"MIK" (space) message & send to 7575

پہلے قدم پر

فی زمانہ ''بریک‘‘ کی اصطلاح عام ہے۔ بریک یعنی کوئی ایسا موقع جو انسان کو بہت آگے لے جائے یا آگے نکلنے کی راہ سجھائے۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے شعبے میں کسی بڑے بریک کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی بریک ملتا ہے، کیریئر کو اٹھان ملتی ہے اور کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ خیر‘ یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے جب انسان بریک اور اُس کی اہمیت کو سمجھتا ہو، اپنے آپ کو تیار رکھے اور بریک سے پورا فائدہ اٹھانے کا ذہن بنائے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ بریک ملنے پر بھی کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ متعلقہ تیاری کے معاملے میں کورے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کرکٹر کو بلند سطح کی کرکٹ میں حصہ لینے کا موقع ملے تو وہ اُسی وقت اِس موقع سے کماحقہٗ مستفید ہوسکتا ہے جب اُس نے کھیل کے تمام اسرار و رُموز سیکھے ہوں اور فٹنس پر بھی خاطر خواہ توجہ دی ہو۔ اگر کسی نے کلب کی سطح پر کرکٹ کھیلی ہو اور دن بھر میدان میں کھڑے رہنے کا کچھ خاص تجربہ یا 'ٹمپرامنٹ‘ نہ ہو تو بلند سطح کی کرکٹ میں کچھ خاص نہیں کر پاتا۔ تمام شعبوں کا یہی معاملہ ہے۔ اگر کسی نوجوان میں غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہو اور وہ اِس حقیقت سے باخبر ہو تب بھی بہت سے دوسرے معاملات پر متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ پسند کے شعبے سے وابستہ تجربہ کار افراد سے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ قابلیت پیدا کرنا لازم ہے مگر صرف یہی لازم نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ کرنا ناگزیر ہے۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھتے وقت یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے کہ اگر کوئی اچھا موقع ہاتھ آیا تو اُس سے خاطر خواہ حد تک مستفید کیسے ہوا جائے گا۔
پشاور سے آکر ممبئی میں آباد ہونے والے یوسف خان کو ایک صاحب نے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا مشورہ دیا اور دیویکا رانی سے ملوایا۔ دیویکا رانی اُس دور میں فلمی دنیا کے لیے 'شو وُمین‘ کا درجہ رکھتی تھیں اور کئی باصلاحیت فنکاروں کو اُنہوں نے بریک دیا تھا۔ دیویکا رانی نے یوسف خان میں چھپے ہوئے دلیپ کمار کو بھانپ لیا تھا۔ یوسف صاحب مطالعے کے شوقین تھے اور گفتگو کا فن بہت حد تک جانتے تھے۔ لہجے میں شائستگی تھی۔ ٹھہر ٹھہر کر اور دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے۔ دیویکا رانی نے اُنہیں ''جوار بھاٹا‘‘ کے ذریعے فلمی دنیا میں متعارف کرایا۔ اس فلم کی شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے یوسف صاحب سے کہا گیا کہ کم و بیش ڈیڑھ ماہ تک روزانہ سٹوڈیو پہنچیں، ریہرسل اور شوٹنگ دیکھیں، کام کے ماحول کو سمجھیں، یونٹ کے افراد سے تال میل بنائیں۔ ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں فلم کے لیے سائن کرتے ہی شوٹنگ کے لیے کھڑا کردیا گیا۔ دیویکا رانی جہاں دیدہ تھیں۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ کسی نوجوان کو کیمرے کے سامنے کھڑا کرنے سے پہلے کن کن معاملات پر توجہ دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ یوسف صاحب اور دیگر ''نو واردانِ شوق‘‘ کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ سٹوڈیو میں قائم منی تھیٹر میں روزانہ کوئی ایک کلاسیک انگریزی فلم دیکھیں، اداکاری کا جائزہ لیں، فلم میکنگ کی تکنیک سمجھیں اور فلم کے مجموعی تاثر کو پروان چڑھانے کے طریقوں پر غور کریں۔ یوں یوسف صاحب اور دیگر نوجوانوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد ابتدائی مرحلے میں بہت کچھ سیکھ کر خود کو آنے والے وقت کے لیے اچھی طرح تیار کیا۔
ابتدائی مرحلے میں عجلت معاملات کو بگاڑنے میں دیر نہیں لگاتی۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھتے ہی ملنے والی کامیابی کو بھی حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی بہت سے عوامل اور حالات کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کوئی بھی انسان کسی بھی کامیابی کا پورا کریڈٹ نہیں لے سکتا۔ بالخصوص ٹیم ورک کے معاملے میں۔ نئی نسل کو کام سے زیادہ کام کے ماحول کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔ کام اُسی وقت اچھا ہوتا ہے جب کام کا ماحول اچھا ہوتا ہے۔ انسان جن لوگوں کے ساتھ کام کر رہا ہو اُن سے مل کر چلے، فکری و عملی ہم آہنگی پیدا کرے تو معاملات کو زیادہ تیزی سے سمجھتا ہے اور ایسا بہت کچھ کر دکھانے کے قابل ہو پاتا ہے جو اُس کے ذہن میں پایا جاتا ہو۔ بہت سے نوجوان کرکٹرز محض اس لیے کچھ نہیں بن پاتے کہ مطلوب تیاری کے ساتھ میدان میں نہیں اترتے۔ بہت سے باصلاحیت بولرز بجھتے ہوئے چراغ کی طرح بھڑک کر دُھواں ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اُنہیں ابتدائی مرحلے میں ڈھنگ سے سوچنے، نظم و ضبط سے کام لینے اور کیریئر کی جامع منصوبہ سازی کرنے کے بارے میں بتایا نہیں گیا ہوتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ باصلاحیت کرکٹرز‘ اپنے ماحول کے بے ڈھنگے پن کے باعث‘ بلا جواز نخرے دکھاتے ہیں، ڈھنگ سے بات نہیں کرتے، بڑوں کی بات نہیں سنتے، اپنے آپ کو طرم خاں سمجھتے ہیں اور یوں بھرپور صلاحیت و سکت ہونے پر بھی زیادہ دور نہیں جا پاتے۔
کسی بھی شعبے میں کیریئر کا ابتدائی مرحلہ بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اس مرحلے میں نوجوانوں کے بہت سے معاملات کی آزمائش ہوتی ہے۔ اِسی مرحلے میں دیکھنے والے یہ دیکھتے ہیں کہ کسی میں معاملات کو سمجھنے، ناموافق صورتِ حال کا سامنا کرنے، خود کو پُرعزم رکھنے اور کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کی صلاحیت و سکت کس قدر ہے۔ کیریئر کی ابتدا میں زور سیکھنے پر ہونا چاہیے نہ کہ کچھ کر دکھانے پر۔ ہر شعبے میں نام کمائے ہوئے لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی سے ابتدائی مرحلے میں غیر معمولی کارکردگی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ سیکھنے کے مرحلے میں انسان کو صرف سیکھنے پر دھیان دینا چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہی ہے۔ نوجوانوں میں جوش و خروش بہت ہوتا ہے۔ عنفوانِ شباب میں جسم کی حالت قابلِ رشک ہوتی ہے۔ ذہن پختہ نہیں ہوا ہوتا مگر جسم پختہ ہوتا جاتا ہے۔ ایسے میں انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی بہت تیزی سے بہت کچھ کرنے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ ایسے میں راہ نُمائی ناگزیر ہے۔ نوجوانوں کو بتانا لازم ہے کہ دل و دماغ پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھنے ہی میں بہتری ہے۔ عملی زندگی میں مواقع کم نہیں ہوتے۔ حالات کے بدلتے ہی کسی کے لیے مشکلات تو کسی کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہی انسان اپنی حتمی منزل تک پہنچتا ہے۔ ہر کامیاب انسان کی یہی کہانی ہے۔
عملی زندگی کے آغاز سے بہت بعد تک انسان کو بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں زیادہ توجہ سیکھنے پر رہنی چاہیے۔ ہر شعبے کے بہت سے معاملات اور تقاضے ہوتے ہیں۔ غیر معمولی صلاحیت اور لگن کی بنیاد پر بریک تو مل سکتا ہے مگر یہ بریک زندگی بھر کامیابی کی ضمانت ثابت نہیں ہوسکتا۔ بریک تو آتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی موقع ہاتھ نہ آئے تو انسان کو موقع پیدا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی آپ پر متوجہ نہ ہو رہا ہو، صلاحیت و سکت کو آزمانے میں دلچسپی نہ لے رہا ہو تو آپ کو آگے بڑھ کر اپنی مارکیٹنگ کرنا پڑتی ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ لوگ آپ کے بارے میں زیادہ نہ جانتے ہوں اور آپ خواہ مخواہ یہ توقع رکھیں کہ کوئی آگے بڑھ کر آپ سے مستفید ہو۔ اپنے بارے میں دوسروں کو بتانے میں کچھ حرج نہیں۔ پروفیشنل معاملات میں ایسا ہی چلتا ہے۔ پروفیشنل اِزم اِسی کا تو نام ہے کہ آپ سب کو جانتے ہوں اور سب آپ سے واقف ہوں۔ رابطے اور تعلقات ہی انسان کے لیے آگے بڑھنے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ پریکٹیکل اپروچ یہ ہے کہ کوئی بھی نوجوان جب کیریئر شروع کرے تو رابطے بڑھائے، تعلقات قائم کرے اور ساتھ ہی ساتھ سیکھنے کا عمل بھی جاری رکھے۔ ہر شعبے میں کام کرنے کے طریقے ہی تبدیل نہیں ہوتے، ماحول بھی بدلتا رہتا ہے۔ بدلتے ہوئے ماحول کے سانچے میں ڈھلنے والے زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔
پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل مل جائے ایسا ہوتا نہیں۔ کیریئر میں کامیابی کے لیے سبھی کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عملی زندگی کی ابتدا میں بہت کچھ سیکھنا تو لازم ہے ہی، حقیقی دانش مند وہ ہے جو عمر کے کسی بھی مرحلے پر کوئی بھی کام شروع کرتے وقت خود کو مبتدی سمجھے اور کسی بھی نتیجے کے لیے تیار رہے۔ ڈبل یا ٹرپل سنچری بنانے والے بیٹسمین کی اننگز بھی صفر ہی سے شروع ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں