کسی بھی کشتی کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہی کہ اُسے لنگر انداز رہنے دیا جائے‘ سمندر میں بڑھایا ہی نہ جائے۔ کشتی سمندر میں جائے گی تو اُس کے ڈوبنے کا خطرہ بھی پیدا ہوگا۔ ایسے میں کشتی کو محفوظ رکھنے کی یہی ایک صورت رہ جاتی ہے کہ اُسے گہرے پانیوں کے مقابل نہ لے جایا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کشتی کس لیے بنائی جاتی ہے۔ کیا بندر گاہ پر‘ جیٹی پر لنگر انداز رکھنے کے لیے؟ یقیناً نہیں۔ کشتی بنانے کا بنیادی مقصد اُس کے ذریعے دریا یا سمندر میں سفر کرنا ہے۔ پانی اور کشتی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کشتی کے ذریعے سفر میں خطرہ بھی چھپا ہوتا ہے مگر کشتی کا بنیادی کام پانیوں میں سفر کرنا ہی تو ہے۔ اگر اس سے یہ کام نہ لیا جائے تو پھر وہ کس کام کی؟ خطیر رقم خرچ کرکے تیار کی جانے والی کشتی محض نمائش کی چیز نہیں ہوا کرتی۔
پتنگ بھی اسی لیے ہوتی ہے کہ اُسے فضا کی نذر کیا جائے۔ پتنگ فضا میں بلند ہوکر ہی ماحول کی زیبائش میں اضافہ کرتی ہے۔ پتنگ اس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے گھر میں رکھا جائے‘ دیوار پر ٹانگ دیا جائے یا شو کیس کی زینت بنادیا جائے۔ پتنگ کوئی ڈیکوریشن پیس نہیں بلکہ اڑانے کا آئٹم ہے۔ پتنگ کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُسے اڑایا نہ جائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پتنگ نہ اڑانے کے لیے نہیں بنائی جاتی۔
پتنگ موافق ہوا میں بھی اڑتی ہے اور مخالف ہوا میں بھی۔ مخالف ہوا میں پتنگ زیادہ بلند ہوتی ہے اور اُسے اڑانے کا مزا بھی مخالف ہوا ہی میں ہے۔ ایک پتنگ پر کیا موقوف ہے‘ زندگی کے ہر معاملے میں سارا لطف کشمکش میں ہے۔ پتنگ کی طرح کوئی بھی شخص ناموافق حالات کا سامنا کرکے اپنے آپ کو زیادہ بلکہ قابلِ رشک حد تک بلند کر سکتا ہے۔ اگر سب کچھ اچھا چل رہا ہو تو انسان کچھ زیادہ کر نہیں پاتا کیونکہ اسے ایسا کرنے کی تحریک نہیں ملتی۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو وہ دن رات ایک کرکے‘ ایک عمر کھپاکر کچھ بنتا ہے‘ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ محنت چونکہ اُس نے کی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی دولت کو سینت کر رکھتا ہے۔ اُس کی اولاد نے چونکہ عمومی سطح پر زیادہ جدوجہد نہیں کی ہوتی اس لیے وہ باپ کی کمائی کو سوچے سمجھے بغیر خرچ کرتی ہے۔ بھرپور کامیابی اور دولت کے حصول کی منزل تک پہنچے ہوئے انسان کی اولاد بالعموم زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتی اور ایسا کچھ زیادہ نہیں کر پاتی جو باپ کی وراثت میں اضافہ کرے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب سبھی کچھ آسانی سے مل رہا ہوتا ہے تب انسان کشمکش کے مرحلے سے نہیں گزرتا اور کچھ زیادہ کرنے کی تحریک نہیں پاتا۔
آپ نے ایسے بہت سے فن پارے دیکھے ہوں گے جن کا معیار ٹیم ورک کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور ٹیم ورک سے مراد مسابقت و کشمکش کے مختلف مراحل سے گزرنا بھی ہے۔ بعض کام ایسے ہیں جو ٹیم ورک کے بغیر مکمل کیے ہی نہیں جا سکتے۔ کھیلوں کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کرکٹ‘ ہاکی‘ فٹبال اور دوسرے بہت سے کھیلوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب پوری ٹیم اچھا کھیلتی ہے تب فتح نصیب ہوتی ہے۔ اگر فٹبال کا کوئی میچ محض ایک گول سے جیتا جائے تو گول کرنے والے کھلاڑی کو سب سراہتے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ باقی کھلاڑیوں نے گول نہیں ہونے دیا! یوں کھیل کا نتیجہ ایک گول کے فرق سے پیدا ضرور ہوا مگر فتح کا کریڈٹ ٹیم کے تمام ارکان کو جانا چاہیے۔
اداکاری کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر فلم ٹیم ورک کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ مل کر ڈھنگ سے کام کرتے ہیں تب ایک شاندار فلم بنتی ہے۔ کسی بھی فلم کی کہانی‘ مکالمے‘ اداکاری‘ موسیقی‘ سیٹ ڈیزائننگ‘ سنیماٹو گرافی‘ ایڈیٹنگ اور دیگر شعبے اچھے تال میل کے ساتھ پیش کیے جائیں تب فلم کامیاب ہوتی ہے۔ کسی بھی فلم کی کامیابی کا سہرا کسی ایک اداکار یا اداکارہ یا پھر کاسٹ‘ یونٹ سے وابستہ کسی ایک فرد کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ بہت سے بڑے اداکار اُس وقت بڑے بنے جب اُنہیں اپنے سامنے کھڑے ہونے والے معیاری اداکاروں کو منہ دینا پڑا! بھرپور مسابقت ہی کسی بھی اداکار کو زیادہ اونچائی پر لے جاتی ہے۔ آپ نے ایسے کئی اداکار دیکھے ہوں گے جو کمزور کہانی اور عمومی سی کاسٹ میں کچھ زیادہ نہیں کر پائے۔
اداکاری کے حوالے سے کسی اور کی تو کیا‘ دلیپ کمار جیسے اداکار کی مثال بھی موجود ہے۔ دلیپ صاحب کے پائے کا اداکار ہوا ہے نہ اب ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کئی فلموں میں ایسی اداکاری کی ہے جو دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بن گئی ہے۔ دلیپ صاحب کی کارکردگی کا معیار یا گراف بلند کرنے میں اُن کی اپنی صلاحیت اور لگن کے ساتھ ساتھ اُن فنکاروں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اُن کے مقابل شاندار اداکاری کرکے اُنہیں کچھ اور آگے جاکر اپنے فن کے ذریعے دنیا کو حیران ہونے کا موقع فراہم کیا۔ 1983ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دنیا‘‘ میں دلیپ صاحب کا مقابلہ امریش پوری‘ پران اور پریم چوپڑا سے تھا جو اپنے اپنے مقام پر اداکاری کے نوگزے پیر تھے۔ ان تینوں ولنز کی شاندار اداکاری نے یقینی طور پر دلیپ صاحب کو بھی ان سے آگے جاکر کچھ کر دکھانے کی تحریک دی۔ اور یوں بالی وُڈ کو ایک اچھی فلم ملی۔ یہی معاملہ 1982ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''وِدھاتا‘‘ کا بھی تھا۔ اس فلم کے ذریعے دلیپ صاحب کے کریئر کی دوسری اننگز شروع ہوئی تھی۔ اس فلم میں امریش پوری‘ مدن پوری‘ سنجیو کمار اور شمی کپور نے شاندار پرفارمنس دی تھی۔ ان سب کی بھرپور صلاحیتوں کے مقابل دلیپ صاحب نے بھی فلم کے شائقین کے سامنے اپنا آپ کھول کر رکھ دیا۔
کسی بھی انسان کو آگے بڑھنے‘ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی حقیقی تحریک صرف اور صرف مسابقت سے ملتی ہے۔ جب مقابلہ سخت ہو تو انسان بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اُترتا ہے۔ جیتنے کا مزا بھی اُسی وقت ہے جب فریقِ ثانی مضبوط ہو۔ کسی کمزور کو ہرا کر جیتنے میں کچھ نہیں رکھا۔ ایسی حالت میں شخصیت پروان نہیں چڑھتی۔ ایسی متعدد فلمیں آپ کے علم میں ہوں گی جن کی ناکامی کا سبب صرف یہ تھا کہ کسی بڑے اداکار کے مقابل مضبوط اداکاروں کو نہیں رکھا گیا۔ اسی طور کسی بھی کمزور ٹیم میں کوئی ایک کھلاڑی اچھا ہو تو کچھ خاص نہیں کر پاتا۔ کوئی بھی کھلاڑی تنِ تنہا پوری ٹیم کو چلا نہیں سکتا۔ سبھی کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر موسیقی اچھی نہ ہو اور نغمہ نگار نے بھی محنت نہ کی ہو تو اچھا گلوکار بھی کچھ خاص جادو نہیں جگا پاتا۔ جب دُھن اچھی ہوتی ہے اور نغمہ نگار نے بھی اپنا تخلیقی جوہر بے نقاب کیا ہوتا ہے تب گلوکار کو کچھ اچھا کر دکھانے کی تحریک ملتی ہے۔
زندگی بھی ایک ایسی پتنگ ہے جو تُند و تیز ہوا میں زیادہ اونچی اڑتی ہے اور اپنے وجود کو بامعنی ثابت کرتی ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا حقیقی موقع اُسی وقت ملتا ہے جب متعلقہ ماحول میں بھرپور مسابقت پائی جارہی ہو۔ اگر ہر طرف بے دِلی چھائی ہوئی ہو تو غیر معمولی صلاحیت کے حامل فرد کے لیے کر دکھانے کو کچھ خاص نہیں رہ جاتا۔ پورا ماحول زندگی سے عبارت ہو تو بُجھے ہوئے دل بھی چراغوں کی طرح جل اُٹھتے ہیں۔
کچھ کر دکھانے کی تمنا رکھنے والے ہمیشہ ایسا ماحول ڈھونڈتے ہیں جو بہتر کام کرنے کی تحریک دے‘ اپنی شخصیت اور صلاحیت کے دیرپا نقوش چھوڑنے کے حوالے سے مہمیز دے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں مسابقت کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اور ٹیم ورک کو بھی۔ چند افراد الگ الگ کام کریں تو نتیجہ کچھ اور نکلتا ہے اور اگر یہی لوگ مل کر کام کریں تو بات کچھ اور ہو جاتی ہے۔ انفرادی سطح پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تمنّا رکھنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دوسروں کی محنت کے ذریعے پیدا ہونے والے موافق ماحول کے بغیر وہ کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی تنِ تنہا کچھ خاص نہیں کر سکتا۔ بھرپور انفرادی کارکردگی میں بھی متعلقہ ماحول میں پائے جانے والے افراد کی کارکردگی کا اچھا خاصا حصہ ہوتا ہے۔ محنت اور کامیابی کے بازار کی ساری رونق اِسی خصوصیت سے ہے....۔