زندگی کی بڑی نعمتوں میں اولاد نمایاں ہے۔ نعمت کے معاملے میں اولاد کا معاملہ بھی وہی ہے جو دیگر نعمتوں کا ہے۔ ہر نعمت اپنے دامن میں کوئی نہ کوئی آزمائش بھی رکھتی ہے۔ اولاد کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر انسان خود بھی اولاد ہی ہوتا ہے اور بہت سے صاحبِ اولاد بھی ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کا ایک انتہائی حسین روپ ہے۔ ہم زندگی کے جھمیلوں میں گم ہوکر اولاد اور صاحبِ اولاد ہونے کی نعمت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اس حقیقت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ ایک وقت وہ ہوتا ہے جب انسان اولاد ہونے کے مزے لُوٹ رہا ہوتا ہے۔ والدین اُس پر فدا ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی انسان سے محبت تو بھائی بہن بھی کرتے ہیں مگر جو بات والدین کی محبت اور شفقت میں ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے وہ بھائیوں‘ بہنوں کی محبت میں کہاں۔ والدین کی بھرپور شفقت میسر ہو تو انسان کسی بھی مشکل سے نمٹ سکتا ہے، کسی بھی مرحلے سے گزر سکتا ہے۔ والدین کی محبت، شفقت اور توجہ کسی بھی انسان کو غیر معمولی کیریئر کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہر ماحول میں وہ بچے زیادہ اعتماد کے ساتھ عملی زندگی شروع کرتے ہیں جنہیں والدین کی محبت اور شفقت کے ساتھ ساتھ توجہ بھی حاصل رہتی ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت پر جس قدر توجہ والدین دے سکتے ہیں، کوئی اور نہیں دے سکتا۔ والدین ہی اولاد کے لیے موزوں ترین سمت متعین کرتے ہیں۔ ہر معاشرے میں نئی نسل کے لیے کچھ سوچنے‘ اور جو کچھ سوچا جائے اُسے عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری اصلاً والدین کی ہوتی ہے۔
والدین کے لیے اولاد فی الواقع ایک ایسی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ یہ تو ہوا اولاد کا سُکھ یعنی اولاد کے ملنے کی صورت میں والدین کو ملنے والا سُکھ۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ والدین کو جب اولاد کی نعمت عطا کی جاتی ہے تب وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اولاد کی محض پرورش کافی نہیں سمجھی جاتی بلکہ والدین اُس کی بہتر تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی فکر مند رہتے ہیں۔ محبت اور شفقت سے دو قدم آگے جاکر یہ مشقّت کا بھی معاملہ ہے مگر اس مشقت میں غیر معمولی تسکین پوشیدہ ہے۔ اولاد کی بہتر پرورش اور موزوں تعلیم و تربیت یقینی بنانے کی صورت میں کیسی مسرت حاصل ہوتی ہے اور کون سے درجے کی تسکین ملتی ہے یہ تو والدین ہی بتاسکتے ہیں۔ اولاد کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے لیے والدین بہت سے جتن کرتے ہیں۔ وہ اپنی نیند قربان کرتے ہیں اور خواہشات کا بھی گلا گھونٹتے ہیں۔ پیسہ، وقت، مشاغل، ترجیحات‘ سبھی کچھ تو قربان کردیتے ہیں۔ اولاد کو عملی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنا والدین کی بنیادی اور نمایاں ترین ترجیح ہوتی ہے۔ اس ایک ترجیح کے مطابق چلنے کے لیے وہ قدم قدم پر ایثار سے کام لیتے ہیں۔ اولاد پانے کا سُکھ بھی کم نہیں مگر صرف اِتنے سے والدین کی تشفی کہاں ہوسکتی ہے؟ جب تک اولاد کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ بنادیں تب تک والدین سُکون کا سانس نہیں لیتے۔ دنیا بھر میں یہی چلن ہے۔ انسان اولاد کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے اور کرتا ہی ہے۔ اولاد کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کے عمل میں جو کچھ بھی برداشت کرنا پڑے وہ ہنس کر برداشت کیا جاتا ہے۔
یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے مگر والدین کو اپنی محنت کا پھل بھی تو چاہیے۔ یہ بالکل فطری امر ہے کہ والدین جو کچھ بھی اولاد کے لیے کرتے ہیں اُس کا اُنہیں اچھا بدلہ ملنا ہی چاہیے۔ ہم کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں کہ محبت بے لوث ہوتی ہے۔ یہ معاملہ بھی ایک خاص حد تک ہی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی معاملہ کسی جواز اور معاوضے کے بغیر نہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی معاوضے کے لیے کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی کی مدد بھی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کرتے ہیں یعنی بدلے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے۔ کسی کی مدد کے صلے میں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی چاہتے ہیں۔ اِس وقت ہم سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف ہیں ۔ اِس کے عوض ہم کیا چاہتے ہیں؟ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ کوئی ہمارے اخلاص کے بدلے میں اور کچھ کرے یا نہ کرے‘کم از کم اسے یاد ضرور رکھے اور جب بھی ہمارا ذکر کرے تو اچھے لفظوں میں کرے۔ کسی کی مدد کرتے وقت بدلے میں یاد رکھے جانے کی خواہش کا حامل ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طور ہم اُن کے شکر گزار رہتے ہیں بالکل اُسی طور کسی سے مدد ملنے کی صورت میں اُس کے احسان مند رہیں۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو انسانوں کا احسان نہیں مان سکتا وہ رب کا شکر گزار بھی نہیں ہوتا۔ والدین اور اولاد کا بھی کسی قدر 'اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘ والا معاملہ ہے۔ والدین اولاد پر اپنی جوانی قربان کرتے ہیں۔ اُنہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے عملی زندگی میں بہت کچھ کرنے کے قابل بناتے ہیں تو بدلے میں اُنہیں بھی تو کچھ ملنا چاہیے۔ اولاد کسی قابل ہو جائے تو والدین ایسی مسرت محسوس کرتے ہیں جسے بیان نہیں کیا جاسکتا مگر ساتھ ہی ساتھ اُن کا اولاد پر یہ حق بھی تو ہوتا ہے کہ وہ بڑھاپے میں اُن کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے۔ اولاد کی کامیابی اُسی وقت مکمل ہوتی ہے جب والدین کو آخرِ عمر میں سلسلۂ روز و شب ڈھنگ سے جاری رکھنے کا موقع ملے۔ اِس کی گنجائش پیدا کرنے میں اولاد کو بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اولاد پاکر والدین جو سکھ محسوس کرتے ہیں وہ تب کئی گنا ہو جاتا ہے جب اولاد اپنے افکار و اعمال سے اُنہیں حقیقی مسرت سے ہم کنار کرنے پر متوجہ ہو۔ والدین جو کچھ بھی اولاد کے لیے کرتے ہیں اُس کا بدلہ اُنہیں ملنا ہی چاہیے یہ اللہ تعالیٰ کا طے کردہ نظام ہے۔ اس حوالے سے احکامات واضح کیے جاچکے ہیں۔ احادیث شریف میں بھی والدین کے حوالے سے اولاد کی ذمہ داری مذکور ہے۔ کوئی اس گمان میں مبتلا نہ ہو کہ یہ معاملہ محض لین دین کا ہے۔ والدین جو کچھ بھی اولاد کے لیے کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر محبت کا عکاس ہوتا ہے اور اِس میں اُن کے لیے عجیب روحانی تسکین کا سامان بھی ہوتا ہے مگر پھر بھی خالص منطقی انداز سے سوچنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ والدین جو کچھ بھی اولاد کے لیے کرتے ہیں اُس کے عوض اُنہیں بھی اولاد کی طرف سے بھرپور سُکھ نصیب ہونا ہی چاہیے۔ یہ کوئی چاہنے نہ چاہنے کا معاملہ نہیں۔ اولاد کو والدین کے لیے اُن کی عمر کے آخری حصے میں راحت و تسکین کا سامان کرنا ہی چاہیے۔ اِس میں اُن کے لیے بھی غیر معمولی مسرت کا اہتمام ہے۔ کسی بھی ماحول میں وہی گھر زیادہ پُرسکون اور بابرکت رہتے ہیں جن میں والدین سے حُسنِ سلوک کی روایت توانا ہو اور اُنہیں تمام مطلوب سہولتیں میسر ہوں۔ والدین عشروں تک اولاد کے لیے اپنا وقت، پیسہ اور سُکون قربان کرتے آئے ہوں اور اولاد کے لیے پُرکشش کیریئر کی راہ ہموار کی ہو تو اولاد کی اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے جو کچھ بھی اُسے مل رہا ہو اُس میں سے والدین کا حصہ نکالے، اُنہیں ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے حوالے سے جو کچھ کرسکتا ہے‘ کر گزرے۔ یہ نہ تو احسان ہے نہ احسان کا بدلہ۔ یہ محض منطق اور اخلاقی اقدار کا تقاضا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے والدین سے اچھا سلوک روا رکھتا ہے تو اُس کی اولاد بھی بہت کچھ سیکھتی ہے یعنی اُسے بھی دوسروں سے اور بالخصوص اپنے والدین سے اُن کے آخرِ عمر میں حُسن سلوک کی تحریک ملتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ایک بڑی قباحت یہ بھی دکھائی دے رہی ہے کہ لوگ جب کچھ بن جاتے ہیں اور بہت کچھ پانے لگتے ہیں تو والدین کو بھول جاتے ہیں۔ والدین کے لیے کچھ کرنے کے حوالے سے اولاد میں مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مقابلہ یوں کہ سب ایک دوسرے کے سر پر والدین کے حوالے سے ساری ذمہ داری کا بوجھ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ روش پورے خاندانی نظام کو شدید تباہی سے دوچار کر رہی ہے۔ اس حوالے سے بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے بہت کچھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔