جب چاند چڑھتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ چڑھتے سُورج کا بھی ہے۔ چڑھتے سُورج کی پوجا کرنے والوں کے بارے میں تو آپ نے بھی سنا ہوگا۔ ہر شہرت و مقبولیت سے ہم کنار ہر کامیاب انسان کو دنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بے مثال کامیابی انسان کو کچھ کا کچھ بنادیتی ہے۔ مقبولیت کبھی کبھی ایسی ہمہ گیر ہوتی ہے کہ پرستار اپنی پسندیدہ شخصیت کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ جب سچن ٹینڈولکر کا کیریئر عروج پر تھا تب بھارت میں کوئی بھی اُن پر تنقید کا ایک لفظ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ بہت سوں نے اُن کو دیوتا کا درجہ دیا۔ ایسا ہی دوسری بہت سی مشہور و مقبول شخصیات کے لیے بھی کیا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟ اِسے انتہائی رویے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ جب انسان کسی بھی معاملے میں اعتدال کی راہ سے ہٹتا ہے تو افراط یا پھر تفریط کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی حالتیں انتہائی خطرناک اور قبیح ہیں۔ انسان‘ کسی بھی حوالے سے‘ انتہا پسندی کا شکار ہوکر کہیں کا نہیں رہتا۔ بات ہو رہی ہے کچھ بننے کے مرحلے کی۔ آپ نے اب تک متعدد شعبوں کی کامیاب ترین شخصیات کو دیکھا ہوگا اور اُن سے متاثر بھی ہوئے ہوں گے۔ ہر کامیاب شخصیت انسان کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ شہرت اور مقبولیت سے ہم کنار ہونے والوں کی باتوں پر لوگ زیادہ دھیان دیتے ہیں۔ اُن کے انٹرویوز شوق سے دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان جب اپنی کامیابی کے بارے میں بتاتا ہے تو لوگ ایک خاص تک متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ کسی کی شہرت اور کامیابی دیکھ کر عام آدمی بھی ویسی ہی کامیابی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ بہت سے نوجوان کھیلوں اور شوبز سے تعلق رکھنے والی مشہور و مقبول شخصیات کو دیکھ کر جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں۔ اُن کے دل میں یہ تمنا انگڑائی لیتی ہے کہ کسی شعبے میں کچھ کر دکھائیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ تمنا جاگتی آنکھوں کے خواب والے مرحلے ہی میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔
کسی بھی شعبے میں کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی تمنا ابتدائی مرحلے ہی میں کیوں دم توڑ دیتی ہے؟ اس سوال کا بالکل درست جواب تو نفسی امور کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ انسان کسی کی بھرپور کامیابی تو دیکھ لیتا ہے، اُس سے متاثر بھی ہوتا ہے، رشک کرتا ہے، بعض صورتوں میں حسد بھی کرتا ہے مگر کبھی یہ نہیں سوچتا کہ کسی کو بھی بھرپور کامیابی محض سوچنے یا خواہش کرلینے سے حاصل نہیں ہوتی۔ کسی شعبے میں نمایاں مقام پانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، بہت کچھ بن کر دکھانا پڑتا ہے۔ یہ انتہائی جاں گُسل مرحلہ ہے۔ ہر شعبے کی نمایاں شخصیات تشکیل کے مرحلے سے گزرتی ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر معمولی محنت و مشقت اور خاصی کشمکش کے بعد حاصل ہونے والی کامیابی ہی اس قابل ہوتی ہے کہ اُس کی قدر کی جائے۔ انسان جی جان سے کی جانے والی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فقیدالمثال کامیابی کو سینت سینت کر رکھتا ہے۔ کوئی بھی اپنی محنت کی کمائی کو یونہی نہیں لٹادیتا۔ بالکل اِسی طور جب کسی کو جسم و جاں کو تھکن سے چُور کردینے والی محنت کے بعد بھرپور کامیابی ملتی ہے، شہرت و مقبولیت نصیب ہوتی ہے تب وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے، اپنی شہرت و مقبولیت کو زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تک شہرت اور مقبولیت حاصل نہیں ہو جاتی تب تک انسان جو کچھ کرتا ہے اُسے دیکھنے اور سراہنے والا کون ہے اور انسان میں کام کرنے کی لگن کیونکر توانا رہتی ہے۔ جب کوئی کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اننگز صفر سے شروع ہوتی ہے یعنی وہ کچھ نہیں ہوتا اور کچھ بھی کرکے دکھایا نہیں ہوتا۔ تب اگر کوئی اُس کی صلاحیت کو پہچانے اور سراہے تو بات ہے۔ کچھ بننے اور کر دکھانے کے لیے یہ لازم ہے کہ کوئی سراہنے والا، حوصلہ افزائی کرنے والا ہو۔ ابتدائی مرحلے میں انسان اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ کوئی اُسے دیکھے، پہچانے، سراہے اور آگے بڑھنے کی تحریک دے۔ یہ تحریک مختلف شکلوں میں ہوسکتی ہے۔ کبھی کبھی پڑوس کے یا محلے کے لوگ کسی کو کچھ کر دکھانے کی تحریک دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب دنیا تالیاں نہ بجارہی ہو، داد نہ دے رہی ہو تب کچھ قریبی لوگ درکار ہوتے ہیں جو ڈٹے رہنے کی تحریک دیتے رہیں۔ انسان باصلاحیت ہو اور ابھی کچھ نہ بنا ہو تب بھی اُسے ایسے لوگ درکار ہوتے ہیں جو مایوس نہ ہونے دیں، قدم قدم پر اُس کا ہاتھ تھامیں۔ اس کی دل جوئی کریں۔ ایسے میں کسی کی طرف سے ستائش کے چند الفاظ پوری کتاب کا کردار ادا کرتے ہیں۔
کسی بھی شعبے میں انسان کو جس کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہے مسابقت۔ ایک طرف تو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور کام کرنے کی لگن توانا رکھنے کا معاملہ ہوتا ہے اور دوسری طرف مسابقت کے باعث پائی جانے والی سیاست اور چال بازیوں سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے باصلاحیت نوجوان محنت تو کرنا جانتے ہیں مگر اپنے شعبے میں پائی جانے والی سیاست کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں یا اِس طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ اِس کے نتیجے میں وہ زیادہ تعلقات کے حامل بھی نہیں ہو پاتے۔ بہتر تعلقات ہی کسی بھی انسان کو آگے لے جاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں لوگ کسی بھی فرد کو محض صلاحیت کی بنیاد پر قبول نہیں کرتے بلکہ اُس کے بارے میں کسی سے کوئی نہ کوئی یقین دہانی بھی چاہتے ہیں۔ شوبز میں یہ معاملہ بہت زیادہ ہے۔ کھیلوں میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ میڈیا کے بارے میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رابطے اور تعلقات ہی سب کچھ ہیں۔ یہ کوئی ایسی قبیح بات بھی نہیں کہ اعتراف کرتے ہوئے شرم محسوس ہو۔
جب کوئی نوجوان کسی بھی حوالے سے اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ کر دکھانے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب اُسے ایسے چاہنے والے درکار ہوتے ہیں جو قدم قدم پر اُس کا حوصلہ بڑھائیں۔ شہنشاہِ غزل مہدی حسن جب غزل سرا ہوتے تھے تو ماحول پر سُکوت طاری ہو جاتا تھا۔ لوگ اُن کی گائی ہوئی غزل کے ایک ایک بہلاوے پر دل کھول کر داد دیتے تھے۔ مگر یہ اُن کی بھرپور کامیابی کے بعد کی بات ہے۔ جب وہ عنفوانِ شباب کی منزل میں تھے، کچھ بھی باضابطہ انداز سے گایا نہیں تھا، ریکارڈ نہیں کرایا تھا، صرف سیکھ رہے تھے تب اُنہیں داد دینے والے بھی خال خال تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو اُن سے واقعی محبت کرتے تھے، اُنہیں شفقت سے نوازتے تھے۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندی پر دکھائی دینے والوں سے پیار کرنے والے تو لاکھوں، کروڑوں ہوتے ہیں۔ محبت کرنے والے تو وہ ہوتے ہیں جو انسان سے اُس کے تشکیلی مرحلے میں محبت کریں، اُسے اُس وقت سراہیں اور چاہیں جب اُس کے بارے میں کچھ کھلا ہی نہ ہو کہ کامیابی ملے گی یا نہیں۔ ایسے وقت میں اُسے قبول کرنے کی ذہنیت جن میں پائی جاتی ہو وہی اصل فن شناس ہوتے ہیں۔
جب بھی کوئی نوجوان کچھ بننا چاہتا ہے، کچھ کر دکھانے کی خواہش کو اپنے دل میں انگڑائیاں لیتی ہوئی محسوس کرتا ہے تب وہ کچھ بننے اور کرنے کے سفر پر نکل پڑتا ہے۔ یہ راہ بہت دشوار گزار ہے۔ ایک طرف تو اپنے آپ کو پروان چڑھانا ہوتا ہے اور دوسری طرف مسابقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اور مسابقت بھی وہ جس میں پروفیشنلزم کم اور سیاست زیادہ ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو کسی بھی مشہور و مقبول شخصیت کے بارے میں کچھ جاننا ہو تو اُس سے اُس کے تشکیلی مرحلے کے بارے میں دریافت کریں۔ اُس سے پوچھیں کہ جب کوئی جانتا تھا نہ مانتا تھا تب اُن میں کام کرنے کی لگن کیونکر توانا رہی اور وہ کس طور اپنی متعین راہ پر گامزن رہے۔ کامیاب انسانوں سے پوچھنے والی بات یہی تو ہے۔ اُن کے لائف سٹائل سے متاثر ہو رہنا کافی نہیں، کامیابی کی لگن کے بارے میں بھی کچھ جاننا چاہیے۔