"MIK" (space) message & send to 7575

بیگیج

کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا میں تنہا آنے والا انسان جب یہاں سے رخصت ہوتا ہے تو اُس کا سامان یعنی ''بیگیج‘‘ اچھا خاصا ہوتا ہے۔ دنیا میں خالی ہاتھ آنے والا انسان جاتا بھی خالی ہاتھ ہی ہے مگر دمِ رخصت اُس کی ذات سے اِتنا کچھ جُڑا ہوا ہوتا ہے کہ بیشتر معاملات کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو بھی اس دنیا کا حصہ بنتا ہے اُسے یہاں بہت کچھ اپنانا پڑتا ہے۔ بہت سے معاملات سے اُس کا جُڑنا لازم ہوتا ہے۔ انسان چند رشتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اِن رشتوں کے ساتھ اُسے زندگی بھر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی موڑ پر وہ رشتوں کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے معاملات کو بگاڑ بیٹھتے ہیں۔ رشتے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اُن کے بغیر انسان ادھورا رہتا ہے۔ اگر کوئی بھرے پُرے گھر میں پیدا ہوا ہو اور خاندانی نظام بھی بہت حد تک برقرار ہو تو اُسے زندگی بھر اِن رشتوں کو نبھانا پڑتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں خاندانی نظام اب بھی بہت حد تک برقرار ہے اور چند خرابیوں کے باوجود لوگ اِسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اِسی کی بنیاد پر برادری کا نظام بھی کام کر رہا ہے۔ برادری سے ہٹ کر قبائلی نظام بھی ہے۔ یہ سب کچھ رشتوں کا معاملہ ہے۔ انسان کا بنیادی بیگیج یہی رشتے ہیں۔ گھرانے کی سطح سے بلند ہونے پر خاندان آتا ہے، اِس کے بعد برادری یا قبیلے کی باری آتی ہے۔ ہندو معاشرے میں یہ نظام بہت گھنا اور پیچیدہ ہے۔ انسان عمر کا بڑا حصہ رشتے ناتے نبھانے ہی میں کھپادیتا ہے۔ رشتوں سے ہٹ کر معاشرتی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ خالص دوستانہ تعلقات کے علاوہ انسان کو معاشی سطح پر بھی بہت سے تعلقات بنانا پڑتے ہیں۔ ان تعلقات کے بغیر بھی زندگی کی گاڑی ڈھنگ سے چلائی نہیں جاسکتی۔ گلی محلے سے علاقے کی سطح تک پر بھی تعلقات استوار رکھنا پڑتے ہیں۔ اِتنے بڑے بیگیج کے ساتھ زندگی گزارنا ہو تو انسان کرے گا کیا؟ کسی بھی انسان کے لیے ہر معاملہ اہم ہے۔ وہ زندگی کے کسی ایک پہلو کو بھی نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں! اگر گھر اور خاندان پر زیادہ توجہ دے گا تو معاشی پہلو رُل جائے گا۔ اگر صرف معاشی معاملات پر متوجہ رہے گا تو گھر اور خاندانی رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ اگر صرف معاشی سرگرمیوں میں الجھا رہے اور باقی وقت رشتے نبھانے میں مصروف رہے تو معاشرتی تعلقات داؤ پر لگتے ہیں۔ یہ چومکھی جنگ ہے جو ہر انسان کو لڑنا ہی پڑتی ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں کا محض سرسری طور پر جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہاں عام آدمی زندگی کے معاملے میں خالص پروفیشنل اور پریکٹیکل ہوتا ہے۔ حقیقت پسندی اِن معاشروں کا بنیادی وصف ہے۔ وہ ہر چیز کو حقیقت پسندی کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔ ان معاشروں میں زندگی کے معاشی پہلو کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ معاشرتی ڈھانچا ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ بھرپور مادّی کامیابی سے آگے سوچا ہی نہیں جاتا۔ کیا ترقی یافتہ معاشرے ہمیشہ سے ایسے رہے ہیں؟ جی نہیں! اِن معاشروں نے بھی کبھی عبرت ناک ناکامی اور بدحالی دیکھی تھی۔ اِن معاشروں میں بھی بھوک، غربت، بے روزگاری، لاقانونیت، کرپشن، اخلاقی بگاڑ سبھی کچھ تھا۔ پھر جب چند نمایاں شخصیات نے مل کر لوگوں کو ڈھنگ سے جینے کی طرف مائل کیا تب چند نئے اطوار سیکھے یا اپنائے گئے۔ اِن اطوار کی مدد سے نئے ڈھب کی زندگی ممکن بنائی گئی۔ ترقی یافتہ معاشرے جب پس ماندہ تھے تب اُن کے لوگوں میں بھی بہت کچھ ایسا تھا جو کسی کام کا نہ تھا یعنی بیگیج بہت بڑا تھا۔ لوگ غیر متعلق اور لایعنی باتوں میں الجھے رہتے تھے۔ زندگی کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے اُس کے بارے میں سوچنے اور عملی سطح پر کچھ کرنے کے بجائے لوگ غیر متعلق باتوں میں الجھے رہتے تھے۔ گھریلو اور خاندانی نظام کی پیچیدگیاں بہت سوں کی زندگی میں اتنی الجھنیں پیدا کرتی تھیں کہ وہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے عملی سطح پر کچھ کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں آ پاتے تھے۔ یورپ کے متعدد معاشرے ایک زمانے تک یا یوں کہیے کہ کئی زمانوں تک چھوٹی چھوٹی اور لایعنی باتوں میں الجھے رہے۔ عام آدمی کے لیے گھر اور خاندان کی الجھنوں سے نمٹ کر اپنی سطح بلند کر پانا ممکن نہیں ہو پارہا تھا۔ جب یہ سب کچھ حد سے گزر گیا، عام آدمی کا بیگیج بہت بڑھ گیا یعنی وہ لاحاصل اور لایعنی باتوں سے جان چھڑانے میں کامیاب ہی نہ ہو پایا تو کچھ اور سوچا گیا۔ معاشرتی ڈھانچا تبدیل کیے بغیر کچھ بھی کرنا ممکن نہ تھا۔ مغربی اور بالخصوص یورپی معاشروں نے جب بیگیج گھٹاکر زندگی کا بوجھ کم کرنے کے بارے میں سوچا اور عمل کی راہ پر گامزن ہوئے تب کچھ ہو پایا۔
ہر دور کے انسان کو بیگیج کے معاملے میں الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ چار دن کی زندگی میں سو طرح کے غم پالنے کی گنجائش کہاں ہوتی ہے؟ انسان اگر رشتے اور تعلقات نبھانے ہی میں کھپ جائے تو اپنے لیے واضح کامیابی اور انفرادی سطح کی خوش حالی کس طور ممکن بنا پائے گا؟ آج کا انسان بھی دور چار قدم چلنے کے بعد دو راہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ معاملات ہی کچھ ایسے ہیں۔ ہر معاشرے کا ڈھانچا تبدیل ہوچکا ہے۔ بعض معاملات تمام معاشروں میں مشترک ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بہت سے خواص مشترک ہیں۔ دوسرے بہت سے معاملات میں پس ماندہ معاشرے باہم مماثل ہیں بلکہ ایک دوسرے کی کاربن کاپی معلوم ہوتے ہیں۔ اب عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینا انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے اختتام کی منزل تک پہنچ جاتی ہے اور وہ کچھ بھی سمجھنے میں یکسر ناکام رہے ہوتے ہیں۔
جب انسان کا بیگیج زیادہ ہو یعنی بہت زیادہ اور فضول معاملات فکری اور نفسی ساخت کا حصہ ہوں تب فیصلہ سازی کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جب زندگی زیادہ الجھی ہوئی نہیں تھی تب بھی وقت کم تھا۔ اور اب؟ اب تو ایسا لگتا ہے کہ وقت بچا ہی نہیں۔ ہر طرف سے اس قدر دباؤ ہے کہ انسان وقت ضائع کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسے میں اگر وقت ضائع ہو ہی رہا ہو تو؟ انسان کی بدحواسی بڑھتی جاتی ہے۔ فی زمانہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ ایسے میں کسی بھی انسان کے لیے یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ وہ غیر متعلق معاملات میں الجھا رہے۔ ایسا کرنے سے وقت کے ضیاع کا دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ اس حقیقت پر کم لوگ غور کرتے ہیں کہ انسان کی بدحواسی میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے وقت کا ضیاع۔ جب وقت کا ضیاع روکنا ممکن نہ ہو پارہا ہو تب بہت سے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں بدحواسی بڑھتی ہے جو مزید خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ آج کے انسان کو قدم قدم پر منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے۔ سوچنا ہر دور میں پسندیدہ عمل رہا ہے مگر اب یہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ جو سوچنے سے گریزاں ہوں وہ صرف پریشان رہتے ہیں۔ منصوبہ سازی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان کو اپنا بیگیج کم کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ ناگزیر رشتوں سے ہٹ کر دیکھیے تو ہم بہت سے تعلقات کے دائرے میں خواہ مخواہ گھوم رہے ہوتے ہیں۔ بعض حلقوں سے ہمارا بنیادی طور پر کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر ہم اُن کا حصہ ہوتے ہیں۔ کیوں؟ صرف بے ذہنی کے باعث! ہم زیادہ سوچتے نہیں۔ آج کی زندگی صرف اور صرف سوچنے سے عبارت ہے۔ آپشنز بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسے میں وقت کی کمی کا احساس بڑھتا ہی جارہا ہے۔
یوں توہر عمر کے انسان پر اپنا بیگیج کم کرنا لازم ہے مگر نئی نسل کو اس حوالے سے خصوصی راہ نمائی درکار ہے۔ زندگی کا سفر جب شروع ہو رہا ہو تب بہت کچھ درست حالت میں رکھنے کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ سمجھنا لازم ہے کہ وہ اپنا بیگیج کم رکھنے پر متوجہ ہو۔ فی زمانہ کیریئر کے حوالے سے پیچیدگیاں غیر معمولی ہیں۔ انسان اب رشتوں اور معاشرتی تعلقات کو زیادہ نبھا نہیں سکتا۔ معاشی معاملات اِتنے الجھے ہوئے ہیں کہ اُنہیں درست کرنے ہی میں عمر کا اچھا خاصا حصہ کھپ جاتا ہے۔ بڑے بیگیج کے ساتھ سفر کرنے والوں کے لیے اب الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ ایسے میں بیگیج کم رکھنے پر متوجہ رہنا لازم ٹھہرا ہے۔ اس معاملے میں حقیقت پسندی سے کام لینا مستحسن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں