرف محنت کا نہیں بلکہ ذہانت سے آراستہ محنت کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ذہانت سے آراستہ محنت کیا ہے؟ کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ کچھ لوگ کم محنت کے نتیجے میں زیادہ پاتے ہیں اور بہت سے لوگ بہت محنت کرکے بھی زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ سوال نصیب یا تقدیر کا نہیں۔ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے طے کر رکھا ہے وہ تو مل کر ہی رہے گا مگر ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے لیے کیا لکھا جا چکا ہے۔ ہم سے تو بس یہ کہا گیا ہے کہ پوری دیانت سے محنت کرنی چاہیے اور ذہن سے کام لیتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے شعبے میں قدم رکھنا چاہیے۔ ہر شعبہ چند معاملات پر خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اِسی کا نام ذہانت ہے۔ بعض شعبوں میں محنت بنیادی چیز ہے۔ اُن شعبوں میں زیادہ محنت ہی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے چند شعبوں میں صرف محنت کافی نہیں ہوتی بلکہ دوسرے بہت سے معاملات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بریانی صرف اس بات کا نام نہیں کہ چاول اور گوشت گَل گیا ہو۔ سوال صرف پکے ہوئے ہونے کا نہیں، لذیذ ہونے کا بھی ہے۔ تمام معاملات کا یہی حال ہے۔ کسی ایک پہلو سے مطمئن ہوکر پورے معاملے کو قبول نہیں کر لیا جاتا بلکہ تمام پہلوؤں کے حوالے سے مطمئن ہونے کی صورت ہی میں سُکون سے بیٹھا جاتا ہے۔
ہر معاشرے میں ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جو سوچے اور سمجھے بغیر محنت کرتے چلے جاتے ہیں اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُس سے مطلوب نتائج حاصل ہو پارہے ہیں یا نہیں۔ لوگوں کے ذہن میں، عمومی سطح پر، یہ تصور واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ محض پسینہ بہانے سے سب کچھ یا بہت کچھ مل سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محض محنت کچھ زیادہ نہیں دے پاتی۔ وہی محنت مثالی کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہے جسے ذہانت سے آراستہ کیا گیا ہو۔ محنت کو ذہانت سے آراستہ کرنے کا عمل تھوڑا سا پیچیدہ اور محنت طلب ہے۔ اِس کے لیے تھوڑی سی منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے، تحقیق سے کام لینا پڑتا ہے، کچھ غور و خوض بھی کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی اس مرحلے سے بھاگتا ہے۔ معاملات کو سمجھنے اور اُن کے بارے میں غور کرکے اپنے لیے جامع منصوبہ سازی یقینی بنانا وہ مرحلہ ہے جس سے گزرے بغیر لوگ آگے جانا چاہتے ہیں۔ اِس طور آگے جانا ایک ہی جگہ کھڑے رہنے کے برابر ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ حتمی تجزیے میں محنت کس طرح کے ثمرات دیتی ہے۔ محنت اور ذہانت کے ملاپ سے ملنے والی کامیابی دیرپا ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے مثال کا درجہ اختیار کرتی ہے۔ آئیے! ایک واضح مثال کے ذریعے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی محنت اور سوچ سمجھ کر کی جانے والی محنت میں بنیادی فرق ہوتا کیا ہے۔ یہ سوال ہم نے کھیلوں کے شعبے سے چار عشروں سے وابستہ اپنے دوست منصور علی بیگ کے سامنے رکھا کہ آخر کیا سبب ہے کہ بہت سے اچھے کرکٹرز کلب کی سطح سے بلند نہ ہو پائے جبکہ اُن کا کھیل دیکھ کر لگتا تھا وہ تو کرکٹ کی دنیا میں قیامت ڈھا دیں گے۔ منصور علی بیگ کی توجیہ و توضیح یہ تھی کہ سیمنٹ اور مٹی کی وکٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سیمنٹ کی وکٹ پتھریلی اور بے جان ہوتی ہے۔ مٹی کی وکٹ (ٹرف) کسی حد تک جیتی جاگتی مخلوق ہوتی ہے یعنی موسمی حالت بدلنے پر اپنا مزاج بدلتی ہے۔ شدید گرمی پڑ رہی ہو تو ٹرف وکٹ سخت ہوکر قدرے بے جان ہو جاتی ہے۔ فضا میں نمی ہو تو یہی وکٹ قیامت ڈھانے لگتی ہے۔ کراچی میں کلب کی سطح کی کرکٹ سیمنٹ کی وکٹوں پر کھیلی جاتی رہی ہے کیونکہ اس وکٹ کی دیکھ بھال نہیں کرنا پڑتی۔ ایک بار بنادی تو بنادی۔ ٹرف وکٹ کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اِس بات کو یقینی بنانا پڑتا ہے کہ زیادہ نہ بھیگے اور کوئی اُس پر نہ چلے۔ بیٹنگ کرنے والوں کے دوڑنے سے بھی ٹرف وکٹ متاثر ہوتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں میچ کا نتیجہ بھی تبدیل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ منصور علی بیگ کا کہنا ہے کہ سیمنٹ کی وکٹ پر گیند اُتنی ہی اُٹھتی ہے جتنی بولر اٹھانا چاہتا ہے۔ اور ٹرن بھی اُتنا ہی لیتی ہے جس قدر بولر ٹرن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیمنٹ کی وکٹ پر فاسٹ بولر کو کھیلنے میں ایک بڑی آسانی یہ رہتی ہے کہ لائن اور لینتھ کا اندازہ ہو جائے تو گیند سیدھی بیٹ پر آتی ہے۔ سیمنٹ پر کھیلنے والوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ فاسٹ بولر کی گیند کس رفتار اور زاویے سے کتنی اونچائی پر آئے گی۔ یہی سبب ہے کہ سیمنٹ کی وکٹ پر کھیلنے کے عادی ٹرف وکٹ پر زیادہ نہیں چل پاتے۔ اعلیٰ درجے کی کرکٹ ٹرف وکٹ ہی پر کھیلی جاتی ہے۔
اگر کسی کو کرکٹ کی دنیا میں کچھ بننا ہے، آگے جانا ہے تو سیمنٹ کی وکٹ پر اپنے آپ کو برباد کرنے سے گریز کرتے ہوئے ٹرف وکٹ پر کھیلنے میں مہارت پیدا کرنا ہوگی۔ ماضی میں کراچی اور لاہور کے بہت سے انتہائی باصلاحیت کرکٹر محض سیمنٹ کی وکٹ پر کھیلنے کے نتیجے میں ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکے۔ صلاحیت اور سکت کس میں نہیں ہوتی؟ بیشتر نوجوانوں میں سکت تو ہوتی ہی ہے، تھوڑی بہت صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ ہاں‘ مناسب راہ نمائی کا اہتمام نہ ہونے پر وہ کچھ زیادہ نہیں کر پاتے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے اُس کی ڈائنامکس یعنی بنیادی عوامل کو سمجھنا پڑتا ہے۔ ہر شعبے میں سیمنٹ اور ٹرف وکٹ والا فرق پایا جاتا ہے۔ کوئی خود کو بڑی کامیابی کے لیے تیار نہ کرے تو بہت محنت کرنے پر بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں جا پاتا۔
نئی نسل یاد رکھے کہ بھرپور کامیابی کے لیے بھرپور ذہانت سے کی جانے والی محنت ہی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ جنگل میں ہوش رُبا رفتار سے دوڑنے والے گھوڑے سے کہیں کم رفتار سے دوڑنے والا ریس کا گھوڑا فاتح ٹھہرتا ہے۔