صحت کا معیار بلند رکھنے کے لیے نیند ناگزیر ہے۔ نیند یعنی روزانہ جسمانی و ذہنی مشقت کے بعد اِتنا سونا کہ جسم کی کھوئی ہوئی توانائی بحال ہو جائے۔ جسم کی توانائی بحال کرنے کی اِس سے اچھی صورت ممکن نہیں۔ اِسے قدرت کا عظیم عطیہ کہیے۔ ہم بہت کچھ کھا پی کر بھی جسم کی توانائی میں اضافہ کرسکتے ہیں مگر اُن تمام اشیا کے اثرات ایک خاص حد تک ہی ہوتے ہیں۔ ورزش کے ذریعے بھی چاق و چوبند رہ کر جسم کو توانا رکھنے میں مدد لی جاسکتی ہے مگر اِس کی بھی ایک حد ہے۔ جسم کو بھرپور توانائی کے ساتھ دوبارہ کام کے قابل بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم بھرپور نیند لیں۔ بھرپور نیند سے مراد ہے روزانہ کم از کم سات گھنٹے سونا۔ نیند کا نعم البدل کچھ بھی نہیں۔ جہاں نیند درکار ہو وہاں نیند ہی سے کام چلتا ہے۔
روزانہ بھرپور یا مطلوب معیار کے مطابق نیند لینا ہم سب کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھرپور نیند لے پاتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ بھرپور نیند سے کیا مراد ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں نیند کے حوالے سے یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ ایک مخصوص دورانیے کے لیے دنیا وما فیھا سے بے خبر ہو جائیے، خوابوں کی دنیا میں کھو جائیے۔ کیا واقعی نیند محض اس بات کا نام ہے کہ ہم اپنے ماحول سے یکسر لاتعلق و بے نیاز ہوکر اپنے آپ کو خوابوں کے حوالے کردیں؟ کیا بستر پر دراز ہو جانے اور محض خوابوں ہی کی دنیا میں گم ہو جانے کا نام نیند ہے؟
نیند کے حوالے سے دنیا بھر میں غیر معمولی حد تک تحقیق کی گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نیند سے متعلق محققین کی آرا کا جائزہ لے کر ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ نیند کا تعلق بنیادی طور پر اس بات سے ہے کہ ہمارا جسم کس حد تک سُکون محسوس کرتا ہے۔ نیند کا بنیادی کام ہمارے جسم کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچانا ہے۔ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تب دماغ نہیں سو رہا ہوتا بلکہ مستقل کام کرتا رہتا ہے۔ ہاں‘ نیند کی حالت میں دماغ پر چونکہ کم بوجھ پڑتا ہے اس لیے اُس کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ نیند میں دماغ معلومات کا تجزیہ کرتا ہے۔ فضول یا غیر ضروری و ناکارہ معلومات کو ایک طرف ہٹاکر ذہن ہمارے لیے ایسی معلومات کو سامنے لاتا ہے جو ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ خواب بھی دماغ کی کارکردگی ہی کا اظہار ہیں۔ جب ذہن غیر معمولی سُکون کی حالت میں ہوتا ہے تب ہم اچھے خواب دیکھتے ہیں اور جب ذہن کو سُکون میسر نہ ہو تب ایسے خواب دکھائی دیتے ہیں جو ہماری الجھنوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ طویل اور پریشان کن خواب اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دماغ ڈھنگ سے کام نہیں کر رہا۔ دماغ کی کارکردگی میں خرابی پیدا ہونے کا سبب تلاش کرنا ہو تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم کس نوعیت کی نیند لے پارہے ہیں۔
نیند کے لیے انتہائی بنیادی چیزیں دو ہیں؛ خاموشی اور سونے کی جگہ کا فطری ماحول۔ کوئی بھی انسان شور شرابے والے ماحول میں ڈھنگ سے سو نہیں سکتا۔ نیند نام ہی اِس بات کا ہے کہ ماحول پُرسکون ہو اور ہم کسی بھی نوع کی مداخلت سے محفوظ رہتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا وما فیھا سے بے خبر رکھیں۔ اگر شور شرابے سے بار بار آنکھ کھل جائے تو سونے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اگر ماحول غیر معیاری ہو یعنی اُس میں شور بھی بہت ہو اور ہوا کا گزر بھی زیادہ نہ ہو تو لوگ بھرپور یعنی پُرسکون نیند کا لطف لینے میں ناکام رہتے ہیں۔ بھرپور نیند وہ ہے جس میں طویل دورانیے تک آنکھ نہ کھلے یعنی دماغ سکون کی حالت میں ہو اور زیادہ سے زیادہ لطف کشید کرتا رہے۔
جسم کو جس نوعیت کی نیند درکار ہوتی ہے اُسے یقینی بنانے میں خواب گاہ کا فطری ماحول بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر خواب گاہ گرم رہتی ہو تو انسان بھرپور اور پرلطف نیند کے مزے نہیں لے سکتا۔ جہاں انسان سوئے وہاں ٹھنڈک ہونی چاہیے۔ یہ ٹھنڈک ایئر کنڈیشنر کے ذریعے بھی پیدا کی جاسکتی ہے؛ تاہم قدرتی طور پر پائی جانے والی ٹھنڈک کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس ٹھنڈک میں جسم غیر ضروری دباؤ سے محفوظ رہتا ہے۔ گرم ماحول میں سونے سے جسم کو وہ راحت نہیں مل پاتی جس کے حصول کے لیے نیند لی جارہی ہوتی ہے۔ ٹھنڈک کے علاوہ خواب گاہ کا ہوادار ہونا بھی لازم ہے۔ جہاں نیند لی جارہی ہو وہ جگہ اگر بند ہو یعنی ہوا کا گزر نہ ہو تو نیند کو پُرلطف بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ یوں جسم کو مطلوب حد تک توانائی بھی نہیں مل پاتی یا یوں کہہ لیجیے کہ توانائی بحال نہیں ہو پاتی۔ خواب گاہ ہوادار ہو تو دماغ کو مطلوب مقدار میں آکسیجن ملتی ہے اور وہ زیادہ عمدگی سے کام کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ گھٹن والے یا گرم ماحول میں سونے کی صورت میں نظامِ تنفس پر شدید دباؤ مرتب ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دماغ کو ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ خواب گاہ ہوادار ہو تو جسم فرحت محسوس کرتا رہتا ہے کیونکہ دماغ پُرسکون حالت میں رہتے ہوئے پورے جسم کو حالتِ سُکون میں رہنے کا پیغام دے رہا ہوتا ہے۔
نیند کا تعلق محض جسمانی صحت سے نہیں بلکہ دماغی صحت سے بھی ہے۔ جب ہم بیداری کی حالت میں ہوتے ہیں تب دماغ کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ دن بھر کام کاج کے دوران قدم قدم پر دماغ کو سوچنا اور فیصلہ سازی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر آپ موٹر سائیکل چلارہے ہوں تو ایک لمحے کے لیے بھی غافل رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ ایسی حالت میں کسی بھی نوع کا حادثہ ہوسکتا ہے۔ اور اگر کسی گاڑی میں سفر کر رہے ہوں جسے کوئی اور چلا رہا ہو تو؟ ایسی حالت میں آپ کے دماغ پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا کیونکہ آپ چاہیں تو ایک طرف بیٹھ کر، خاموشی سے، آنکھیں بند کرکے بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ڈرائیونگ کی ذمہ داری سر پر نہ ہو تو انسان سفر کے دورانِ نیند بھی پوری کرسکتا ہے یا پھر محض آنکھیں بند کرکے بھی سفر کو پُرلطف بناسکتا ہے۔ بہر کیف‘ سفر کے دوران ڈرائیونگ کی ذمہ داری ادا نہ کرنا پڑے تو دماغ سکون کی حالت میں ہوتا ہے۔ ایسے میں دماغ میں بھری ہوئی معلومات کی چھانٹی آسان ہو جاتی ہے۔ دماغ ضروری معلومات کو ایک طرف رکھتے ہوئے غیر ضروری یا غیر اہم معلومات کو ٹھکانے لگاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس بات کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ ذہن کو ڈھنگ سے بروئے کار لایا جائے۔ جب غیر ضروری معلومات ذہن کے اگلے مورچے پر نہ ہوں تو معرکہ آرائی آسان ہو جاتی ہے۔
کسی بھی باشعور قوم کے حوالے سے یہ سوچا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ نیند کو اہمیت نہ دیتی ہو۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اکثریت کے معمولات میں نیند کو غیر معمولی اہمیت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معیاری نیند ہی بہتر کارکردگی کے ساتھ ساتھ ڈھنگ سے جینے کا ہنر سیکھنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ اگر نیند اعلیٰ معیار کی ہو یعنی دورانیہ بھی مکمل ہو اور خواب گاہ بھی معیاری ماحول کی حامل ہو تو بیدار ہونے پر دماغ کسی بھی طرح کا دباؤ محسوس نہیں کرتا۔ ایسے میں دن بھر ڈھنگ سے کام کرنا ممکن ہو پاتا ہے اور وہ بھی اضافی تھکن یا ذہنی الجھن کے بغیر۔ نیند پوری نہ ہوئی ہو یعنی دورانیہ کم رہ گیا ہو اور ماحول کی بے سکونی بھی دماغ پر اثر انداز ہوئی ہو تو بیدار ہو جانے پر بھی تھکن سی باقی رہتی ہے۔ ایسے میں دماغ پوری قوت کے ساتھ کام کرنے کی پوزیشن میں مشکل سے آ پاتا ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ اِس اعتبار سے انتہائی بدنصیب ہے کہ نیند جیسے انتہائی اہم معاملے کو بھی داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ ہر عمر کے لوگ بالعموم اور نوجوان بالخصوص دیر سے سونے کے عادی ہیں۔ رات آرام کے لیے ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں اِسے وقت، زندگی اور توانائی کے ضیاع کا آسان راستہ بنادیا گیا ہے۔ رات دیر گئے سونے کی صورت میں بیدار ہونے پر ڈھنگ سے کام کے قابل ہو پانا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کون جانے کہ ہم نیند کے حوالے سے کب جاگیں گے؟