وقت کے بہترین نظم و نسق کا معاملہ ہمارے ہاں ہمیشہ شدید بلکہ سنگین نوعیت کی لاپروائی کا شکار رہا ہے۔ عام پاکستانی وقت کے بارے میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ یہ خزانہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ سچ یہی ہے کہ وقت کبھی ختم ہونے والا نہیں مگر سوال وقت کا نہیں‘ ہمارے وقت کا ہے۔ بازار میں تو بہت کچھ دستیاب ہوتا ہے مگر وہ سب کا سب ہمارا نہیں ہوتا۔ ہمارا تو بس وہی کچھ ہوتا ہے جس کے حصول کی ہم نے کوشش کی ہوتی ہے اور جس کی قیمت چُکائی ہوتی ہے۔ وقت ہمیں خریدنا نہیں پڑتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ جو وقت ہمیں عطا کیا گیا ہے بس وہی ہمارا ہے۔ ہماری زندگی کی حدود سے باہر چاہے جتنا بھی وقت ہو، ہمارے لیے اس میں کچھ نہیں۔
چارلس رچرڈز نے خوب کہا ہے کہ کیلنڈر سے کبھی دھوکا نہ کھائیں۔ کیلنڈر میں سال کے 365 دن ہوتے ہیں۔ آپ کیلنڈر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ سال میں اِتنے دن ہیں‘ دل مطمئن رہتا ہے کہ ایک اور سال ملا ہے اور کچھ کر دکھانے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے مگر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کیلنڈر میں آپ کے لیے کتنے دن ہوتے ہیں؟ کیلنڈر میں درج سارے کے سارے دن نہ تو آپ کے لیے ہیں نہ کسی اور کے لیے۔ ہر انسان کے لیے کیلنڈر میں صرف اُتنے دن ہوتے ہیں جتنے وہ اپناتا ہے۔ اپنائے جانے سے مراد ہے کہ جنہیں وہ بروئے کار لاتا ہے۔ سال بھر میں صرف وہی دن ہمارے ہوتے ہیں جو عمل سے آراستہ ہوں، جن کا ایک ایک پل بروئے کار لانے پر توجہ دی گئی ہو۔ وقت کو بروئے کار لانے کا معاملہ طرزِ فکر و عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ حال ہے کہ ایک ہفتے‘ ایک مہینے میں سال بھر کا کام کر ڈالتے ہیں اور بیشتر کی کیفیت یہ ہے کہ سال بھر میں ایک ہفتہ بھی ڈھنگ سے کام نہیں کرتے۔ وقت، صلاحیت و سکت اور کام کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ اِن تینوں معاملات کو پوری توجہ سے سمجھنا پڑتا ہے تاکہ برتنے میں آسانی رہے۔ وقت دھیرے دھیرے ہمارے ہاتھوں سے پھسلتا رہتا ہے۔ ہماری صلاحیتیں اگر بروئے کار نہ لائی جائیں تو اُن پر زنگ چڑھتا رہتا ہے۔ اِسی طور اگر ہم اپنی سکت کو بروئے کار نہ لائیں تو وہ بھی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ وقت کے معاملے میں سب سے بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اندر ہی اندر یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ وقت ضائع ہو رہا ہے اور اُس سے ہم فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔ جو لوگ کچھ نہیں کرتے اُنہیں وقت کا ضیاع پریشان کرتا ہے اور جو لوگ بہت کچھ کرتے ہیں وہ دن رات اِس لیے پریشان رہتے ہیں کہ وقت سے کماحقہٗ مستفید ہونے کا ذہن نہیں بنایا جاسکا۔ دونوں ہی صورتوں میں ذہن الجھتا ہے مگر پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جو لوگ عمل نواز رویے کے حامل رہتے ہیں وہ قدرے پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔
دنیا بھر کی کتابیں پڑھ دیکھیے۔ یہ نکتہ آپ کو بہت سے اہلِ قلم کے ہاں ملے گا کہ فکر و نظر کے اعتبار سے استحکام اُنہی لوگوں کی سوچ میں پایا جاتا ہے جو دن رات کام میں مصروف رہتے ہیں، وقت ضائع کرنے سے کتراتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا کرنے کی ذہنیت کے حامل رہتے ہیں۔ ہماری تخلیق کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ خود بھی کام کے ثابت ہوں اور دوسروں کو بھی کارآمد بننے میں مدد دیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بہت سفاک ہے، یہ کسی کی نہیں ہوئی اور کبھی ہوگی بھی نہیں۔ قدم قدم پر حالات کا رونا رونے والے ملیں گے جو بات بات پر یہ جتلائیں گے کہ اُن میں بہت کچھ تھا مگر دنیا نے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا، اُن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا نہیں سوچا۔ کیا واقعی؟ اگر دنیا ایسی ہی سفاک ہے اور کسی کی صلاحیتوں کی قدر کرنا نہیں جانتی تو پھر لوگ کامیابی سے ہم کنار کس طور ہوتے ہیں؟ اگر دنیا ایسی ہی بے رحم اور سنگ دل ہو‘ جیسی کہ بیان کی جاتی ہے‘ تو پھر اِس دنیا میں کسی کے لیے بھی کامیابی کی گنجائش پیدا نہ ہو۔ یہ دنیا ظالم ہے نہ کوئی بھی فرد مظلوم۔ یہ پورا معاملہ اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے والا ہے۔ کسی بھی انسان کو اُتنا ہی ملتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے یعنی جس کے لیے وہ پورے من سے کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی کوشش نہ کرے تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ قدرت نے ہمارے لیے بہت کچھ طے کر رکھا ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہم اُسے پانے کے لیے بھرپور جدوجہد کریں، اپنے آپ کو بروئے کار لائیں، اپنی صلاحیت و سکت کا گراف بلند کریں اور اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ پوری توجہ کے ساتھ بارآور بنائیں۔
زندگی کھیل تماشے کا معاملہ نہیں۔ یہ منصوبہ سازی کا میدان ہے۔ جس نے جتنی منصوبہ سازی کی‘ وہ اُتنا ہی کامیاب ہوا۔ سوال محض صلاحیتوں کاحامل ہونے کا نہیں بلکہ اُنہیں بروئے کار لانے کا بھی ہے۔ ہم ایک ایسے ماحول کا حصہ ہیں جس میں سب کچھ عمل سے وابستہ ہے۔ عمل سے پہلے سوچ ہوا کرتی ہے مگر سوچ بھی عمل ہی کے لیے ہوتی ہے۔ عمل نہ ہو تو پھر کیسی ہی بلند سوچ ہو‘ کس کام کی؟ سوچ اور عمل سمیت تمام معاملات گھوم پھر کر وقت کے دائرے میں آتے ہیں۔ وقت ہی طے کرتا ہے کہ کسے کیا کرنا ہے۔ وقت کا محدود ہونا ہماری ترجیحات کے تعین کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو وقت کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر بھی ترجیحات کا تعین کرسکتا ہے۔ مگر اِس کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اُس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔
زندگی دنوں کا شمار یاد رکھنے کا نام نہیں بلکہ اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لاکر اپنی اور دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کا نام ہے۔ حقیقی کامیاب اُنہی کو کہا جائے گا جو روئے ارض پر اپنے حصے کا ہر دن ڈھنگ سے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری ہر کوشش کامیابی سے ہم کنار ہو‘ یہ لازم نہیں۔ کبھی کبھی صورتِ حال یوں تبدیل ہوتی ہے کہ ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں، ہماری محنت داؤ پر لگتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی اگر مطلوب کامیابی نہ مل پائے تو دکھ ضرور ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ دل کو اس بات کا اطمینان بھی رہتا ہے کہ کوشش تو کی، محض تماشائی تو نہیں بنے رہے۔ ہر کامیاب معاشرہ آپ کو عمل کے محاذ پر لڑتا ہوا ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی دولت کسی بھی سطح پر وقت سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وقت ہی طے کرتا ہے کہ کون کیا بنے گا، کیا کرے گا۔ جس نے وقت کی قدر جانی وہی آگے بڑھ پایا۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ وقت کی اہمیت کو سمجھے اور محنت کیے بغیر کچھ مل بھی جائے تو ٹِک نہیں پاتا۔ کامیابی وہی ہوتی ہے جو وقت کی قدر جانتے ہوئے پوری دیانت کے ساتھ محنت کے ذریعے حاصل کی جائے۔
بہت کچھ پانے کی خواہش ہر دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ محض چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کسی نے اپنی کسی بھی خواہش کو محض پروان چڑھانے پر توجہ دی ہے یا حقیقت کا روپ دینے کے بارے میں بھی کچھ سوچا ہے۔ حقیقی اور دیرپا کامیابی یقینی بنانے کے لیے منصوبہ سازی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ کیلنڈر ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ یہ بہتر منصوبہ سازی میں ہماری معاونت کرتا ہے مگر حتمی تجزیے میں یہ دیکھا جائے گا کہ ہم کیلنڈر پر دکھائی دینے والے کتنے دن اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سال میں جتنے دن ہوتے ہیں وہ کسی کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سنجیدہ ہوا جائے، وقت کی قدر و قیمت کا احساس کیا جائے، جو کچھ بھی کیا جائے سوچ سمجھ کر کیا جائے۔
نئی نسل کو بہت کچھ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے مگر سب سے بڑھ کر یہ بتانا ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے اور وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے لیے منصوبہ سازی انتہائی ناگزیر ہے۔ وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے حوالے سے پائی جانے والی سنجیدگی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ نئی نسل کے لیے یہ معاملہ زیادہ بارآور ہوتا ہے۔