یہ تو آپ کا مشاہدہ بھی کہتا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی انسان بے صلاحیت پیدا نہیں ہوتا۔ قدرت نے ہر انسان کے لیے کوئی نہ کوئی صلاحیت منتخب کی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ صلاحیتوں کے خزانے کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن میں بہت سے صلاحیتیں پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ ایسے لوگ مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو منواتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک شعبے کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے‘ بالکل مختلف شعبے میں بھی اپنا آپ منوانے والے آپ کو مل جائیں گے۔ ایسے لوگ ویسے ہوتے خاصے کم ہیں۔ عام طور پر لوگ ایک ہی شعبے کی محدود صلاحیت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ اُن کی کارکردگی مجموعی طور پر ایسی نہیں ہوتی کہ کوئی خاص طور پر یاد رکھ سکے۔
اگر کسی کو قدرت نے غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہو لیکن وہ اپنے آپ کو بے صلاحیت کرنے پر تُل جائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے؟ اپنے آپ کو بے صلاحیت کرنا کیا ہوتا ہے؟ صلاحیتوں سے کماحقہٗ کام نہ لینا! ہر معاشرے میں خاصی بڑی تعداد اُن افراد کی ہوتی ہے جو اپنی فطری صلاحیتوں کو پہچانتے نہیں، اگر پہچان لیں تو اُن سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوشش کرتے بھی ہیں تو خاصے نیم دلانہ انداز سے۔ ایسے میں کسی بھی سطح پر بڑی کامیابی کیونکر یقینی بنائی جاسکتی ہے؟ جب کوئی اپنی صلاحیتوں کو تسلیم نہ کرے، اُنہیں بروئے کار لانے کے بارے میں نہ سوچے تو پست تر معیار کی، بند کمرے کی گھٹن جیسی زندگی مقدر ہو جاتی ہے۔ آج ہم اپنے معاشرے کا پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ لوگ صرف گزارے کی سطح پر جینا چاہتے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ خاص غرض دکھائی نہیں ہوتی کہ زندگی کا معیار بلند کیا جانا چاہیے، کچھ ایسا کرنا چاہیے جو لوگوں کو تادیر یاد رہے۔
اگر کوئی اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے تو پہلے مرحلے میں اپنے آپ کو ماننا ہوگا۔ اپنے آپ کو ماننے کے دو مفاہیم ہیں۔ پہلا تو یہ کہ انسان اس بات کو تسلیم کرے کہ قدرت نے اُسے باصلاحیت خلق کیا ہے اور دوسرا یہ کہ جس صلاحیت کو تسلیم کرلیا ہو اُسے بروئے کار بھی لایا جائے۔ یہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے مکمل طور پر منسلک ہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماحول میں بہت سوں کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہوا دیکھتا ہے مگر پھر بھی کچھ سیکھنے پر مائل نہیں ہوتا۔ دوسروں کو محنت کرنے پر مائل پاکر بھی وہ خود محنت کرنے پر مائل نہیں ہوتا۔ اُس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال گھر کرچکا ہے کہ ایک نہ ایک دن اُسے کامیابی مل ہی جائے گی۔ یہ بہت عجیب تصور یا تاثر ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی کام ازخود نہیں ہوتا۔ جب کچھ سوچا اور کیا جاتا ہے‘ تبھی کچھ آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
حالات کی روش دیکھتے ہوئے بے دِلی، بے حسی اور بے نیازی کے ساتھ جینے والوں کو معیاری انداز سے جینے کی طرف لانے کی تحریک دینا بہت مشکل مرحلہ ہے۔ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر عمل سے بیزاری کو حرزِ جاں بنانے کا چلن عام ہے۔ عام آدمی زندگی بھر یہی سوچتا رہتا ہے کہ جب دوسرے کچھ نہیں کر رہے تو وہ کچھ کرکے کیا تیر مار لے گا؟ لوگ ایک لگے بندھے سانچے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی نئی راہ پر گامزن ہونے سے لوگ محض اس خوف کے باعث گریزاں رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر معمولی محنت کرنے کی صورت میں کچھ حاصل نہ ہو۔ جو محنت ابھی کی ہی نہیں‘ اُس کے رائیگاں جانے کا تصور انسان کو پریشان کرتا رہتا ہے۔ کچھ نیا کرنے سے ڈرنے والے اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس دنیا میں ہمیشہ وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے دوسروں سے ہٹ کر کچھ کیا یعنی کچھ نیا اور دوسروں سے زیادہ کیا۔ اگر کوئی سب کی طرح جیے گا تو وہی کچھ کرے گا جو دوسرے کر رہے ہیں یعنی گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرنا۔ ایسے میں کسی بڑی کامیابی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ہر دور کے عام آدمی نے ڈرتے ڈرتے زندگی بسر کی ہے۔ ڈرتے ڈرتے یوں کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے وہ پریشان ہی رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب چند افراد یا معاشرے کا ایک خاص طبقہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آتا ہے، کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور اپنے آپ کو اس میں کھپا دیتا ہے تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ کسی اور کو یا پوری دنیا کو ماننے سے بہت پہلے اپنے وجود کو ماننا پڑتا ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے والے ہی دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
اپنے وجود کو تسلیم کرنے سے بہت کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اول تو اپنے وجود کو ماننا مثبت سوچ کی طرف لے جاتا ہے۔ جنہیں اپنے وجود ہی پر یقین نہ ہو وہ دوسروں کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی سوچ منفی ہوتی چلی جاتی ہے۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنے وجود کو بھی قبول نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی قبول کرنے سے انکار کرتے رہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ انتہائی خطرناک برآمد ہوتا ہے۔ جب دوسرے یہ دیکھتے ہیں کہ اُنہیں قبول نہیں کیا جارہا تو وہ بھی انکار کی روش پر گامزن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے تسلیم اور قبول کیا جائے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اُسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جارہا تو وہ بھی دوسروں کے معاملات کو نظر انداز کرنا شروع کردیتا ہے۔ یوں بے اعتنائی کے سلسلے شروع ہوتے ہیں۔
ہر عہد کے انسان کے لیے اپنے وجود کو مکمل طور پر تسلیم کرنا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ حالات قدم قدم پر حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے ہی وجود سے بھی دور رہنے پر اُکساتے رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسان جب اپنے ماحول پر نظر دوڑاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر کی حالت بُری ہے یعنی وہ بالکل عمومی سطح پر جی رہے ہیں۔ دوسروں کی ناکامی اور پژمردگی دیکھ کر انسان خود بھی محنت سے گریز کرنے لگتا ہے۔ وہ قدم قدم پر خوفزدہ رہتا ہے کہ ساری محنت ضائع نہ ہو جائے۔ جب انسان پہلے ہی مرحلے میں یہ سوچ لے کہ اُس کے معاملے میں بُرا ہوگا تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے معاملات میں بھرپور دلچسپی نہیں لے رہا ہوتا۔ جب انسان کام کے بارے میں سوچے گا نہ کیریئر بنانے پر توجہ دے گا تب معاملات میں خرابی کا در آنا حیرت انگیز نہ ہوگا۔ عمل سے دوری دراصل حقیقت سے دوری ہے۔
اگر کسی کو آگے بڑھنا ہے تو سب سے پہلے اپنی طرف بڑھے یعنی اپنے وجود کو تسلیم و قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے پر دنیا اچھی لگنے لگتی ہے اور انسان کچھ کرنے کے بارے میں سوچنے پر مائل ہوتا ہے۔ ہر ماحول میں حوصلہ شکنی کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرنے والے بھی۔ آپ کو پہچاننا ہے کہ کون کہاں ہے اور اُس سے کس طور کام لیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحول ہمیں صرف ڈراتا نہیں بلکہ بعض معاملات میں حوصلہ بھی دیتا ہے۔ ہم معاشرے میں رہتے ہوئے جیتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ کے لیے قبولیت موجود ہو۔ دوسرے قبول نہ کر رہے ہوں تو آپ کس طور جی سکیں گے، کچھ کرسکیں گے؟ ماحول میں پائے جانے والے منفی رجحانات کو اپنانے سے گریز کرتے ہوئے مثبت رجحانات اور اُن کے حامل افراد کو تلاش کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے وجود کو قبول کرکے مثبت سوچ کا اظہار کیا جائے۔ جب کوئی اپنے وجود کو اپناتا ہے تو دنیا بھی یہ بات دیکھتی اور اُس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ یوں قبولیت کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ ماحول میں پائے جانے والی ہر اُس چیز کو اپنانا ناگزیر ہے جو پیش رفت یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہو۔ اگر اس معاملے میں اپنی سوچ کو بھی بدلنا پڑے تو کچھ حرج نہیں، تھوڑا بہت ایثار بھی کرنا پڑے تو سودا بُرا نہیں۔